Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جنات پر قرآن حکیم کا اثر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن کریم سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے ، فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ہم تو اسے مان چکے ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں ۔ یہی مضمون آیتوں میں گذر چکا ہے آیت ( واذ صرفنا الیک الخ ، یعنی جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآں سنیں اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کر چکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں ، پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہم رب کے کام قدرت والے اس کے احکام بہت بلند و بالا ، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے ، اس کی نعمتیں ، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے ، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( جد ) کہتے ہیں باپ کو ۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں جد ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے ، یہ قول گو سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو واللہ اعلم ، پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو ، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بےعقل ہے ، جھوٹ بکتا ہے ، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے ، پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن وانس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے ، پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں ، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں ، جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے ۔ دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا ، وہ گناہ ، خوف ، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ کردم بن ابو سائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لئے باہر نکلا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا ، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے ، ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس وہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں واللہ اعلم ۔ یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اے جنو جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یہ واقعہ (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀) 46 ۔ الاحقاف :29) کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا،

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی تھی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا ؟ ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوئی ہے۔ اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا پھر کہنے لگے : یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے آسمان کی خبر ہم پر بند کردی گئی۔ پھر اس وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں کہنے لگے (یَا قَوْمَنَا انَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔ اَحَدًا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جنوں کی یہ گفتگو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - خ جنوں کا مختلف موقعوں پر قرآن سننا :۔ اس سے پیشتر سورة احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورة احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔- جنوں کے متعلق جو حقائق قرآن میں جا بجا مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے اور ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد میں منتقل ہوگیا۔ اب جو نبی انسانوں کے لئے مبعوث ہوتا ہے وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا ہے۔- خ جنوں کی صفات :۔ (٤) جن تو انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس سورة میں بھی جن جنوں کا ذکر آیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھا نہیں تھا بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے قرآن سننے اور متاثر ہو کر ایمان لانے کی خبر دی گئی، (٥) جن بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (٦) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (٧) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (٨) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) قل اوحی الی انہ استمع…: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنوں کا قرآن سن کر ایمان لانا اور ان کی آپ س کی ساری گفتگو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہوئی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں :(ماقراء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی الجن و ما راھم) (مسلم، الصلاۃ ، باب الجھر بالقراء ۃ فی الصبح …: ٣٣٩)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ جنوں کے سامنے قرآن پڑھا اور نہ انہیں دیکھا (وہ تو آپ کے پاس اقت آئے جب آپ نخلہ میں تھے اور انہوں نے اس موقع پر قرآن سنا۔ “ ہاں، اس کے بعد کئی دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنوں سے ملاقات ہوئی اور آپ نے انہیں قرآن سنایم اور پڑھایا، جیسا کہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ سے غائب رہے، صحابہ نے وہ رات سخت پریشانی میں گزاری، تلاش کرتے کرتے وہ آپ سے اس وقت ملے جب آپ حرا کی طرف سے آرہے تھے۔ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا :(اتانی داعی الجن فذھبت معہ فقرات علیھم القرآن )” میرے پاس جنوں کا دعوت دینے والا آیا تھا، چناچہ میں اس کیساتھ گیا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ “ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں : پھر آپ ہمیں لے گئے اور ہمیں ان کے نشان اور ان کی آگوں کے نشان دکھائے۔ “ (مسلم، الصلاۃ ، باب الجھر بالقراء ۃ فی تصحیح…: ٣٥٠) اسی طرح ایک دفعہ آپ نے جنوں کے سامنے سورة رحمان پڑھی اور وہ (فبای آلاء ربکما تکذبن) تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) پر جواب دیتے رہے :(لا بشیء من یعمک ربنا ت کذب فلک الحمد) (ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الرحمن : ٣٢٩١، وقال الانباتی صحیح)” ہم تیری کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اے ہمارے رب اور تیرے ہی لئے سب تعریف ہے۔ “- (٢) ان آیات میں کفار قریش کو شرم دلائی گئی ہے کہ دیکھو اتنی مدت تک سننے کے باوجود تم پر قرآن کا کچھ اثر نہیں ہوا، نہ تم شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، جب کہ یہ اتنی اعلیٰ ، موثر اور عجیب کتاب ہے کہ جنوں کی اس جماعت نے اسے سنتے ہی ایمان قبول کرلیا اور ہمیشہ کے لئے شرک چھوڑنے کا اعلانا کردیا، حالانکہ جنوں کی سرکشی مشہور و معروف ہے۔- (٣) یہ بھی معلوم ہوا کہ جن وہ زبانیں جانتے ہیں جو انسانوں میں بولی جای ہیں، کم از کم وہ جن تو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کی باریکیوں تک کو اتنا سمجھتے تھے کہ انہوں نے قرآن کو عجیب قرار دیا اور فوراً اس پر ایمان لے آئے۔- (٤) جن بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مخطاب ہیں اور ان کے رسول بھی وہی ہیں جو انسانوں کے ہیں۔ قرآن مجید یا حدیث میں جنوں میں سے کسی پیغمبر کا ذکر نہیں آیا، اس کے برعکس زیر تفسیر سورت میں صاف ذکر ہے کہ جن قرآن پر ایمان لائے اور سورة احقاف میں ہے کہ انہوں نے کہا، ہم نے ایک ایسی کتاب سنی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے۔ (دیکھیے احقاف : ژ ٣) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا رسول مانتے تھے۔ سورة رحمان کی تمام آیات، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنوں کے سامنے انہیں پڑھنا اور ان کا جواب دینا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ سورة انبیاء (٧، ٨) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔- (٥) جنوں میں شرک کرنے والے بھی موجود ہیں، جیسا کہ یہ جن مشرک تھے اور انہوں نے قرآن مجید سننے کے بعد شرک چھوڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی آیت ا پڑھ رہ تھے جس سے انہیں شرک کی خرابی معلوم ہوئی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - شان نزول :- تفسیر آیات سے پہلے چند واقعات جاننے کے قابل ہیں جن کی ضرورت تفسیر میں پیش آوے گی۔ واقعہ اول، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمان تک پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے، آپ کی بعثت کے بعد ان کو شہاب ثاقب کے ذریعہ اس سننے سے روک دیا گیا اور اسی حادثہ کی تحقیق کے ضمن میں یہ جنات آپ تک پہنچے جیسا کہ سورة احقاق میں گذرا۔ - واقعہ دوم :۔ زمانہ جاہلیت میں عادت تھی کہ جب کسی جنگل یا وادی میں دوران سفر قیام کی نوبت آتی تو اس اعتقاد سے کہ جناب کے سروار ہماری حفاظت کریں گے یہ الفاظ کہا کرتے تھے اعوذ بعزیز ھذا الوادی من شر سفھاء قومہ یعنی میں اس جنگل کے سردار کی پناہ لیتا ہوں اس کی قوم کے بیوقوف شریر لوگوں سے واقعہ سوم مکہ مکرمہ میں آپ کی بددعا سے قحط پڑا تھا اور کئی سال تک رہا۔ واقعہ چہارم، جب آپ نے دعوت اسلامی شروع کی تو کفار مخالفین کا آپ کے خلاف ہجوم اور نرغہ ہوا پہلے دو واقعے تفسیر در منشور سے اور آخری دو تفسیر ابن کثیر سے لئے گئے ہیں۔- آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا پھر) اپنی قوم میں واپس جا کر) انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست بتلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے (قرآن ہونا تو اس کے مضمون سے معلوم ہوا اور عجیب ہونا اس سے کہ مشابہ کلام بشر کے نہیں) اور ہم (اب) اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہ بنائیں گے (یہ بیان ہے آمنابہ کا) اور (انہوں نے ان مضامین کا بھی باہم تذکرہ کیا جو ذیل میں آئے ہیں اور وہ مضامین یہ ہیں کہ) ہمارے پروردگار کی بڑی شان ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا اور نہ اولاد (کیونکہ ایسا ہونا عقلاً محال ہے۔ یہبیان ہے لن نشرک کا) اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں وہ اللہ کی شان میں حد سے بڑھی ہوئی باتیں کہتے تھے (مراد اس سے کلمات شرک بیوی اور اولاد کا اثبات وغیرہ ہیں) اور ہمارا (پہلے) یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے (کیونکہ بڑی بےباکی کی بات ہے اس میں وجہ اپنے مشرک ہونے کی بیان کی کہ چونکہ اکثر جن و انس شرک کرتے تھے ہم سمجھے کہ خدا کی شان میں اتنے شخصوں نے جھوٹ پر اتفاق نہ کیا ہوگا۔ بس ہم نے بھی اسی طریقہ کو اختیار کرلیا حالانکہ نہ مطلق لوگوں کا اتفاق کوئی دلیل حقانیت ہے اور نہ ہر اتفاق کا اتباع عذر ہے اور یہ شرک مذکور تو مشترک تھا) اور (ایک شرک خاص تھا بعضے آدمیوں کے ساتھ جس سے جنات کا کفر اور بڑھ گیا تھا وہ یہ کہ) بہت سے لوگ آدمیوں میں سے ایسے تھے کہ وہ جنتا میں سے بعضے لوگوں کی پاہ لیا کرتے تھے، سو ان آدمیوں نے ان جنات کی بد دماغی اور بڑھا دی (کہ وہ اس وہم میں مبتلا ہوگئے کہ ہم جنات کے سردار تو پہلے سے تھے اب آدمی بھی ہم کو ایسا بڑا سمجھتے ہیں بس اس سے بد دماغی بڑھی اور کفر وعناد پر اور زیادہ مصر ہوگئے۔ یہاں تک مضمون متعلق توحید کے تھا) اور (آگے بعثت یعنی قیامت کے متعلق ہے یعنی ان جنات نے باہم یہ بھی تذکرہ کیا کہ) جیسا تم نے خیال کر رکھا تھا ویسا ہی آدمیوں نے بھی خیال کر رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا (مگر یہ مضمون بھی غلط ثابت ہوا اور بعثت کا حق ہونا معلوم ہوا) اور (آگے رسالت کے متعلق مضمون ہے، یعنی ان جنات نے بام یہ بھی تذکرہ کیا کہ) ہم نے آسمان (کی خبروں) کی (موافق عادت سابقہ کے) تلاشی لینا چاہا سو ہم نے اس کو سخت پہرہ (یعنی محافظ فرشتوں) اور شعلوں سے (کہ ان کے ذریعہ سے حفاظت کی جاتی ہے) بھرا ہوا پایا (یعنی اب پہرہ ہوگیا کہ کوئی جن آسمانی خبر نہ لیجانے پائے اور جو جاوے شہاب ثاقب سے مارا جائے) اور (اس کے قبل) ہم آسمان (کی خبر سننے) کے موقعوں میں (خبر) سننے کے لئے جا بیٹھا کرتے تھے (اور یہ مواقع خواہ اجزاء آسمان ہی کے ہوں اور یا اجزاء ہوا یا کسی ملاء یا خلاء کے ہوں جو کہ آسمان کے قریب ہوں اور جنات اپنی لطافت اور عدم ثقل کی وجہ سے اس پر مستقر ہو سکتے ہوں جیسے بعض پرندے ہوا میں چلتے چلتے ٹھہر جاتے ہیں) سو جو کوئی اب سننا چاہتا ہے تو اپنے لئے ایک تیار شعلہ پاتا ہے (اور تحقیق مباحث شہاب کی سورة حجر کے رکوع دوم میں گذری ہے۔ یہ مضمون رسالت کے متعلق ہے۔ مطلب یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رسالت دی ہے اور دفع التباس کے لئے باب کہانت بند کردیا ہغے اور اس استراق یعنی خبروں کی چوری کا بند ہونا ہی سبب ہو ان جنات کے پہنچنے کا آپ کی خدمت میں، جیسا واقعہ اول میں مذکر ہے) اور (آگے مضامین مذکور کے متمات ہیں کہ) ہم نہیں جانتے کہ ( ان جدید پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث فرمانے سے) زمین والوں کو کوئی تکلیف پہنچانا مقصود ہے یا ان کے رب نے ان کو ہدایت کرنے قصد فرمایا ہے (یعنی مقصود تکوینی ارسال رسل کا معلوم نہیں کیونکہ رسول کے اتباع سے رشد و ہدات ہوتی ہے اور مخالفت سے مضرت و عقوبت اور اتباع اور مخالفت آئندہ کا ہم کو علم نہیں اس لئے ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کے بھیجنے سے قوم کو سزا دینا مقصود ہے یا ہدایت دینا، شاید یہ اس لئے کہا کہ ان کو اپنی قوم کا انداز تھا کہ ایمان لانے والے کم ہوں گے اور وہ سزا کے مستحق ہوجائیں گے و نیز نفی علم غیب سے تقویت ہے مضمون توحید کی کہ دیکھو بعضے لوگ علم غیب کو جنات کی طرف نسبت کرتے ہیں مگر ان کو اتنی بھی خبر نہیں) اور ہم میں (پہلے سے بھی) بعضے نیک (ہوتے آئے) ہیں اور بعضے اور طرح کے (ہوتے آئے) ہیں (غرض) ہم مختلف طریقوں پر تھے (اسی طرح ان نبی کی خبر سن کر اب بھی ہم میں دونوں طریقے کے لوگ موجود ہیں) اور (ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ) ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم زمین (کے کسی حصہ) میں (جا کر) اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتے اور نہ (اور کہیں) بھاگ کر اس کو ہرا سکتے ہیں (بھاگنے سے مراد زمین کے علاوہ آسمان وغیرہ میں بھاگ جانا ہے جو فی الارض کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے فہوکقولہ تعالیٰ ماانتم بمعجزین فی الارض ولافی السمآء شاید اس سے بھی مقصود اندار ہو کر اگر کفر کریں گے تو خدا تعالیٰ کے عذبا سے بچ نہیں سکتے اور اپنے پہلے مختلف طریقوں کے بیان کرنے سے شاید یہ مقصود ہو کہ باوجود حق کے واضح ہوجانے کے بعض کا ایمان نہ لانا حق کے حق ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے) اور ہم نے جب ہدایت کی بات سن لی تو ہم نے تو اس کا یقین کرلیا سو (ہماری طرح) جو شخص اپنے رب پر ایمان لے آوے گا تو اس کو نہ کسی کمی کا اندیشہ ہوگا اور نہ زیادتی کا (کمی یہ کہ اس کی کوئی نیکی لکھنے سے رہ جائے اور زیادتی یہ کہ کوئی گناہ زیادہ لکھ لیا جاوے شاید مقصود اس سے ترغیب ہو) اور ہم میں بعضے تو (یہی مضامین انداز و ترغیب کو سمجھ کر) مسلمان (ہو گئے) ہیں اور بعضے ہم میں (بدستور سابق) بےراہ ہیں سو جو شخص مسلمان ہوگیا انہوں نے تو بھلائی کا راستہ ڈھنڈھ لیا (جس پر ثواب مرتب ہوگا) اور جو بےراہ ہیں وہ دوزخ کے ایندھن ہیں (یہاں تک کلام جنات کا ختم ہوگیا جو معمول ہے قالوا کا) اور (آگے اوحی الی کے دوسرے معمولات ہیں یعنی مجھ کو ان مضامین کی بھی وحی ہوئی ہے ایک یہ کہ) اگر یہ (مکہ والے) لوگ (سیدھے) رستے پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو فراغت کے پانی سے سیراب کرتے تاکہ اس میں ان کا امتحان کریں (کہ نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری و نافرماین کرتے ہیں، مطلب یہ کہ اگر اہل مکہ شرک نہ کرتے جس کی مذمت اوپر بضمن کلام جنات آ چکی ہے تو ان پر قحط مسلط نہ ہوتا جیسا واقعہ ثالثہ میں مذکور ہے مگر انہوں نے بجاے ایمان کے اغراض کیا اس لئے مبتلائے قحط مسلط نہ ہوتا جیسا واقعہ ثالثہ میں مذکور ہے مگر انہوں نے بجائے ایمان کے اعراض کیا اس لئے مبتلائے قحط ہوئے) اور (عقوبت کفر میں کچھ تخصیص اہل مکہ کی نہیں بلکہ) جو شخص اپنے پر ورگدار کی یاد (یعنی ایمان و اطاعت) سے روگردانی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا اور (ان وحی شدہ مضامین میں سے ایک یہ ہے کہ) جتنے سجدے ہیں وہ سب اللہ کا حق ہے (یعنی یہ جائز نہیں کہ کوئی سجدہ اللہ کو کیا جاوے اور کوئی سجدہ غیر اللہ کو جیسا مشرکین کرتے تھے) سو اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت مت کرو (اس مضمون میں بھی توحید کی تقریر ہے جس کا اوپر ذکر تھا) اور (ان وحی شدہ مضامین میں سے ایک یہ ہے کہ) جب خدا کا خاص بندہ (مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں) خدا کی عبادت کرنے کھڑا ہوتا ہے تو یہ (کافر) لوگ اس بندہ پر بھیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں (یعنی تعجب و عداوت سے ہر شخص اس طرح دیھتا ہے جیسے اب حملہ کرنے کے لئے بھیڑ لگا چاتہی ہے یہ بھی تمتمہ ہے مضمون توحید کا کیونکہ اس میں مذمت ہے مشرکین کی کہ توحید سے ان کو عداوت اور نفرت ہے آگے اس تعجب اور عداوت کے متعلق جواب دینے کے لئے آپ کو ارشاد ہے یعنی) آپ (ان سے) یہ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (سو یہ کوئی تعجب اور عداوت کی بات نہیں یہ سب مضمون متعلق توحید تھا آگے رسالت کے متعلق مضمون ہے کہ) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے نہ کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا (یعنی تم جو ایسی فرمائشیں کرتے ہو کہ اگر آپ رسول ہیں تو ہم پر عذاب نازل کریں دیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرے اختیار میں نہیں اور اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرح ہم آپ کو رسول مان لیں کہ آپ مضامین توحید و قرآن میں کچھ تغیر و تبدل کردیں تو اس کے جواب میں) آپ کہہ دیجئے کہ (اگر خدانخواستہ میں ایسا کروں تو) مجھ کو خدا (کے غضب) سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ (کی جگہ) پاکستا ہوں (مطلب یہ کہ نہ خود کوئی میرا بچانے والا ہوگا اور نہ میری تلاش سے مل سکے گا اور کفار کے ایسے اقوال استعجال عذاب و استبدلال قرآن و دین کے قرآن میں جا بجا مذکور ہیں اور اوپر لا املک لکم ضرا ولارشدا میں نفی اختیار نفع و ضرر کی فرمائی آگے اثبات منصب رسالت کا فرماتے ہیں کہ ضرر و نفع کا مالک ہونا تو لازمہ نبوت نہیں وہ تو منفی ہے) لیکن خدا کی طرف سے پہنچانا اور اس کے پیغاموں کا ادا کرنا یہ میرا کام ہے اور (آگے توحید و رسالت دونوں کے متعلق مضمون ہے کہ) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا کہنا نہیں مانتے تو یقینا ان لوگوں کے لئے آتش دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (مگر کفار اس وقت ان مضامین سے متاثر نہیں ہوتے بلکہا لٹا مسلمانوں کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں (آیت) ای الفریقین خیر مقاما و احسن ندیا اور یہ اس جہالت سے باز نہ آویں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اس وقت جائیں گے کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کی جماعت کم ہے (یعنی کافر ہی ایسے ہوں گے جن کے کوئی کام نہ آوے گا پس مراد جماعت سے جماعت مطیعہ ہے ناصرا میں نافع اعلی کی نفی ہوگئی اور عدداً میں نافع ادنی کی آگے قیامت کے متعلق کلام ہے کہ یہ لوگ قیامت کا وقت بطور انکار کے دریافت کرتے ہیں تو) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آیا وہ نزدیک (آنے والی) ہے یا میرے پروردگار نے اس کے لئے کوئی مدت دراز مقرر کر رکھی ہے (لیکن ہر حال میں وہ آوے گی ضرور رہا علم تعیین سو وہ محض غیب ہے اور) غیب کا جاننے والا وہی ہے سو (جس غیب پر کسی کو مطلع کرنا مصلحت نہیں ہوتا) وہ اپنے (ایسے) غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (اور علم تعیین قیامت ایسا ہی ہے کہ اس پر کسی کو مطلع کرنے میں کوئی مصلحت نہیں کیونکہ وہ علوم متعلقہ بالنبوة سے نہیں جن کے حصول کو قرب الٰہی میں دخل ہوتا ہے پس ایسے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا) ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو ( اگر کسی ایسے علم پر مطلع کرنا چاہتا ہے جو کہ علم نبوت سے ہو خواہ مثبت نبوت ہو جیسے پیشین گوئیاں خواہ فروع نبوت سے ہو جیسے علم احکام) تو (اس طرح اطلاع دیتا ہے کہ) اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے (یعنی جمعی جہات میں وحی کے وقت) محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے (تاکہ وہاں شیاطین کا گذر نہ ہو جہ کہ وحی جو فرشتہ سے سن کر اور کسی سے جا کہیں یا کسی وسوسہ وغیرہ کا القاء کرسکیں چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایسے پہرہ دار فرشتے چار تھے کمافی روح المعانی اور یہ انتظام اس لئے کیا جاتا ہے) تاکہ (ظاہری طور پر) اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجاوے کہ ان فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام (رسول تک بحفاظت) پہنچا دیئے (اور اس میں کسی کا دخل و تصرف نہیں ہوا اور پہنچانے اولا تو صرف وحی کا فرشتہ ہے لیکن معیت کی وجہ سے رصد یعنی محافظ فرشتوں کی طرف بھی اساد فعل کی کردی) اور اللہ تعالیٰ ان (پہرہ داروں) کے تمام احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے (اس لئے پہر دار ایسے مقرر کئے گئے ہیں جو اس کام کے پورے پورے اہل ہیں) اور اس کو ہر چیز کی گنتی معلوم ہے (پس وحی کے سب اجزاء ایک ایک کر کے اس کو معلوم ہیں اور وہ سب کی پوری حفاظت کرتا ہے حاصل مقام یہ کہ تعیین قیامت کا علم علوم نبوت سے نہیں اس لئے اس کا علم نہ ہونا نبوت کے منافی نہیں البتہ علوم نبوت عطا کئے جاتے رہیں اور ان میں احتمال خطا کا نہیں ہوتا تو ایسے علوم سے تم مستفید ہو اور زوائد کی تحقیق چھوڑو) - معارف ومسائل - نَفَرٌ مِّنَ الْجِنّ ۔ لفظ نفرتین سے دس تک عدد کے لئے بولا جاتا ہے۔ جن جنات کا یہاں ذکر ہے روایت یہ ہے کہ یہ نو حضرات تھے نصیبین کے رہنے والے - جنات کی حقیقت :۔ جن مخلوقات الٰہیہ میں ایک ایسی مخلوق کا نام جو ذی اجسام بھی ہیں ذی روح بھی اور انسان کی طرح عقل و شعور والے بھی مگر لوگوں کی نظروں سے مخفی ہیں، اسی لئے ان کا نام جن رکھا گیا کہ جن کے لفظی معنے مخفی کے ہیں۔ ان کی تخلیق کا غالب مادہ آگ ہے جیسے انسان کی تخلیق کا غالب مادہ مٹی ہے۔ اس نوع میں بھی انسان کی طرح نر و مادہ یعنی مرد و عورت ہیں اور انسان ہی کطرح ان میں تو الدوتناسل کا سلسلہ بھی ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ قرآن میں جن کو شیاطین کہا گیا ہے وہ بھی جنات ہی میں سے شریر لوگوں کا نام ہے۔ جنات اور فرشتوں کا وجود قرآن و سنت کی قطعی دلائل سے ثابت ہے جس کا انکار کفر ہے (تفسیر مظہری) - قُلْ اُوْحِيَ اِلَيّ سے معلوم ہوا کہ جنات کے جس واقعہ کا یہاں ذکر ہے اس میں آپ نے قرآن سننے والے جنات کو دیکھا نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اطلاع دی۔- سورة جن کے نزول کے واقعہ کی تفصیل :۔ صحیح بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ (اس واقعہ میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو قرآن بالقصد سنایا نہیں بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ پیش آیا کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بازار عکاظ کی طرف جا رہے تھے اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ شیاطین کو آسمان کی خبریں سننے سے شہاب ثاقب کے ذریعہ روک دیا گیا تھا اور جنات نے باہم مشورہ کیا کہ یہ حادثہ جو ہم پر آسمانی خبروں سے ممنوع ہوجانے کا پیش آیا ہے یہ کوئی اتفاقی بات معلوم نہیں ہوتی دنیا میں کوئی نئی چیز پیش آئی ہے جو اس کا سبب ہوئی اور یہ طے کیا کہ زمین کے مشرق و مغرب اور ہر طرف میں جنات کے وفود جائیں اور اس کی تحقیق کر کے آویں کہ یہ نئی چیز کیا پیش آئی ہے۔ ان کا جو وفد تہامہ حجاز کی طرف بھیجا گیا تھا وہ مقام نخلہ پر پہنچے تو وہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صابہ کرام کے ساتھ صبح کی نماز جماعت سے ادا کر رہے تھے۔- جنات کے اس وفد نے جب قرآن سنا تو قسمیں کھا کر آپس میں کہنے لگے کہ واللہ یہی کلام ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل اور مانع بنا ہے۔ یہ لوگ یہاں سے لوٹے اور جا کر اپنی قوم سے یہ قصہ بیان کیا جس کا ذکر ان آیات میں ہے۔ انا سمعنا قرانا عجبا الآیتہ اللہ تعالیٰ نے اس سارے واقعہ کی خبر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان آیات میں دیدی۔- ابوطالب کی وفات اور آنحضرت کا سفر طائف :۔ اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ ابوطالب کی وفات کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں بےیارومددگار رہ گئے تو آپ نے تن تنہا طائف کا سفر کیا کہ وہاں کے قبیلہ بنی ثقیف سے اپنی قوم کے مظالم کے مقابل ہمیں کچھ مدد اور معاونت حاصل کرسکیں محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین بھائیوں کے پاس گئے جو قبیلہ کے سردار اور شریف سمجھے جاتے تھے، یہ تین بھائی عمیر کے بیٹے عبدیالیل اور سعود اور جبیب تھے، ان کے گھر میں ایک عورت قریش کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور اپنی قوم کے مظالم کا ذکر کر کے ان سے معاوتن کے لئے فرمایا۔ مگر ان تینوں نے بڑا سخت جواب دیا اور آپ سے اور کچھ کلام نہیں کیا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ قبیلہ بنو ثقیف کے یہی تین آدمی ایسے شریف سمجھے جاتے تھے جن سے کس معقول جواب کی امید تھی، ان سے بھی مایوسی ہوگئی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اچھا اگر آپ لوگ میری مدد نہیں کرتے تو کم از کم میرے آنے کو میری قوم پر ظاہر نہ کرنا۔ مقصد یہ تھا کہ ان کو خبر ملے گی تو اور زیادہ ستاویں گے، مگر ان ظالموں نے یہ بات بھی نہ مانی بلکہ اپنے قبیلہ کے بیوقوف لوگوں اور غلاموں کو آپ کے پیچھے لگا دیا کہ آپ کو گالیاں دیں اور شور مچائیں ان کے شور و شغب سے بہت سے اور شریر جمع ہوگئے۔ آپ نے ان کے شر سے بچنے کے لئے ایک باغ میں جو عتبہ اور شیبہ دو بھائیوں کا باغ تھا اس میں پناہ لی اور یہ دونوں بھی اس باغ میں موجود تھے۔ اس وقت یہ شریر لوگ آپ کو چھوڑ کر واپس ہوئے اور آپ انگوروں کے باغ کے سائے میں بیٹھ گئے یہ دونوں بھائی آپ کو دیکھ رہے تھے اور یہ بھی دیکھا تھا کہ ان کی قوم کے بیوقوفوں کے ہاتھوں آپ کو کیا تکلیف اور اذیت پیش آئی۔ اسی درمیان وہ قریشی عورت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملی جو ان ظالموں کے گھر میں تھی۔ آپ نے اس سے شکایت کی کہ تمہاری سسرال کے لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ - جب اس باغ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ اطمینان حاصل ہوا تو آپ نے اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں دعا مانگنی شروع کی، اس دعا کے الفاظ بھی عجیب و غریب ہیں اور کسی موقع پر آپ سے ایسے الفاظ دعا منقول نہیں، وہ دعا یہ ہے۔- ترجمہ :۔ یا اللہ میں آپ سے شکایت کرتا ہوں اپنی قوت کے ضعف اور کمی کی اور اپنی تدبیر کی ناکامی کی اور لوگوں کی نظروں میں اپنی خفت و بےتوقیری کی اور آپ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں اور آپ کمزوروں کی پورش فرمانے والے ہیں آپ ہی میرے رب ہیں، آپ مجھے کس کے سپرد کرتے ہیں کیا ایک غیر آدمی کے جو مجھ پر حملہ کرے یا کسی دشمن کے جس کو آپ نے مرے معاملہ کا مالک بنادیا ہے ( کہ جو چاہے کرے) اگر آپ مجھ پر ناراض نہوں تو مجھے ان سب چیزوں کی بھی پروا نہیں لیکن آپ کی عافیت میرے لئے زیادہ بہتر ہے (اس کو طلب کرتا ہوں) میں آپ کی ذات مبارک کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوجاتی ہیں اور اس کی بنا پر دنیا و آخرت کے سب کام درست ہوجاتے ہیں۔ اس بات سے کہ مجھ پر اپنا غضب نازل فرمائیں ہمارا کام ہی یہ ہے کہ آپ کو راضی کرنے اور منانے میں لگے رہیں جب تک کہ آپ راضی نہ ہو جائی اور ہم تو کسی برائی سے بچ سکتے نہیں نہ کسی بھلائی کو حاصل کرسکتے ہیں بجز آپ کی مدد کے۔- جب ربیعہ کے دونوں بیٹیوں عتبہ اور شیبہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے دل میں رحم آیا اور اپنے ایک نصرانی غلام عداس نامی کو بلا کر کہا کہا انگور کا ایک خوشہ لو اور ایک طبق میں رکھ کر اس شخص کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو یہ کھائیں۔ عداس نے ایسا ہی کیا اس نے جاکر انگور کا یہ طبق آپ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عداس یہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا واللہ یہ کلام یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تو اس شہر کے لوگ نہیں بولتے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا عداس تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا کیا مذہب ہے۔ اس نے کہا میں نصرانی ہوں اور نینوا کا رہنے والا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا تو اللہ کے نیک بندے یونس بن متی (علیہ السلام) کی بستی کے رہے والے ہو۔ اس نے کہا کہ آپ کو یونس بن متی کی کیا خب۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں کیونکہ وہ بھی اللہ کے نبی تھے میں بھی نبی ہوں۔- یہ سن کر عداس آپ کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے سر مبارک اور ہاتھوں پاؤں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ یہ ماجرا دیکھ رہے تھے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس نے ہمارے غلام کو تو خراب کردیا جب عداس لوٹ کر ان کے اس گیا تو انہوں نے کہا کہ عداس تجھے کیا ہوا کہ اس شخص کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینے لگا۔ اس نے کہا کہ میرے سردارو۔ اس وقت زمین پر اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتلائی جو نبی کے سوا کوئی نہیں بتلا سکتا۔ انہوں نے کہا کمبخت ایسا نہ ہو کہ یہ آدمی تجھے تیرے مذہب سے پھیر دے۔ کیونکہ تیرا دین بہرحال اس کے دین سے بہتر ہے۔- اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ گئے جبکہ ثقیف کی ہر خیر سے مایوس ہوگئے۔ واپسی میں آپ نے مقام نخلہ پر قیام فرمایا اور آخر شب میں نماز تہجد پڑھنے لگے تو ملک یمن نصیبین کے جنات کا یہ وفد بھی وہاں پہنچا ہوا تھا اس نے قرآن سنا اور سن کر ایمان لے آئے اور اپنی قوم کی طرف واپس جا کر واقعہ بتلایا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں نازل فرمایا۔ (مظہری) - ایک صحابی جن کا واقعہ :۔ ابن جوزی نے کتاب الصفوہ میں اپنی سند کے ساتھ حضرت سہل بن عبداللہ سے نقل کیا کہا نہوں نے ایک مقام پر ایک بوڑھے جن کو دیکھا کہ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھ رہا ہے اور اون کا جبہ پہنے ہؤے تھا جس پر بڑی رونق معلوم ہوتی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سہل کہتے ہیں کہ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دے کر بتلایا کہ تم اس جبہ کی رونق سے تعجب کر رہے ہو یہ جبہ سات سو سال سے میرے بدن پر ہے، اسی جبہ میں میں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی، پھر اسی جبہ میں محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور میں ان جنات میں سے ہوں جن کے بارے میں سورة جن نازل ہوئی ہے۔ (مظہری) - اور روایات حدیث میں جو لیلتہ الجن کا واقعہ مذکور ہے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود آپ کے ساتھ تھے اس میں آپ کا بالقصد جنات کو تبلیغ و دعوت کے لئے مکہ مکرمہ کے قریب جنگل میں جانا اور قرآن سنانا منقول ہے وہ بظاہر اس واقعہ کے بعد کا قصہ ہے جس کا ذکر سورة جن میں آیا ہے۔- اور علامہ خفاجی نے فرمایا کہ احادیث معتبرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات کے وفود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں چھ مرتبہ حاضر ہوئے ہیں اسلئے ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں کہ سورة جن والے واقعہ میں آپ کو جنات کے آنے اور قرآن سننے کی خبر بھی نہ تھی جب تک بذریعہ وحی آپ کو بتلایا نہ گیا اور یہ کہ یہ واقعہ مقام نخلہ کا اور طائف سے واپسی کے وقت کا ہے اور دوسری روایات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر مکہ کے قریب ہی کے جنگل میں آپ بالقصد اسی کام کے لئے تشریف لے گئے کہ جناب کو دعوت اسلام دیں اور قرآن سنائیں یہ اس کے بعد پیش آیا (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۝ ١ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- يقال للدّلالة علی الشیء نحو قول الشاعر :- امتلأ الحوض وقَالَ قطني - الخامس :- يقال للعناية الصادقة بالشیء، کقولک : فلان يَقُولُ بکذا .- السادس :- يستعمله المنطقيّون دون غيرهم في معنی الحدّ ، فيقولون : قَوْلُ الجوهر كذا، وقَوْلُ العرض کذا، أي : حدّهما .- السابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفتہ ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں - ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ الرجز ) ( 324 ) امتلاالحوض وقال قطنی حوض بھر گیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے - ( 5 ) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا - اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے فلان یقول بکذا فلان اس کا صدق دل سے خیال رکھتا ہے - ( 6 ) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے - جیسے قول اجواھر کزا ۔ وقول العرض کزا یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ ہے - ( 7 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

محمد آپ ان کفار مکہ سے فرمایے کہ میرے پاس جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے مجھے یہ بتالای کہ نصیبین کے جنات میں سے جو یمن میں ہیں ان لوگوں نے قرآن کریم سنا وہ اس پر ایمان لے آئے پھر اپنی قوم میں انہوں نے واپس جاکر کہا اے ہماری قوم ہم نے ایک قرآن کریم سنا ہے جو حضرت موسیٰ کی کتاب سے مشابہہ رکھتا ہے اور یہ جنات توریت پر کار بند تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہیں آ رہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں ، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس قصے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا ، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا ۔ ( مسلم ۔ ترمذی ۔ مسند احمد ۔ ابن جریر ) ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں قرانا عجبا ۔ قرآن کے معنی ہیں پڑھی جانے والی چیز اور یہ لفظ غالباً جنوں نے اسی معنی میں استعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اس وقت ان کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سن رہے ہیں ان کا نام قرآن ہی ہے ۔ عجب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ پس جنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جن انسانی زبانیں جانتے ہوں ۔ ممکن ہے کہ ان میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں ۔ لیکن قرآن کے اس بیان سے بہرحال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اس کے بلند پایہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani