28۔ 1 یہ سابقہ مضمون ہی کی تاکید ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو بھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اس سے ڈرتے رہنا اور اس سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہنا چاہیے۔
اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ٢٨- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، وقوله : إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأحزاب 72] قيل : هي كلمة التوحید، وقیل : العدالة وقیل : حروف التهجي، وقیل : العقل، وهو صحیح فإنّ العقل هو الذي بحصوله يتحصل معرفة التوحید، وتجري العدالة و تعلم حروف التهجي، بل بحصوله تعلّم كل ما في طوق البشر تعلّمه، وفعل ما في طوقهم من الجمیل فعله، وبه فضّل علی كثير ممّن خلقه . وقوله : وَمَنْ دَخَلَهُ كانَ آمِناً [ آل عمران 97] أي : آمنا من النار، وقیل : من بلایا الدنیا التي تصیب من قال فيهم : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ التوبة 55] . ومنهم من قال : لفظه خبر ومعناه أمر، وقیل : يأمن الاصطلام وقیل : آمن في حکم الله، وذلک کقولک : هذا حلال وهذا حرام، أي : في حکم اللہ . والمعنی: لا يجب أن يقتصّ منه ولا يقتل فيه إلا أن يخرج، وعلی هذه الوجوه : أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنا حَرَماً آمِناً [ العنکبوت 67] . وقال تعالی: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْناً [ البقرة 125] . وقوله : أَمَنَةً نُعاساً- [ آل عمران 154] أي : أمنا، وقیل : هي جمع کالکتبة . وفي حدیث نزول المسیح : «وتقع الأمنة في الأرض» . وقوله تعالی: ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ [ التوبة 6] أي : منزله الذي فيه أمنه .- وآمَنَ : إنما يقال علی وجهين :- أحدهما متعدیا بنفسه، يقال : آمنته، أي :- جعلت له الأمن، ومنه قيل لله : مؤمن .- والثاني : غير متعدّ ، ومعناه : صار ذا أمن .- ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ( سورة الأحزاب 72) ہم نے ( بار ) امانت آسمان اور زمین پر پیش کیا (33 ۔ 72) کی تفسیر میں بعض نے عدل و انصاف مراد لیا ہے ۔ بعض نے حروف تہجی اور بعض نے عقل مراد لی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ معرفت توحید ، عدل و انصاف کا قیام اور حروف تہجی کی معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ انسان کے لئے علوم ممکنہ کی تحصیل اور افعال حسنہ کی سر انجام دہی عقل کے بغیر مشکل ہے ۔ اور عقل کے باعث ہی انسان کو اکثر مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ( سورة آل عمران 97) اور جو شخص اس ( مبارک ) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا (3 ۔ 97) میں امن پانے سے مراد دوزخ کی آگ سے بیخوف ہونا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ ان دنیوی مصائب سے بےخوف ہونا مراد ہے جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جن کے بارے میں إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ( سورة التوبة 55) ۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا زندگی میں ان کو عذاب دے (9 ۔ 55) ارشاد فرمایا ہے اور نہ زیر بحث آیت میں خبر بمعنی انشار ہے یعنی جو شخص حرم میں داخل ہوا ہے امن دیا جائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہلاکت سے بےخوف ہونا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اسے پرامن رہنے دیا جائے جیسے محاورہ ہے ھذاحلال وھذا حرام یعنی اللہ کا حکم یہ ہے کہ یہ جیز حلال ہے اور دوسری حرام ہے لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ مجرم جب تک حرم کے اندر ہے نہ اس سے قصاص لیا جائے اور نہ ہی کسی جرم میں اسے قتل کیا جائے اسی طرح آیت ؛۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا ( سورة العنْکبوت 67) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنا یا ہے (29 ۔ 67) اور آیت وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا ( سورة البقرة 125) اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا (2 ۔ 125) میں بھی امن کے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَمَنَةً نُعَاسًا ( سورة آل عمران 154) ( یعنی ) نیند و نازل فرمائی ) (4 ۔ 154) میں امنۃ بمعنی امن ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کتبۃ کی طرح اٰمن کی جمع ہے نزول مسیح والی حدیث میں ہے ۔ (15) وتقع الامنۃ فی الارض اور زمین میں امن قائم ہوجائیگا اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ( سورة التوبة 6) ۔ پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو (9 ۔ 6) میں مامن ظرف ہے جس کے معنی جائے امن ، ، کے ہیں ۔ امن افعال بنفسہ ۔ جیسے امنتہ ( میں نے اسے امن د یا ) اور اسی معنی کے اعتبار سے اسماء حسنی میں مومن آیا ہے ۔ (2) لاازم جس کے معنی ہیں پرامن ہونے والا ۔