14۔ 1 یعنی یہ عذاب اس دن ہوگا جس دن زمین پہاڑ بھونچال سے تہ وبالا ہوجائیں گے اور بڑے بڑے پر ہیبت پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح بےحثییت ہوجائیں گے۔ کثیب ریت کا ٹیلا، مھیلا کا معنی بھربھری پیروں کے نچیے سے نکل جانے والی ریت۔
[١٤] یعنی آج تو پہاڑوں کی جڑیں زمین کے اندر دور نیچے تک مضبوط جمی ہوئی ہیں۔ مگر قیامت کے دن پہاڑوں کی یہ گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ زمین میں بھی بھونچال آئیں گے اور پہاڑ بھی لرزنے لگیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ پہاڑوں کے پتھر ایک دوسرے کے اوپر ہی گر گر کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ریت کے ایسے نرم تودے بن جائیں گے کہ پاؤں ان کے اندر دھنسنے لگیں گے اور اگر تھوڑی سی ریت اٹھا کر ان کے اوپر رکھی جائے تو وہ سب پھسل پھسل کر نیچے آرہے۔ واضح رہے کہ کَثِیْبًا میں ک حرف تشبیہ نہیں ہے بلکہ یہ کثیب کے مادہ ک ث ب میں شامل ہے اور کثیب بمعنی ریت کا لمبا چوڑا ٹیلہ ہے۔
(یوم ترجف الارض …:” کثیباً “ ریت کا ٹیلہ۔ ” مھیلاً “ (گرایا ہوا)” ھال یھیل ھیلاً “ سے اسم مفعول ہے۔ ” ھال التربا او الزمل “ اس نے مٹی یا ریت کو گرایا۔ یعنی وہ عذاب اس دن ہوگا جب سخت زلزلے سے پہاڑ لرز اٹھیں گے ، پھر اس زلزلے کی شدت سے ان کی سختی اور ذرات کی باہمی بندش ختم ہو جائیگی اور وہ ٹھوس پہاڑوں کے بجائے ریت کے ٹیلوں کی صورت میں بدل جائیں گے، جو خود بخود اس طرح نیچے گر رہی ہوگی جیسے کوئی اسے گرا رہا ہو۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر پہاڑوں پر اس کے بعد گزرنے والی کیفیات بھی ذکر ہوئی ہیں کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے، پھر بادلوں کی طرح اڑنے لگیں گے، پھر زمین چٹیل میدان بن جائے گی۔ مزید دیکھیے سورة نبا (٢٠) کی تفسیر۔
آگے کچھ قیامت کے ہولناک واقعات کا بیان فرمایا يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَال آلایتہ اس کے بعد کفار مکہ کو فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سنا کر اس سے ڈرایا گیا کہ جس طرح فرعون اپنے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کر کے گرفتار عذاب ہوا، تم بھی اس پر جمے رہے تو سمجھ لو کہ تم پر بھی ایسا ہی کوئی عذاب دنیا میں آسکتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اگر دنیا میں کوئی عذاب نہ بھی آیا تو قیامت کے اس دن کے عذاب سے تمہیں کون بچا سکے گا جس کی ہولناکی اور طول کی وجہ سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ روز قیامت کے شدید اور ہولناکی اور طول کی وجہ سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ روز قیامت کے شدید اور ہولناک ہونے کا بیان ہے کہ اس میں لوگوں پر ایسا خوف اور ہول طاری ہوگا کہ اگر کوئی بچہ بھی ہو تو بوڑھا ہوجائے غرض مراد اس سے ایک تمثیل ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مراد حقیقت ہے اور رو زقیامت اس قدر طویل ہوگا کہ اس میں ایک بچہ بھی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے گا۔ (قرطبی و روح)
يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّہِيْلًا ١٤- رجف - الرَّجْفُ : الاضطراب الشدید، يقال : رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر، وبحر رَجَّافٌ. قال تعالی: يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] ، يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] ، فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] ، والإِرْجَافُ : إيقاع الرّجفة، إمّا بالفعل، وإمّا بالقول، قال تعالی: وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ويقال : الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن .- ( ر ج ف ) الرجف ( ن ) اضطراب شدید کو کہتے ہیں اور رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر کے معنی زمین یا سمندر میں زلزلہ آنا کے ہیں ۔ بحر رَجَّافٌ : متلاطم سمندر ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] جب کہ زمین لرز جائے گی فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] پس ان کو زلزلہ نے پالیا ۔ الارجاف ( افعال ) کوئی جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعہ اضطراب پھیلانا کے ہیں قران میں ہے : ۔ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَة اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . کہ جھوٹی افوا ہیں فتنوں کی جڑ ہیں ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- كثب - قال تعالی: وَكانَتِ الْجِبالُ كَثِيباً مَهِيلًا[ المزمل 14] أي : رملا متراکما، وجمعه :- أَكْثِبَةٌ ، وكُثُبٌ ، وكُثْبَانٌ ، والْكَثِيبَةُ : القلیل من اللّبن، والقطعة من التّمر، سمّيت بذلک لاجتماعها، وكَثَبَ : إذا اجتمع، والْكَاثِبُ : الجامع، والتَّكْثِيبُ : الصّيد إذا أمكن من نفسه، والعرب تقول : أَكْثَبَكَ الصّيدُ فارمه وهو من الْكَثْبِ ، أي : القُرْبِ.- ( ک ث ب ) الکتب ریت کاٹیلہ۔ چناچہ آیت : ۔ وَكانَتِ الْجِبالُ كَثِيباً مَهِيلًا[ المزمل 14] اور پہاڑا ایسے بھر بھرے گویا ) ریت کے ٹیلے ہو جائیگے اور کتب کی جمع التبۃ وکتب وکتبان آتی ہے ۔ اور معنی اجتماعی کے لحاظ سے دو دھار ور کھجوروں کی تھوڑی سی مقدار کو کثیبۃ کہا جاتا ہے ۔ کثب ( ض ) اصل معنی اکٹھا کرنا کے ہیں اور اس سے صفت فاعلی کا ثب آتی ہے جس کے معنی ہیں جمع کرنے والا اور التکثیب کے معنی شکار کے اپنے آپ پر موقعہ دینے کے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے اکثبک الصید فارمہ کہ شکار ہتھے پر آگیا ہے لہذا اسے شکار کرلو اور یہ کثب سے مشتق ہے جس کے معنی قریب ہونا کے ہیں ۔- مهل - المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً- [ الطارق 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] .- ( م ھ ل ) المھل - کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔- مهيل - : المَهْل والمَهَل والمُهْلة، كُلُّهُ : السَّكِينة والتُّؤَدة والرِّفْق . وأَمْهَلَه : أَنظره ورَفَق بِهِ وَلَمْ يَعْجَلْ عَلَيْهِ. ومَهَّلَه تَمْهِيلًا : أَجَّله . والاسْتِمْهال : الِاسْتِنْظَارُ. وتَمَهَّلَ فِي عَمَلِهِ : اتَّأَدَ. وكلُّ ترفُّقٍ تمَهُّل . ورُزِق مَهْلًا : رَكِب الذُّنوب والخطایا فمُهِّلَ وَلَمْ يُعْجَل . ومَهَلَت الغنمُ إِذا رَعَتْ بِالْلَيْلِ أَو بِالنَّهَارِ عَلَى مَهَلِها . والمُهْلُ : اسمٌ يَجْمَعُ مَعْدِنِيَّات الْجَوَاهِرِ. والمُهْل : مَا ذَابَ مِنْ صُفْرٍ أَو حَدِيدٍ ، وَهَكَذَا فُسِّرَ فِي التَّنْزِيلِ ، وَاللَّهُ أَعلم . والمُهْل والمُهْلة : ضرْب مِنَ القَطِران ماهِيٌّ رَقِيق يُشْبه الزَّيْتَ ، وَهُوَ يضرِب إِلى الصُّفْرَةِ مِنْ مَهاوَتِه، وَهُوَ دَسِم تُدْهَن بِهِ الإِبل فِي الشِّتَاءِ؛ قَالَ : والقَطِران الْخَاثِرُ لَا يُهْنَأُ بِهِ ، وَقِيلَ : هُوَ دُرْدِيُّ الزیتِ ، وَقِيلَ : هُوَ العَكَر المُغْلى، وَقِيلَ : هُوَ رَقِيق الزَّيْتِ ، وَقِيلَ : هُوَ عامَّته؛ وأَنشد ابْنُ بَرِّيٍّ للأَفوه الأَوْدِي : وكأَنما أَسَلاتُهم مَهْنوءةٌ ... بالمُهْلِ ، مِنْ نَدَبِ الكُلومِ إِذا جَرىشبَّه الدمَ حِينَ يَبِس بِدُرْدِيّ الزَّيْتِ. وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ؛ يُقَالُ : هُوَ النُّحاس الْمُذَابُ. وَقَالَ أَبو عَمْرٍو : المُهْل دُرْدِيُّ الزَّيْتِ؛ قَالَ : والمُهْل أَيضاً القَيْح والصَّدِيد . ومَهَلْت البعیرَ إِذا طَلَيْتَهُ بالخَضْخاض فَهُوَ مَمْهُول؛ قَالَ أَبو وَجِزَةَ صَافِي الأَديم هِجان غَيْرُ مَذْبَحِه، ... كأَنه بِدَم المَكْنان مَمْهُول ( لسان العرب)
اب ان سب چیزوں کا وقت بیان کرتا ہے کہ جس روز زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے اور پہاڑ ریگ رواں ہوجائیں گے۔ مہیل اس چیز کو کہتے ہیں جس کا نیچے کا حصہ اگر اٹھایا جائے تو اوپر کا حصہ گر جائے جیسا کہ ریت۔
آیت ١٤ یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا ۔ ” جس دن کہ زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے بکھرتے تودے بن جائیں گے۔ “- کوہ ہمالیہ جیسے بڑے بڑے پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں ( ) کی طرح ہوجائیں گے۔ پھر ان ٹیلوں کے پھسلنے اور بکھرنے کے باعث زمین کے تمام نشیب و فراز برابر ہوجائیں گے۔ اس طرح کہ : لاَ تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا ۔ (طٰہٰ ) ” آپ نہ تو اس میں کوئی ٹیڑھ دیکھیں گے اور نہ کوئی ٹیلا۔ “
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :14 چونکہ اس وقت پہاڑوں کے اجزاء کو باندھ کر رکھنے والی کشش ختم ہو جائے گی ، اس لیے پہلے تو وہ باریک بھربھری ریت کے ٹیلے بن جائیں گے ، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہو گا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی ۔ اسی آخری کیفیت کو سورہ طٰہٰ آیات105 تا 107 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان پہاڑوں کا کیا بنے گا ۔ کہو ، میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے ۔