22۔ 1 اگر میں اس کی نافرمانی کروں اور وہ مجھے اس پر وہ عذاب دینا چاہے۔
[٢٠] یعنی میرے تصرف اور اختیار کا تو یہ حال ہے کہ تم کو نفع یا نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے مجھے اپنے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں۔ فرض کرو جو ڈیوٹی اللہ نے میرے ذمہ لگا رکھی ہے میں اس میں کچھ کوتاہی کرتا ہوں تو میں بھی اللہ کی گرفت میں آسکتا ہوں مجھ میں یہ سکت نہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے بچا سکوں یا کہیں بھاگ کر ہی اس کی گرفت سے بچاؤ حاصل کرسکوں۔
(قل ان لن یجیرنی من اللہ احد ” یعنی آپ انہیں کہہ دیں کہ اگر میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکاروں یا اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کی گرفت سے مجھے کوئی نہیں بچا سکے گا اور نہ مجھے اس کے علاوہ کوئی جاجئے پناہ مل سکے گی ، تو تم اس کی گرت سے کیسے بچ سکو گے اور کس کی پناہ میں جاؤ گے ؟
قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللہِ اَحَدٌ ٠ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا ٢٢ ۙ- جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر ) الجار - پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- لحد - اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب .- فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله .- والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] - والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين :- أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه .- ( ل ح د ) اللحد ۔- اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خداوندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔
(٢٢۔ ٢٣) آپ ان سے یہ بھی فرما دیجیے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں تو مجھے اس کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے عذاب سے بچنے کے لیے کوئی پناہ کی جگہ پاسکتا ہوں، البتہ اللہ کے احکام کا پہنچانا مجھے بچا سکتا ہے۔- اور جو وحدانیت میں اللہ تعالیٰ کا اور تبلیغ میں اس کے رسول کا کہا نہیں مانتے تو ان لوگوں کے لیے جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہیں گے۔- شان نزول : قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ (الخ)- ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جنات نے حضور سے عرض کیا کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے کہ ہم مسجد میں آئیں یا یہ کہ نماز میں آئیں یا یہ کہ نماز میں حاضر ہوں اور یا آپ سے دور رہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور ابن جریر نے حضری سے روایت کیا ہے کہ ان کے سامنے جنات میں سے ایک سردار جن کا ذکر کیا گیا کہ وہ کہتا ہے کہ محمد اللہ تعالیٰ کی پناہ لینا چاہتے ہیں اور میں آپ کو پناہ دیتا ہوں۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ ۔