14۔ 1 پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور پھر خلق تام، جیسا کہ (بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۢ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ښ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیاء :5) ، (اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاۗءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَهُمُ الْاَوَّلِيْنَ 68ۡ) 23 ۔ المؤمنون :68) وغیرھا میں تفصیل گزری۔
[٧] اطوار کا معنی : آدم اور بنی آدم پر گزرنے والے اطوار :۔ اَطْوَارًا۔ طَوْر کسی چیز کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو اندازہ کے مطابق کچھ مدت بعد تدریجی تبدیلی چاہتی ہو۔ اور تَطَوُّرٍ بمعنی ایک حالت سے دوسری یا اگلی حالت میں تبدیل ہونا۔ سوچا جائے تو انسان اطوار ہی کا مجموعہ اور مظہر ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ تو سات اطوار سے گزارا (١) خشک مٹی، (٢) پھر اسے گیلی مٹی یا گارا بنایا گیا، (٣) پھر لیس دار یا چپک دار یا چیکنی مٹی بنایا گیا، (٤) پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا حتیٰ کہ اس میں بدبو پیدا ہوگئی، (٥) پھر اسے خشک کیا گیا، (٦) پھر اسے حرارت سے پکایا گیا (٧) حتیٰ کہ وہ ٹن سے بجنے والی مٹی بن گئی۔ اس مٹی سے آدم کا پتلا بنایا گیا پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو یہ صرف ایک جاندار مخلوق ہی نہیں بلکہ عقل وتمیز اور ارادہ واختیار رکھنے والی مخلوق بن گیا۔ پھر آگے اس کی نسل نطفہ سے چلائی گئی۔ زمین سے پیدا ہونے والی بےجان اشیاء انسان کی غذا بنیں۔ انہیں غذاؤں سے نطفہ بنا۔ یہی نطفہ جب رحم مادر میں حمل کی صورت میں قرار پا گیا تو وضع حمل تک اس پر سات اطوار آئے۔ تاآنکہ وہ ایک جیتا جاگتا باشعور انسان بن کر رحم مادر سے باہر آگیا۔ پھر اس پر ہر نیا دن ایک نیا طور ہے اور ان تمام اطوار پر ہمہ وقتی اور ہمہ گیر تصرف صرف اللہ کو حاصل ہے۔ ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود تم نے جو اللہ کو بےوقار سمجھ رکھا ہے تو یہ کس قدر ظلم کی بات ہے۔ ؟
(وقد خلقکم اطواراً : یعنی حقیقت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے دلائل خود تمہاری ذات میں موجود ہیں، اس نے تمہیں مختلف اطوار میں پیدا فرمایا ہے۔ پہلے ٹمی، پھر نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، پھر ان پر گوشت، پھر بہترین شکل و صورت کا انسان، جس کا ہر روز نئے سے نیا طور (انداز) ہوتا ہے، بچپن ، جوانی، بڑھپا، پھر موت، اتنے اطوار کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے کیا مشکل ہے ؟ اگر تم ایسے خلاق کی عظمت کا خیال نہ کرو اور اس کے حضور پیش ہونے کو محال سمجھتے رہو تو کتنے تعجب کی بات ہے۔ یہی بات تفصیل کے ساتھ سورة حج (٥، ٦) اور سورة مومنون (١٤ تا ١٦) میں بھی بیان ہوئی ہے۔ - ” خلقکم اطواراً “ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمہیں مختلف انداز میں پیدا فرمایا کہ کوئی ایک شخص بھی شکل و صورت، قد و قامت، رنگ روپ، آواز اور ذہنی صلاحیت، غرض کسی بھی چیز میں دوسرے سے نہیں ملتا۔ یہی مفہوم سورة روم (٢٢) میں بیان ہوا ہے۔
وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا ١٤- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔
(١٤۔ ١٦) اے مکہ والو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سات آسمان قبہ کی طرح اوپر نیچے بنائے کہ ان کے کونے متصل ہیں اور ان میں چاند کو نور کی چیز بنایا اور انسانوں کے لیے سورج کو روشن چراغ بنایا۔
آیت ١٤ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا ۔ ” اور اس نے تمہیں پیدا کیا ہے درجہ بدرجہ۔ “- اللہ تعالیٰ نے رحم مادر کے اندر تمہیں خلقت کے کئی مراحل سے گزار کر انسانی صورت میں ڈھالا ہے۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :14 یعنی تخلیق کے مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا تمہیں موجودہ حالت پر لایا ہے ۔ پہلے تم ماں اور باپ کی صلب میں الگ الگ نطفوں کی شکل میں تھے ۔ پھر خدا کی قدرت ہی سے یہ دونوں نطفے ملے اور تمہارا استقرار حمل ہوا ۔ پھر نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں بتدریج نشوو نما دے کر تمہیں پوری انسانی شکل دی گئی اور تمہارے اندر تمام وہ قوتیں پیدا کی گئیں جو دنیا میں انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے تمہیں درکار تھیں ۔ پھر ایک زندہ بچے کی صورت میں تم بطن مادر سے باہر آئے اور ہر آن تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی یہاں تک کہ تم جوانی اور کہولت کی عمر کو پہنچے ۔ ان تمام منازل سے گزرتے ہوئے تم ہر وقت پوری طرح خدا کے بس میں تھے ۔ وہ چاہتا تو تمہارا استقرار حمل ہی نہ ہونے دیتا اور تمہاری جگہ کسی اور شخص کا استقرار ہوتا ۔ وہ چاہتا تو ماں کے پیٹ میں تمہیں اندھا ، بہرا ، گونگا ، یا اپاہج بنا دیتا تمہاری عقل میں کوئی فتور رکھ دیتا ۔ وہ چاہتا تو تم زندہ بچے کی صورت میں پیدا ہی نہ ہوتے ۔ پیدا ہونے کے بعد بھی وہ تمہیں ہلاک کر سکتا تھا ، اور اس کے ایک ا شارے پر کسی وقت بھی تم کسی حادثے کے شکار ہو سکتے تھے ۔ جس خدا کے بس میں تم اس طرح بے بس ہو اس کے متعلق تم نے یہ کیسے سمجھ رکھا ہے کہ اس کی شان میں ہر گستاخی کی جا سکتی ہے ، اس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فراموشی کی جا سکتی ہے ، اس کے خلاف ہر قسم کی بغاوت کی جا سکتی ہے اور ان حرکتوں کا کوئی خمیازہ تمہیں بھگتنا نہیں پڑے گا ۔
3: اشارہ اس طرف ہے کہ اِنسان نطفے سے لے کر جیتا جاگتا آدمی بننے تک مختلف مرحلوں سے گذرتا ہے جن کا تذکرہ سورۃ حج (۵:۲۲) اور سورۂ مومنون (۲۳:۱۴) میں گذرا ہے۔ یہ سارے مراحل اﷲ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر تمہیں اس بات میں کیوں شک ہے کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