Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کرلیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا ، حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ، آیت ( يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć۝ ) 71-نوح:4 ) میں لفظ ( من ) یہاں زائد ہے ، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ ( من ) زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے ( قد کان من مطر ) میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں عن کے ہو بلکہ ابن جریر تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ من تبعیض کے لئے ہے یعنی تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں ، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا ، اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے ، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لئے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے ، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ 1۔ 2 قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] سیدنا نوح (علیہ السلام) کا ذکر :۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہ سورت پوری کی پوری آپ کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں آپ کی زندگی کے پورے واقعات مذکور نہیں ہیں۔ بلکہ اس کا اکثر حصہ سیدنا نوح کی اپنے پروردگار سے فریاد اور دعاؤں پر مشتمل ہے۔ آپ کی شبانہ روز کی تبلیغ اور پورے ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں قوم نے آپ کی تبلیغ سے جیسا اثر قبول کیا، اسی کا شکوہ سیدنا نوح اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے بیان فرماتے ہیں۔ آپ کا مرکز تبلیغ عراق میں دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ سیدنا آدم اور سیدنا نوح کے درمیان پانچ ہزار سال کا طویل عرصہ حائل ہے اور اس طویل درمیانی عرصہ میں صرف ایک ہی قابل ذکر نبی سیدنا ادریس (علیہ السلام) کا ذکر ہمیں قرآن میں ملتا ہے۔ لیکن وہ بھی صاحب شریعت نبی نہیں تھے۔ جب سیدنا نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو اس وقت ان کی قوم میں شرک کا مرض ایک وبا کی طرح پھیل چکا تھا۔ چناچہ ان ابتدائی آیات میں ہی سیدنا نوح (علیہ السلام) کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ اپنی قوم کو شرک کے برے انجام سے وارننگ دے دیجئے اور اگر وہ باز نہ آئے تو یقیناً انہیں دردناک سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(انا ارسلنا نوحاً الی قومہ…: نوح (علیہ السلام) کی قوم جس شرک اور بت پرستی میں گرفتار تھی اس کا لازمی نتیجہ دنیا اور آخرت میں عذاب الیم تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ آگاہ کرنے اور ڈرانے کے بغیر عذاب نہیں دیتا۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٥) سو اس عذاب الیم سے ڈرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا تھا کہ تم اپنی قوم کو (وبال کفر سے) ڈراؤ قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آوے (یعنی ان سے کہو کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب الیم آوے گا، خواہ نیوی یعنی طوفان یا اخروی یعنی دوزخ غرض) انہوں نے (اپنی قوم سے) کہا کہ اے میری قوم میں تمہاری لئے صاف صاف ڈرانے والا ہوں (اور کہتا ہوں) کہ تم اللہ کی عبادت (یعنی توحید اختیار) کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا (من ذنوبکم کی تحقیق سورة احقاف میں گزر چکی) اور تم کو وقت مقرر (یعنیوقت موت) تک (بلاعقوبت) مہلت دے گا (یعنی ایمان نہ لانے پر جس عذاب کا مرنے سے پہلے وعدہ کیا جاتا ہے اگر ایمان لے آئے تو وہ عذاب نہ آوے گا اور باقی موت کے لئے جو) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت (ہے) جب (وہ) آجاوے گا تو ٹلے گا نہیں (یعنی موت تو آنا ہر حال میں ضروری ہے ایمان میں بھی اور کفر میں بھی لیکن دونوں حالتوں میں اتنا فرق ہے کہ ایک حالت میں علاوہ عذاب آخرت کے دنیا میں بھی عذاب ہوگا اور ایک حالت میں مثل دنیا و آخرت دونوں کے عذابوں سے محفوظ رہو گے) کیا خوب ہوتا اگر تم (ان باتوں کو) سمجھتے (جب دنیا و آخرت دونوں کے عذابوں سے محفوظ رہو گے) کیا خوب ہوتا اگر تم (ان ابتوں کو) سمجھتے (جب مدتہائے دراز تک ان نصائح کا کچھ اثر قوم پر نہ ہوا تو) نوح (علیہ السلام) نے (حق تعالیٰ سے) دعا (اور التجا) کی کہ اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوکو رات کو بھی اور دن کو بھی (دین حق کی طرف) بلایا، سو میرے بلانے پر (دین سے) اور زیادہ بھاگتے رہے اور (وہ بھاگنا یہ ہوا کہ) میں نے جب کبھی ان کو (دین حق کی طرف) بلایا تاکہ (ان کے ایمان کے سبب) آپ ان کو بخشدیں تو ان لوگوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں (تاکہ حق بات سنیں بھی نہیں اور یہ نفرت کی انتہا ہے) اور (نیز انتہائی بغض سے انہوں نے) اپنے کپڑے (اپنے اوپر) لپیٹ لئے (تاکہ حق بات کہنے والے کو دیکھیں بھی نہیں اور کہنے والا بھی ان کو نہ دیکھے) اور (انہوں نے اپنے کفر و انکار پر) اصرار کیا اور (میری اطاعت سے) غایت درجہ کا تکبر کیا (مگر باوجود اس تنفیر وتکبر کے) پھر (بھی میں ان کو مختلف طریقوں سے نصیحت کرتا رہا چنانچہ) میں نے ان کو (دین حق کی طرف) با آواز بلند بلایا (مراد اس سے خطاب و وعظ عام ہے جس میں عادة آواز بلند ہوتی ہے) پھر میں نے ان کو (خطاب خاص کے طور پر) علانیہ بھی سمجھایا اور ان کو بالکل خفیہ بھی سمجھایا (یعنی جتنے طریقے نفع کے ہو سکتے تھے سب ہی طرح سمجھایا، غرض اوقات میں بھی عموم کیا گیا، کماقال لیلاً ونھاراً اور کیفیات میں بھی کما قال دعوتھم جھاراً الخ) اور (اس سمجھانے میں) میں نے (ان سے یہ) کہا کہ تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ ( یعنی ایمان لے آؤ تاکہ گناہ بخشے جائیں) بیشک وہ بخشنے والا ہے (اگر تم ایمان لے آؤ گے تو علاوہ اخروی نعمت کے) کہ (مغفرت ہے دنیوی نعمتیں بھی تم کو عطا کریگا، چنانچہ) کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغ لگا دے گا اور تمہارے لئے نہریں بہا دے گا (ان نعمتوں کے ذکر شے شاید یہ فائدہ ہو کہ اکثر طبائع میں نقد اور جلد حاصل ہونے اولی چیزوں کی طلب زیادہ ہے۔ در منشور میں قتادہ کا قول ہے کہ وہ لوگ دنیا کے زیادہ حریض تھے اس لئے یہ فرمایا اور اس پر یہ شبہہ نہ کیا جاوے کہ بسا اوقات یہ امور دنیویہ ایمان وا ستغفار پر مرتب نہیں ہوتے، بات یہ ہے کہ یا تو یہ وعدہ خاص انہی لوگوں کے لئے ہوگا اور اگر عام ہو تو قاعدہ ہے کہ موعود سے افضل کوئی چیز بلحاظ بھی ایفائے وعدہ ہی ہوتا ہے بلکہ وعدہ سے زیادہ، اس ایمان کامل پر روحانی مسرت و قناعت و رضا بالقضا ضرور عطا ہوتا ہے جو ان اشیاء سے بھی افضل و اکمل ہے بلکہ ساری متاع دنیا اور سبا شیاء مذکورہ کا اصلی مقصد بھی تو دل کا سکون و آرام ہی ہے۔ آگے نوح (علیہ السلام) کا تتمہ کلام ہے یعنی میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ) تم کو کیا ہوا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے معتقد نہیں ہو حالانکہ (مقضیات اعتقاد عظمت کے موجود ہیں کہ) اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا (کہ عناصر اربعہ سے تمہاری غذا، پھر غذا سے نطفہ اور نطفہ کے بعد علقہ و مضغہ وغیرہ کی مختلف صورتوں سے گزر کر مکمل انسان بنا یہ دلیل تو خود انسان کی ذات سے متعلق تھی، آگے دلیل آفاقی فرماتے ہیں کہ) کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے اور ان میں چاند کو نور (کی چیز) بنایا اور سورج کو (مثل) چراغ (روشن کے) بنایا (اور چاند گو سب آسمانوں میں نہیں ہے مگر فیھن باعتبار مجموعہ کے فرما دیا اور اس کے متعلق کچھ سورة فرقان میں گزر چکا ہے) اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے ایک خاص طور پر پیدا کیا (یا تو اس طرح کہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنائے گئے اور یا اس طرح کہ انسان نطفہ سے بنا اور نطفہ غذا سے اور غذا عناصر سے بنی اور عناصر میں غالب اجزاء مٹی کے ہیں) پھر تم کو (بعد مرگ) زمین ہی میں لیجاوے گا اور (قیامت میں پھر اسی زمین سے) تم کو باہر لے آوے گا اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو (مثل) فرش (کے) بنایا تاکہ تم اس کے کھلے رستوں میں چلو (یہ تمامتر وہ کلام ہے جس کی حکایت نوح (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ سے بطور فرمایا کی کی اور یہ سب حکایت عرض کر کے) نوح (علیہ السلام) نے (یہ) کہا کہ اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میرا کہنا مانا اور ایسے شخصوں کی پیروی کی کہ جن کے مال اور اولاد نے ان کو نقصان ہی زیادہ پہنچایا (مراد ان شخصوں سے رؤسا ہیں جن کا عوام اتباع کیا کرتے ہیں اور مال اور اولاد کا ان رؤسا کو نقصان پہنچانا بایں معنے ہے کہ مال و اولاد سرکشی کا سبب بن گئے) اور (انہوں نے جن کا اتباع کیا ہے وہ ایسے ہیں) جنہوں نے (حق کے مٹانے میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں اور جنہوں نے (اپنے تابعین سے یہ) کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ (بالخصوص) ود کو اور رسواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو چھوڑنا (خصوصیت ان کے ذکر کی اس لئے ہے کہ یہ بت زیادہ مشہور تھے) اور ان (رئیس) لوگوں نے بہتوں کو (بہکا بہکا کر) گمراہ کردیا (وہ مکر کبار یہی گمراہ کرنا ہے) اور (چونکہ مجھ کو آپ کے ارشاد لن یومن فی قومک الامن قدامن سے معلوم ہوگیا کہ یہ اب ایمان نہ لاویں گے اس لئے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ) ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھا دیجئے (تاکہ یہ لوگ مستحق ہلاکت ہوجائیں، اس سے معلوم ہوا کہ مقصود دعا کرنا زیادہ ضلال کی نہیں بلکہ استحقاق ہلاکت کی ہے اور تحقیق اس دعا کی سورة یونس میں قصہ موسیٰ (علیہ السلام) میں گزری ہے۔ غرض انجام ان لوگوں کا یہ ہوا کہ) اپنے ان ہی گناہوں کے سبب وہ غرق کئے گئے پھر (بعد غرق برزخی یا اخروی) دوزخ میں داخل کئے گئے اور خدا کے سوا ان کو کچھ حمایتی بھی میسر نہ ہوئے اور نوح (علیہ السلام) نے (یہ بھی) کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ (بلکہ سب کہ ہلاک کر دے اور عموم ہلاکت و عموم بعثت کی بحث سورة صافات میں گزری ہے آگے اس دعا کی علت ہے کیونکہ) اگر آپ ان کو روئے زمین پر رہنے دیں گے تو (حب ارشاد لن یومن الخ) یہ لوگ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے اور (آگے بھی) ان کے محض فاجر اور کافر ہی اولاد پیدا ہوگی (اور کافروں کے لئے بددعا کرنے کے بعد مؤمنین کے لئے دعا فرمائی کہ) اے میرے رب مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن ہونے کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہیں ان کو (یعنی اہل و عیال باستثاء زوجہ اور کنعان کے) اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخشدیجئے اور (چونکہ مقصود مقام میں بد دعا ہے کافروں کے لئے اور مومنین کے لئے دعا محض مقابلے کی ھمناسبت سے ہوگئی تھی اس لئے پھر مضمون بد دعا کی طرف عود ہے جس میں وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا ضَلٰلًا کے مقصود کی تفسیر ہے یعنی) ان ظالموں کی ہلاکت اور بڑھا دیجئے (یعنی ان کی نجات کی کوئی صورت نہ رہے ہلاک ہی ہوجاویں اور یہی مقصود تھا اس دعا سے کہ ان کی گمراہی بڑھا دی جائے اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے والدین مومن تھے اور اگر اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو والدین سے مراد آباد و امہات بعدیہ ہوں گے، اول دعا اپنے نفس کے لئے کی پھر اصول کے لئے پھر اہل و عیال کے لئے پھر عام تابعین کے لئے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ١- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ تم اپنی قوم کو ڈراؤ اس سے پہلے کہ ان پر پانی کا دردناک عذاب آجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :1 یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں میں وہ مبتلا ہیں وہ ان کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ ان سے باز نہ آئے ، اور ان کو بتا دے کہ اس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اس سورت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغی جدوجہد اور اُن کی دُعاوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، آپ کا مفصل واقعہ سورۂ یونس (۱۰:۲۱) اور سورۂ ہود(۱۱:۳۶) میں گزرچکا ہے۔