Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جنات میں بھی کافر اور مسلمان موجود ہیں جنات اپنی قوم کا اختلاف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر لگے ہوئے تھے ۔ حضرت اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک جن ہمارے پاس آیا کرتا تھا ۔ میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تمام کھانوں میں سے تمہیں کونسا کھانا پسند ہے؟ اس نے کہا چاول ۔ میں نے لا کر دیئے تو دیکھا کہ لقمہ برابر اٹھ رہا ہے لیکن کھانے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ میں نے پوچھا جو خواہشات ہم میں ہیں کیا تم بھی ہیں؟ اس نے کہا ہاں ، میں نے پھر پوچھا کہ رافضی تم میں کیسے گنے جاتے ہیں؟ کہا بدترین ۔ حافظ ابو المجاج مزنی فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ، ابن عساکر میں ہے حضرت عباس بن احمد دمشقی فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لئے ہیں ۔ پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہو چکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کر سکیں ۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہیں اس پر ایمان لا چکے ، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام ۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے ، پھر کہتے ہیں مومن کے نہ تو عمل نیک ضائع ہوں نہ اس پر خواہ مخواہ کی برائیاں لا دی جائیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا ١١٢؁ ) 20-طه:112 ) یعنی نیک مومن کو ظلم و نقصان کا ڈر نہیں ۔ پھر کہتے ہیں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض حق سے ہٹے ہوئے عدل کو چھوڑے ہوئے ہیں ۔ مسلمان تو نجات کے متلاشی ہیں اور ظالم جہنم کی لکڑیاں ہیں ۔ اس کے بعد کی آیت ( وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاۗءً غَدَقًا 16؀ۙ ) 72- الجن:16 ) ، کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر تمام لوگ اسلام پر اور راہ راست پر اور اطاعت الٰہی پر جم جاتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور خوب وسعت سے روزی دیتے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ۭمِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ 66؀ۧ ) 5- المآئدہ:66 ) یعنی اگر یہ توراۃ وانجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں اور فرمان ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ 66؀ۧ ) 5- المآئدہ:66 ) یعنی اگر یہ توراۃ و انجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں اور فرمان ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 96؀ ) 7- الاعراف:96 ) ، یعنی اگر بستی والے ایمان لاتے متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے یہ اس لئے کہ ان کی پختہ جانچ ہو جائے کہ ہدایت پر کون جما رہتا ہے اور کون پھر سے گمراہی کی طرف لوٹ جاتا ہے ، حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں اتری ہے جبکہ ان پر سات سال کا قحط پڑا تھا ، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ سب کے سب گمراہی پر جم جاتے تو ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے تاکہ یہ خوب مست ہو جائیں اور اللہ کو بالکل بھول جائیں اور بدترین سزاؤں کے قابل ہو جائیں ، جیسے فرمان باری ہے آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ ) 6- الانعام:44 ) ، یعنی جب وہ نصیحتیں بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے جس وہ مست بن گئے کہ ناگہاں ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مایوس ہوگئے ، اسی طرح کی آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ ) 23- المؤمنون:55 ) ، بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو بھی اپنے رب کے ذکر سے بےپرواہی برتے اس کا رب اسے درد ناک سخت اور مہلک عذابوں میں مبتلا کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( صعد ) جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں جہنم کے ایک کنوئیں کا نام ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں مطلب یہ کہ جنات میں بھی مسلمان، کافر، یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ ہیں، بعض کہتے ہیں ان میں بھی مسلمانوں کی طرح قدریہ، مرحبئہ اور رافضہ وغیرہ ہیں (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(وانا منا الصلحون و منا دون ذلک …:” طرآئق “ ” طریقہ “ کی جمع اور ” قدداً “ ” قدۃ “ بروز (قطعۃ) کی جمع ہے، ٹکڑے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنوں میں صالح اور غیر صالح ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور اس کے برعکس