مرکز نور و ہدایت سے مفرور انسان اللہ تعالیٰ عزوجل ان کافروں پر انکار کر رہا ہے جو حضور علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں تھے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دیکھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آئے وہ ان کے سامنے تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر باوجود ان تمام باتوں کے وہ بھاگ رہے تھے اور ٹولیاں ٹولیاں ہو کر دائیں بائیں کترا جاتے تھے ، جیسے اور جگہ آیت ( فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ 49ۙ ) 74- المدثر:49 ) ، یہ نصیحت سے منہ پھیر کر ان گدھوں کی طرح جو شیر سے بھاگ رہے ہوں کیوں بھاگ رہے ہیں؟ یہاں بھی اسی طرح فرما رہا ہے کہ ان کفار کو کیا ہو گیا ہے یہ نفرت کر کے کیوں تیرے پاس سے بھاگے جا رہے ہیں؟ کیونکہ دائیں بائیں سرکتے جاتے ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ متفرق طور پر اختلاف کے ساتھ ادھر ادھر ہو رہے ہیں ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے خواہش نفس پر عمل کرنے والوں کے حق میں یہی فرمایا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ ہاں کتاب اللہ کی مخالفت میں سب متفقہ ہوتے ہیں ، حضرت ابن عباس سے بروایت عوفی مروی ہے کہ وہ ٹولیاں ہو کر بےپرواہی کے ساتھ تیرے دائیں بائیں ہو کر تجھے مذاق سے گھورتے ہیں ، حضرت حسن فرماتے ہیں یعنی دائیں بائیں الگ ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے کیا کہا ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں دائیں بائیں ٹولیاں ٹولیاں ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں نہ کتاب اللہ کی چاہت ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس آئے اور وہ متفرق طور پر حلقے حلقے تھے تو فرمایا میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورتوں میں کیسے دیکھ رہا ہوں؟ ( احمد ) ابن جریر میں اور سند سے بھی مروی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ان کی چاہت ہے کہ جنت نعیم میں داخل کئے جائیں؟ ایسا نہ ہو گا یعنی جب ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دائیں بائیں کترا جاتے ہیں پھر ان کی یہ چاہت پوری نہیں ہو سکتی بلکہ یہ جہنمی گروہ ہے ، اب جس چیز کو یہ محال جانتے تھے اس کا بہترین ثبوت ان ہی کی معلومات اور اقرار سے بیان ہو رہا ہے کہ جس نے تمہیں ضعیف پائی سے پیدا کیا ہے جیسے کہ خود تمہیں بھی معلوم ہے پھر کیا وہ تمہیں دوبارہ نہیں پیدا کر سکتا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20ۙ ) 77- المرسلات:20 ) کیا ہم نے تمہیں ناقدرے پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ فرمان ہے آیت ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ Ĉۭ ) 86- الطارق:5 ) ، انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے ، یقینا وہ اللہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے جس دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی اور کوئی طاقت نہ ہو گی نہ مددگار ، پس یہاں بھی فرماتا ہے مجھے قسم ہے اس کی جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور مشرق و مغرب متعین کی اور ستاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی جگہیں مقرر کر دیں ، مطلب یہ ہے کہ اے کافرو جیسا تمہارا گمان ہے ویسا معاملہ نہیں کہ نہ حساب کتاب ہو نہ حشر نشر ہو بلکہ یہ سب یقینا ہونے والی چیزیں ہیں ۔ اسی لئے قسم سے پہلے ان کے باطل خیال کی تکذیب کی اور اسے اس طرح ثابت کیا کہ اپنی قدرت کاملہ کے مختلف نمونے ان کے سامنے پیش کئے ، مثلاً آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش اور حیوانات ، جمادات اور مختلف قسم کی مخلوق کی موجودگی جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57 ) 40-غافر:57 ) یعنی آسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جب بڑی بڑی چیزوں کو پیدا کرنے پر اللہ قادر ہے تو چھوٹی چیزوں کی پیدائش پر کیوں قادر نہ ہو گا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33 ) 46- الأحقاف:33 ) یعنی کیا یہ نہیں دیکھتے کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش میں نہ تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ بیشک وہ قادر ہے اور ایک اس پر کیا ہر ایک چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ، اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81 ) 36-يس:81 ) ، یعنی کیا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ، ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ ہاں ہے اور وہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے ، وہ جس چیز کا ارداہ کرے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے ، یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ مشرق اور مغرب کے پروردگار کی قسم ہم ان کے ان جسموں کو جیسے یہ آپ ہیں اس سے بھی بہتر صورت میں بدل ڈالنے پر پورے پورے قادر ہیں کوئی چیز کوئی شخص اور کوئی کام ہمیں عاجز اور درماندہ نہیں کر سکتا ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ Ǽۭ ) 75- القيامة:3 ) ، کیا کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کر سکیں گے؟ غلط گمان ہے بلکہ ہم تو اس کی پور پور جمع کر کے ٹھیک ٹھاک بنا دیں گے اور فرما آیت ( نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ 60ۙ ) 56- الواقعة:60 ) ، ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کر دی ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسوں کو بدل ڈالیں اور تمہیں اس نئی پیدائش میں پیدا کریں جسے تم جانتے بھی نہیں ، پس ایک مطلب تو آیت مندرجہ بالا کا یہ ہے ، دوسرا مطلب امام ابن جریر نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ہم قادر ہیں اس امر پر کہ تمہارے بدلے ایسے لوگ پیدا کر دیں جو ہمارے مطیع و فرمانبردار ہوں اور ہماری نافرمانیوں سے رکے رہنے والے ہوں ، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا 16 ) 48- الفتح:16 ) یعنی اگر تم نے منہ موڑا تو اللہ تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہو گی ، لیکن پہلا مطلب دوسری آیتوں کی صاف دلالت کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کے جھٹلانے ، کفر کرنے ، سرکشی میں بڑھنے ہی میں چھوڑ دو جس کا وبال ان پر اس دن آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہو چکا ہے ، جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا اور یہ میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم ، تھان اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں ، مارے شرم و ندامت کے نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی اور چہروں پر پھٹکار برس رہی ہو گی ، یہ ہے دنیا میں اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے کا نتیجہ اور یہ ہے وہ دن جس کے ہونے کو آج محال جانتے ہیں اور ہنسی مذاق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، شریعت اور کلام الٰہی کی حقارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کیوں قائم نہیں ہوتی؟ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ الحمد اللہ سورہ معارج کی تفسیر ختم ہوئی ۔
فمال الذین کفروا …:” مھطعین “” اھطع یھطع “ (افعال) سے اسم فاعل ہے، تیزی سے دوڑنے والے۔ ” عزین “ جمع ہے ” عزۃ “ کی، جو اصل میں د ’ عزوۃ “ یا ” عزھۃ “ تھا، ٹولیاں ، گروہ ۔ کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کرنے کے لئے ٹولیاں بنا بنا کر کبھی دائیں طرف سے دڑوے چلے آتے ، کبھی بائیں طرف سے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے، آخرت کو بھی جھٹلاتے اور مذاق سے کہتے کہ اگر بالفرض کوئی جنت ہے بھی تو وہ بھی ہمارے ہی لئے ہے، کیونکہ دنیا میں بھی ہمیں ہی زیادہ نعمتیں ملی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرح آنے پر تعجب کا اظہار فرمایا اور فرمایا کیا ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اتنا اونچا سمجھنے لگ گیا ہے کہ وہ نعمت والی جنت میں داخل ہونے کی طمع رکھتا ہے ؟ ہرگز نہیں ہم نے انہیں جس چیز سے پیدا کیا ہے اسے وہ خود بھی جاتنے ہیں، حقیر قطرے سے پیدا ہونے والے انسان کو یہ تکبر بھلا زیب دیتا ہے ؟ اس مضمون کے لئے دیکھیے سورة مرسلات (٢٠ تا ٢٣) اور سورة طارق (٥ تا ٧) ۔- ان آیات سے تین باتیں مقصود ہیں، ایک انسان کو تکبر سے باز رکھنا اوری ہ یاد دلانا کہ تم منی جیسی حقیر چیز سے پیدا ہو کر اتنے بڑے بن رہے ہو کہ جنت میں داخل ہونے کو اپنا حق سمجھ رہے ہو، حالانکہ جنت کے قابل تو رسول کی اطاعت سے ہوگے جس پر ٹولاں ی بنا کر حملہ آور ہو رہے ہو۔ دوسری کفار کے اس طمع کا رد کہ وہ جنت میں جائیں گے، گویا بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے تمہیں بھی اس چیز سے پیدا کیا جس سے دوسروں کو پیدا کیا ہے، جب سب کی پیدائش ایک جیسی ہے تو تم عمل کے بغیر جنت میں دناخل ہونے کے امیدوار کیسے بن گئے ؟ تیسری بات دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل پیش کرنا ہے کہ جب ہم نے اس حقیر پانی سے تمہیں بنا لیا تو دوبارہ بنانا کون سا مشکل کام ہے ؟ جیسے فرمایا :(الم یک نطفۃ من منی یمنی) (القیامۃ : ٣٨) ” کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔ “
فَمَالِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا قِبَلَكَ مُہْطِعِيْنَ ٣٦ ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- هطع - هَطَعَ الرجل ببصره : إذا صوّبه، وبعیر مُهْطِعٌ:إذا صوّب عنقه . قال تعالی: مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم 43] ، مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر 8] .- ( ھ ط ع )- ھطع الرجل ببصرہ کے معنی ہیں اس نے نظر جماکر دیکھا اور گردن اٹھا کر چلنے والے اونٹ کو بعیر مھطع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم 43] ( اور لوگ ) سر اٹھائے ہوئے ( میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی ۔ مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر 8] اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے ۔
(٣٦۔ ٣٧) تو ان کفار مکہ کو کیا ہوا کہ مذاق اور جھٹلانے کے لیے کہ جماعتیں بن کر آپ کی طرف دوڑ کر آتے ہیں اور آپ کو دور ہی سے دیکھتے ہیں۔