11۔ 1 بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورة نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر)
(یرسل السمآء علیکم مداراً…: نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے بخشش مانگنے سے صرف تمہاری آخرت ہی درست نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بیشمار نعمتیں عطا فرمائے گا، وہ تم پر موسلادھار بارشیں برسائے گا، قسم قسم کے مالوں کیساتھ اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں باغات اور نہریں عطا فرمائے گا۔ نوح (علیہ السلام) کے علاوہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) نے بھی اپنی اپنی قوم کو ایمان و استغفار سے آخرت میں حاصل ہونے والی نعمتوں کے علاوہ ان سے حاصل ہونے والی دنیوی برکتیں بھی بتائیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٣، ٥٢) ، مائدہ (٦٦) اور سورة اعراف (٩٦) ۔ ان آیا سے معلوم ہوا کہ بارش کی ضرورت ہو یا مال و اولاد کی یا کسی بھی نعمت کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ اس مقام پر تفسیر طبری اور تفسیر ابن کثیر میں عمر بن خطاب (رض) عنہماکا واقعہ لکھا ہوا ہے کہ وہ استسقا کے لئے نکلے تو انہوں نے استغفار سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور واپس آگئے۔ لوگوں نے پوچھا :” امیر المومنین ہم نے آپ کو بارش کی دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ “ تو فرمایا :” میں نے آسمان کو حرکت دینے والی ان چیزوں کے ذریعے سے بارش طلب کی ہے جن کے ذریعے سے بارش کا سوال کیا جاتا ہے۔ “ پھر یہ آیت اور سورة ہود کی آیت (٥٢):(ویزدکم قوۃ الی قوتکم) پڑھی۔ - تفسیر طبری میں عمر بن خطاب (رض) کا یہ واقعہ شعبی سے روایت کیا گیا ہے، جن کی ملاقات عمر بن خطاب (رض) سے ثابت نہیں، اسلئے یہ واقعہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا اور امیر المومنین سے امیدبھی نہیں کہ وہ بارش کی دعا کے لئے نکلے ہں اور مسنون طریقہ پر نماز اور دعا کے بغیر صرف استغفار کر کے واپس آگئے ہوں۔ صحیح بخاری (١٠١٠) میں معر بن خطاب (رض) عنہماکا بارش کی دعا کرنا اور عباس (رض) سے دعا روانا موجود بھی ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ دعائے استسقا میں بھی استغفار زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ مگر ہر مقام پر استغفار اس طریقے سے کیا جائے گا جس طریقے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے۔
يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا ١١ ۙ- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- در - قال تعالی: وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً- [ الأنعام 6] ، يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح 11] ، وأصله من الدَّرِّ والدِّرَّة، أي : اللّبن، ويستعار ذلک للمطر استعارة۔- ( د ر ر ) المدرار - ( صیغہ مبالغہ ) بہت برسنے والا قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ بر سایا ۔ يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح 11] وہ تم پر آسمان سے لگا تا ر مینہ برسائے گا اصل میں مدرار در اور درۃ سے ہے جس کے معنی دودھ کے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ بارش کے لئے استعمال ہونے لگا ہے
(١١۔ ١٢) جب بھی تم بارش کے محتاج ہوگے وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا، اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے بارش روک رکھی تھی اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے ان کے جانوروں اور عورتوں کی نسل کو ختم کر رکھا تھا اور تمہارے لیے باغ لگا دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں جاری کردے گا۔- اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے ان کے باغوں اور نہروں کو خشک کر رکھا تھا۔
آیت ١ ١ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ۔ ” وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ “- یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن کر رہو گے تو وہ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تمہارے علاقے میں خوب بارشیں برسائے گا ‘ جس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا۔ ان الفاظ سے یوں لگتا ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد کسی دور میں اس قوم پر خشک سالی اور قحط کا عذاب آیا تھا۔ جیسے قوم فرعون پر قحط اور دوسرے عذاب بھیجے گئے تھے (الاعراف : رکوع ١٦) ۔ یا جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں بہت سخت قحط پڑا تھا (سورۃ الدخان : رکوع ١) ۔ ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دراصل ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم کے لوگوں پر وقتاً فوقتاً اس لیے مسلط کیے جاتے تھے تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے رسول کی دعوت کو سنجیدگی سے سنیں۔