بھی، ان میں موجودبھی ہیں اور مشرک بھی، متبع سنت بھی ہیں اور بدعتی بھی، خوش اخلاق بھی ہیں اور بد اخلاق بھی، وہ بھی ہیں جو آسمان سے کوئی خبر سن کر اس میں سو جھوٹ ملاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ مومن جنوں کا اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب کے سب راہ راست پر نہیں بلکہ ہم میں بھی غیر صالح لوگ موجود ہیں، جنہیں حق بات سمجھانا اور ان کا اسے قبول کرنا ضروری ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ۝ ٠ ۭ كُنَّا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا۝ ١١ ۙ- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال :- وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر :- 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل - «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا .- ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی:- كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔- قدد - القَدُّ : قطع الشیء طولا . قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ- [يوسف 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] . والْقِدُّ : الْمَقْدُودُ ، ومنه قيل لقامة الإنسان : قَدٌّ ، کقولک : تقطیعه وقَدَّدْتُ اللّحم فهو قَدِيدٌ ، والقِدَدُ : الطّرائق . قال : طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، الواحدة : قِدَّةٌ ، والْقِدَّةُ : الفِرقة من الناس، والْقِدَّةُ کالقطعة، واقْتَدَّ الأمر : دبّره، کقولک : فصله وصرمه . ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( ق د د ) القد - ( ق د د ) القد کے معنی کسی چیز کو طول میں قطع کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] اگر ان کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ القد بمعنی مقدود ہے اور اسی سے انسان کے قدوقامت کو قد کہاجاتا ہے جیسا کہ ۔ تقطیع الانسان ( انسان کا قدوقامت ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ قددت اللحم کے معنی گوشت کے پارچے بنانے کے ہیں اور کٹے ہوئے گوشت کو قدید کہاجاتا ہے ۔ القدد اس کا واحد قدۃ ہے اور اس کے معنی مختلف طرق اور مذاہب کے ہیں جیسے فرمایا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ہمارے کئی طرح کے مذاہب ہیں ۔ اور قدہ کے معنی لوگوں کی ٹولی اور گروہ کے بھی آتے ہیں جیسے قطعۃ اقتدالامر کسی کا م کی تدبیر کرنا جیسا کہ : فصل وحرم الامر کا محاورہ ہے ۔ ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم میں پہلے سے بھی بعض وحادنیت کو ماننے والے ہوتے آئے ہیں جو حضور و قرآن پر ایمان لائیں گے اور بعض کافر ہوتے آئے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے پہلے یہودیت و نصرانیت کے مختلف طریقوں پر تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط ” اور یہ کہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف قسم کے بھی ہیں۔ “- یہاں نیک کے مقابل میں ان کا اشارہ تو ظاہر ہے سرکش اور فسادی جنات ہی کی طرف ہے ‘ لیکن انہوں نے ان کا ذکر ایسے الفاظ کے ساتھ نہیں کیا۔ یہ دراصل حکمت تبلیغ کا اہم اصول ہے کہ برے کو بھی برا نہ کہو۔- کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا ۔ ” ہم مختلف راستوں پر پھٹے ہوئے تھے۔ “- طَرَائِق جمع ہے طَرِیْقَۃ کی اور قِدَد جمع ہے قِدَّۃٌ کی ‘ یعنی مختلف الرائے فرقے۔ قَدَّ یَقُدُّ قَدًّاکے معنی پھاڑنے یا کاٹنے کے ہیں۔ جیسے سورة یوسف کی آیت ٢٥ میں آیا ہے : قَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ ” اس (عورت) نے پھاڑ دی آپ (علیہ السلام) کی قمیص پیچھے سے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :11 یعنی اخلاقی حیثیت سے بھی ہم میں اچھے اور برے دونوں طرح کے جن پائے جاتے ہیں ، اور اعتقادات میں بھی ہمارا کوئی ایک مذہب نہیں ہے بلکہ مختلف گروہوں میں منقسم ہیں ۔ یہ بات کہہ کر یہ ایمان لانے والے جن اپنی قوم کے جنوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم راہ راست معلوم کرنے کے یقیناً محتاج ہیں؟ اس سے ہم بے نیاز نہیں ہو سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: مطلب یہ ہے کہ جِنّات میں کچھ تو ایسے ہیں جو طبعی طور پر نیک ہیں جو حق بات کو قبول کرنے کا مادہ رکھتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو طبعی طور پر شریر ہیں۔ اس کے علاوہ تمام جِنّات کا مذہب ایک نہیں ہے، بلکہ جِنّات میں بھی مختلف عقیدوں کے لوگ ہیں۔ اس لئے ہم سب کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی ضرورت تھی جو حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تشریف آوری سے پوری ہوگئی ہے۔