Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 جب سورت کے آغاز میں نصف رات یا اس سے کم یا زیادہ قیام کا حکم دیا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی کبھی دو تہائی سے کم یا زیادہ کبھی نصف رات کبھی ثلث رات جیسا کہ یہاں ذکر ہے۔ لیکن ایک تو رات کا یہ قیام نہایت گراں تھا دوسرے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ نصف رات ہوئی یا ثلث اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا جس میں فرمایا کہ بعض کے نزدیک ترک قیام کی اجازت ہے۔ 20۔ 2 یعنی اللہ تورات کی گھڑیاں گن سکتا ہے کتنی گزر گئی ہیں اور کتنی باقی ہیں تمہارے لیے یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ 20۔ 3 جب تمہارے لئے رات کے گزرنے کا صحیح اندازہ ممکن ہی نہیں، تو تم مقررہ اوقات تک نماز تہجد میں مشغول بھی کس طرح رہ سکتے ہو۔ 20۔ 4 یعنی تجارت اور کاروبار کے لئے سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑے گا۔ 20۔ 5 اسی طرح جہاد میں بھی پُر مشقت سفر اور مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، اور یہ تینوں چیزیں، بیماری، سفر اور جہاد نوبت بہ نوبت ہر ایک کو لاحق ہوتی ہیں اس لیے اللہ نے قیام اللیل کے حکم میں تخفیف کردی ہے کیونکہ تینوں حالتوں میں یہ نہایت مشکل اور بڑا صبر آزما کام ہے۔ 20۔ 6  اسباب تخفیف کے ساتھ تخفیف کا یہ حکم دوبارہ بطور تاکید بیان کردیا گیا۔ 20۔ 7 یعنی پانچوں نمازوں کی جو فرض ہیں۔ 20۔ 8 یعنی اللہ کی راہ میں حسب ضرورت و توفیق خرچ کرو، اسے قرض حسنہ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک اجر وثواب عطا فرمائے گا نفلی نمازیں، صدقات و خیرات اور دیگر نیکیاں جو بھی کرو گے اللہ کے ہاں ان کا بہترین اجر پاؤ گے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نصف حصہ مکی اور نصف حصہ مدنی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] سورة مزمل کی یہ آیت پورے رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا نزول ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ٨ ماہ بعد، دوسری کے مطابق ایک سال بعد اور تیسری روایت کے مطابق دس سال بعد ہوا۔ ہمارے خیال میں یہ تیسری روایت ہی قابل ترجیح ہے کیونکہ اس رکوع میں قتال فی سبیل اللہ کا بھی ذکر ہے اور زکوٰۃ کا بھی۔ اور یہ دونوں چیزیں مدنی زندگی میں فرض ہوئی تھیں۔ پہلے حکم کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متابعت میں صحابہ کرام (رض) کو بھی کم از کم تہائی رات کا قیام ضروری تھا۔ لیکن اس زمانہ میں گھڑیاں تو موجود نہ تھیں لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسی طرح صحابہ کرام (رض) بعض دفعہ رات کا اکثر حصہ قیام فرماتے محض اس احتیاط کی وجہ سے کہ کہیں وقت تہائی رات سے کم نہ ہو اور اس طرح بسا اوقات کھڑے کھڑے ان کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے بعد میں اس حکم کے ذریعہ سابقہ حکم میں کافی تخفیف فرما دی۔- [١٩] اس آیت سے از خود معلوم ہوجاتا ہے کہ اس حکم کے بعد قیام اللیل فرض نہیں رہا۔ نہ اس میں قرآن کی کوئی مقررہ مقدار پڑھنے کی قید ہے۔ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز تہجد فرض تھی وہ بھی اس آیت کی رو سے نہیں بلکہ سورة بنی اسرائیل کی آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ 79؀) 17 ۔ الإسراء :79) کی رو سے تھی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسب حلال کی خاطر سفر کرنے کو بھی ایک معقول عذر اور قتال فی سبیل اللہ کے برابر قرار دیا۔ جس سے کسب حلال کی انتہائی فضیلت معلوم ہوئی۔- [٢٠] نماز باجماعت میں لمبی قرا ئت سے پرہیز :۔ نماز باجماعت کے سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس میں قرائت زیادہ لمبی نہ کی جائے جیسا کہ درج حدیث سے واضح ہے :- سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرض نماز ادا کرتے۔ پھر جاکر اپنی قوم کو امامت کراتے، ایک دن انہوں نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورة بقرہ شروع کردی۔ ایک شخص (پانی ڈھونے والا) نماز توڑ کر چلا گیا۔ معاذ اسے برا بھلا کہنے لگے : یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی (اس شخص نے جاکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاذ کی شکایت کی) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا معاذ کو تین بار فتاّن یا فاتن (فتنہ ڈالنے والا) کہا پھر معاذ کو حکم دیا کہ اوساط مفصل میں سے کوئی دو سورتیں پڑھایا کرے اسی واقعہ کے ایک دوسرے راوی ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی وعظ اور نصیحت میں اس دن سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا، فرمایا : تم میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو متنفر کردیں۔ دیکھو تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے وہ ہلکی نماز پڑھائے۔ کیونکہ لوگوں میں کوئی ناتواں ہوتا ہے، کوئی بوڑھا اور کوئی کام کاج والا۔ ہاں جب اکیلا ہو تو جتنی چاہے لمبی کرے (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب اذا طوّل الامام۔۔ ) البتہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو جتنی چاہے قرائت لمبی کرسکتا ہے۔- [٢١] قرض حسن زکوٰۃ سے الگ چیز ہے :۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا الگ ذکر فرمایا اور قرضہ حسنہ کا الگ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے نفلی صدقات بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ قرضہ حسنہ کی تفصیل اور اس کے احکام کے لیے دیکھئے سورة حدید کی آیت نمبر ١١ کا حاشیہ۔- [٢٢] انسان کے کام آنے والا وہی مال ہے جو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے، یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کا مال وہی ہے جو اس نے کھا کر یا پہن کر استعمال کرلیا یا اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور جو مال وہ چھوڑ مراتو اس کا مال نہیں ہے وہ تو وارثوں کا ہے۔ اس ارشاد مبارک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھائے اور پہنے ہوئے مال کو بھی اپنا مال قرار دیا وہ اپنا ضرور ہے۔ اور شائد اس کے متعلق اللہ کے ہاں باز پرس بھی نہ ہو۔ مگر انسان کے کام صرف وہی مال آئے گا جسے اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا یا حاجت مندوں کی احتیاج کو دور کیا، یہی وہ مال ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ اجر عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔- [٢٣] استغفار سے صرف یہی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ازراہ کرم استغفار کرنے والے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے بلکہ اس سے کئی طرح کے دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة نوح کا حاشیہ نمبر ٥۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان ربک یعلم انک …: سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا :” آپ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام کے متعلق بتائیں ؟ “ انہوں نے فرمایا :” تم ” یایھا المزمل “ نہیں پڑھتے ؟ “ میں نے کہا :” کیوں نہیں “ تو انہوں نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع حصے میں قیام اللیل فرض فرمایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ ایک سال قیام کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا آخری حصہ بارہ ماہ تک آسمان میں و کے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصے میں تخفیف نازل فرمائی اورق یام اللیل فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا ۔ “ (ملم ، صلاۃ المنافرین و قصرھا، باب جامع صلاۃ اللیل…: ٨٣٦) سورة مزمل کے اول اور آخر کے نزول کے متعلق سند کے لحاظ سے یہی بات سب سے زیادہ صحیح ہے۔ صحیح مسلم کی اسی روایت کے آخر میں ہے کہ ابن عباس (رض) عنہمانے بھی عائشہ (رض) کی بات کو درست قرار دیا۔ اس لئے بعض روایات میں آٹھ ماہ یا سولہ ماہ کا جو ذکر آیا ہے وہ روایات مرجوع ہیں اور سعید بن جبیر (تابعی) کا قول کہ سورة مزمل کا آخری حصہ دس سال بعد نازل ہوا، یہ عائشہ اور ابن عباس (رض) عنہماجی سے جلیل القدر صحابہ کے ثابت شدہ فرمان کے مقابلے یمں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔- ہمارے دور کے بعض لوگوں نے عائشہ اور ابن عباس (رض) عنہماکے صحیح قول کو چھوڑ کر ایک تابعی سعید بن جبیر کے قول کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ سورة مزمل کے آغاز کے مضمون سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ مکہ کے باتدائی درو میں نازل ہوئی، جب کہ آخری آیت میں جہاد اور زکوۃ کا ذکر ہے جو مدینہ میں فرض ہوئے، اس لئے اس کے اول و آخر میں دس سال کی مدت کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔ حالانکہ یہ بات ہی غلط ہے کہ مکی سورتوں میں جہاد یا زکوۃ کا ذکر نہیں، اگرچہ یہ عملاً جہاد مدینہ میں ش رع ہوا اور زکوۃ کا نصاب وغیرہ مدینہ میں مقرر ہوا مگر مکی سورتوں میں جہاد کا ذکر بھی ہے اور زکوۃ کا بھی۔ مزید دیکھیے اسی آیت کا فائدہ (٧) اور (٨) ۔- (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سال تک تقریباً دو تہائی رات یا نصف یا ثلث قیام کرتے رہے اور صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے اتباع میں اتنا قیام کرتی رہی، گھڑیاں موجود نہیں تھیں، اسی خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ ہوجائے زیادہ سے زیادہ قیام کی کوشش کرتے مگر رات کے نصف یا ثلث کا صحیح اندازہ ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو دن رات کا خلاق ہے اور جسے دن رات کا خوب اندازہ ہے کہ رات کبھی لمبی ہوتی ہے کبھی چھوٹی، کبھی گرمی میں آتی ہے کبھی سردی میں، وہ خوب جانتا ہے کہ تم ہمیشہ یہ عمل ہرگز نہیں کرسکو گے، اس لئے اس نے مہربانی فرما کر آسانی فرما دی، اب جتنا آسانی سے قیام کرسکتے ہو کرو۔- (٣) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) عنہماہرگز یہ طاقت نہیں رکھتے کہ ہمیشہ رات کا دوثلث یا نصف یا ثلث قیام کرسکیں تو پھر بعض بزرگوں کے متعلق جو ح کیا ات بیان کی جاتی ہیں کہ انہوں نے چالیس (٤٠) سال تک عشاء اورف جر کی نماز ایک وضو سے پڑھی، ان کے متعلق غور کرنا چاہیے کہ جس کام کی طاقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ میں بھی ہرگز نہیں وہ ان لوگوں میں کیسے آگئی ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو رات کو گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھتے تھے، مگر ان بزرگوں کا کمال بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہر رات ہزار ہزار رکعات پڑھتے تھے۔ اب یا تو ان ح کیا ات کو جھوٹا ماننا پڑے گا یا ماننا پڑے گا کہ ان بزرگوں کی پوری کوشش تھی کہ ہر کام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھ کردکھائیں۔- (٤) فاقرء واما تیسر من القرآن :” ای فضلوا ماتیسرلکم من قیام اللیل “” یعنی رات کا قیام جتنا آسانی سے ہوسکتا ہے اتنی نمازپڑھو۔ “ قرأت کا لفظ بول کر نماز مراد لی گی ہے، جیسا کہ اس کے دوسرے ارکان مثلاً قیام، رکوع اور سجدہ بول کر نماز مراد لی جاتی ہے۔ تو مطلب یہ کہ جتنا قیام آسانی سے کرس کتے ہو کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ” جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو “ کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں ضروری نہیں کہ سورة فاتحہ ہی پڑھی جائے، آسانی سے جو آیت بھی پڑھ سکتا ہے پڑھ لے ، نماز ہوجائے گی، مگر ی ہ بات درست نہیں۔ یہاں یہ ذکر ہی نہیں کہ نماز میں آسانی سے جتنا قرآن پ ڑھ سکو پڑھ لو، بلکہ آیت کے سیاق سے صاف ظاہر ہے کہ ” من القرآن “ سے مراد رات کا قیام ہے یعنی تم اتنا لمبا قیام نہیں کرسکتے تو آساین سے جتنا قیام کرسکتے ہو کرلو۔ نماز کے متعلق جز بول کر کل مراد لینا عام ہے۔ مثلاً قیام ، رکوع، سجدہ سب نماز کے اجزاء ہیں، مگر ان میں سے ہر لفظ بول کر پوری نماز مرادل ی جاتی ہے۔” فاقرء واما تیسر من القرآن “ میں بھی قرآن بول کر نماز مراد لی گئی ہے۔ صاحب رح المعانی آلوسی حنفی لکھتے ہیں :” ای فضلوا ما تیسرلکم من قیام اللیل غیر عن الصلاۃ بالقراء ۃ کما عبر عنھا بسائر ارکانھا “” یعنی تم جتنا آساین سے رات کا قیام کرسکتے ہو کرو، یہاں قرأت بول کر نماز مراد لی گئی ہے، جس طرح باقی ارکان نماز بول کر نماز مراد لی جاتی ہے۔ “ اگر صرف الفاظ کو لیا جائے تو یہ معنی ہوگا کہ تم اتنے لمبے قیام کی طاقت ہرگز نہیں رکھتے، اب جتنا قرآن آساین سے پڑھ سکتے ہو، خواہ نماز میں یا نماز کے بغیر، اتنا ہی رات کو پڑھ لیا کرو۔ صاحب روح المعانی نے اس معنی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، مگر پہلا معنی ہی زیادہ درست ہے ۔- رہ گئی یہ بات کہی کہ وہ بھی آیت پڑھ لیں تو نماز ہوجاتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے بعد اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی جو عبادہ بن صامت (رض) سے صحیحین میں اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب) (بخاری، الاذان، باب و جوب الفراء ۃ …: ٨٥٦۔ مسلم : ٣٩٣)” جو شخص سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے۔ “ ہاں ، اگر کسی شخص کو سورة فاتحہ بھی یاد نہیں تو وہ ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم “ پڑھتا رہے اور رکوع میں چلا جائے۔ (دیکھیے ابو داؤد، الصلاۃ باب ما یجزی الامی …: ٨٣٢ وحسنہ الانبانی)- (٥) علم ان سیکون منکم مرضی …: قیام اللیل میں تخفیف کی وجہ پہلے یہ بیان فرمایء تھی کہ رتا کے دو ثلث ، نصف یا ثلث کے اندازے کے ساتھ ہمیشہ اتنا لمبا قیام کرنا تمہاری طاقت سے باہر ہے، اس لئے جتنا قیام آسانی سے کرسکتے ہو کرو۔ اب طاقت سے باہر ہونے کی تین وجہیں بیان فرمائیں جو ہرش خص کو پیش آسکتی ہیں، پہلی وجہ بیماری ہے ، اس میں بڑھایا اور ہر قسم کی جسمانی معذوری شامل ہے۔ دوسری وجہ اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے کے لئے سفر ہے، اس میں طلب علم، زیارت احباب اور دوسرے تمام جائز مقاصد کے لئے سفر شامل ہے۔ تیسری وجہ اللہ کی راہ میں لڑائی ہے، اس میں جنگ کے علاوہ اس کی تیاری اور پہرا سبھی کچھ شامل ہے۔ یہ اسباب بیان کرنے کے بعد دوبارہ فرمایا :(فاقراء و اما تیسر منہ) یعنی ان عذروں کی وجہ سے جتنا قیام آسانی سے کرسکو کرو۔- (٦) تیسر منہ “ کی تعیین میں وہ حدیث بہت مناسب معلوم ہوتی ہے جو عبداللہ بن عمرو (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من فام بعشر آیات لم یکتب من الغافلین ومن قام بمائۃ آیۃ کتب من القانتین و من قام بالف آیۃ کتب من المقنطرین) (ابو داؤد، تفریح ابواب شھر رمضان، باب تخریب (القرآن) ١٣٩٨ وصحہ الالبانی)” جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلوں سے نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین (عبادت گز اورں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ بڑے خزانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ “ اس آیت اور حدیث سے تخفیف کے باوجود کم از کم دس آیات کے ساتھ قیام اللیل کی تاکید صاف ظاہر ہو رہی ہے۔- (٧) ” واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ “ (اور کچھ دوسرے لوگ اللہ کی راہ میں لڑائی کر رہے ہوں گے) کے متعلق حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اس میں بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے، کیونکہ یہ آیت بلکہ ساری سورت مکہ میں اتری جب کہ جہاد شروع نہیں ہوا تھا، اس وقت یہ پیش گوئی غیب کی ایک خبر ہے جو ایک نبی ہی کے ذریعے سے دی جاتی ہے۔- (٨) ” واقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ “ سے معلوم ہوا کہ زکوۃ مکہ میں فرض ہوچکی تھی، اگرچہ مختف چیزوں کے نصاب کی تعیین مدینہمیں جا کر ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ قیام اللیل جتنا آساین سے ہو سکے کرو، مگر فرض نماز اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہرگز نہ کرو۔- (٩) واقرضوا اللہ قرضاً حسناً …: زکوۃ کے بعد قرض حسنہ سے مراد نفلی صدقات ہیں، پھر زکوۃ ہو یا نفلی صدقات یا خیر کا کوئی بھی عمل وہ قیامت کے دن دس گناہ سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کی صورت میں واپس ملیں گے۔- ١٠۔ واتغفر واللہ : یعنی کوئی بھی عمل ہو اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو، عمل پر پھول مت جاؤ۔ سورة ذاریات میں متقین کے متعلق فرمایا :(کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون، وبالاسحارھم یستغفرون) (الذاریات : ١٨، ١٨) ” وہ رات کو بہت کم سوتے تھے اور سحریوں کے وقت استغفار کرتے تھے۔ “ ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے سلام پھیرتے تو تین دفعہ استغفار کرتے۔ (مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ : ٥٩١)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قیام الیل کی فرضیت منسوخ ہوگئی :۔ شروع سورت میں قم الیل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں پر قیام الیل کو فرض قرار دیا گیا تھا اور اس قیام کا طویل ہونا بھی فرض تھا مگر اس کے طول میں اختیار دیا گیا تھا کہ آدھی رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور کم سے کم ایک تہائی رات ہونا چاہئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام کی ایک جماعت اس فرض کی ادائیگی میں اکثر عزیمت پر عمل فرماتے اور زیادہ سے زیادہ رات کا وقت اس نماز میں گزارتے تھے جو دو تہائی رات کے قریب ہوتا تھا۔ ہر رات میں یہ عمل پھر دن میں دین کی دعوت و تبلیغ اور ذاتی ضروریات خصوصاً صحابہ کرام کہ بیشتر محنت مزدوری یا تجارت کرتے تھے، اس طویل و ثقیل نماز کی پابندی ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے پاؤں ورم کر آئے۔ ان کی یہ مشقت و محنت اللہ تعالیٰ کے سامنے تھی وہ اس سے بخوبی واقف تھے مگر علم الٰہی میں پہلے ہی سے متعین تھا کہ اتنی محنت کا فریضہ چند روزہی رکھا جائے گا تاکہ آپ اور صحابہ کرام محنت و ریاضت کے خوگر ہوجائیں جس کی طرف آیات مذکورہ میں بھی اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ آپ سے یہ محنت و مشقت اس لئے لے جا رہی ہے کہ آپ کو قول ثقیل یعنی قرآن کی خدمت سپرد ہونے والی تھی جو اس مشقت سے بڑی مشقت ہے۔ بہرحال علم ازلی کے مطابق جب یہ حکمت ریاضت و محنت کے خوگر بنانے کی پوری ہوگئی تو یہ فرض قیام اللیل منسوخ کردیا گیا اور حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیات مذکورہ سے صرف طول قیام کی فرضیت منسوخ ہوئی ہو اصل نماز تہجد کا فرض بدستور رہا ہو پھر شب معراج میں پانچ نمازوں کی فرضیت کے وقت نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوئی ہو، واللہ اعلم - اور ظاہر یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام ام سے یہ فرض منسوخ کردیا گیا البتہ اس کا استحباب اور عنداللہ پسندیدہ ہونا پھر بھی باقی رہا اور اس میں بھی یہ آسانی کردی گئی کہ وقت کی اور تلاوت قرآن کی کوئی تحدید نہیں رکھی گئی، ہر شخص اپنی اپنی طاقت و فرصت کے مطابق جتنے وقت میں ادا کر کے سکے کرلے اور اس میں جتنا قرآن پڑھنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لے۔- احکام شرعیہ کے منسوخ ہونے کی حقیقت :۔ دنیا کی حکومتیں یا ادارے جو اپنے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرتے رہتے ہیں اس کی بیشتر وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ تجربے کے بعد کوئی نئی صورت حال سامنے آتی ہے جو پہلے سے معلوم نہ تھی تو اس صورتحال کے مطابق پہلے حکم کو منسوخ کر کے دوسرا حکم جاری کردیا جاتا ہے مگر احکام الٰہیہ جس میں اس کا کوئی تصور و احتمال ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط ازلی اور ابدی سے کوئی چیز باہر نہیں۔ کوئی حکم شرعی جاری ہونے کے بعد لوگوں کے کیا حالات رہیں گے کیا کیا صورتیں پیش آئیں گی حق تعالیٰ کو پہلے ہی سے معلوم ہے لیکن باقضائے حکمت و مصلحت کوئی حکم کچھ عرصہ کے لئے جاری کیا جاتا ہے پہلے ہی سے اس کا ہمیشہ جاری رکھنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک مدت اللہ کے علم میں معتنی ہوتی ہے کہ اس مدت تک یہ حکم جاری رہے گا مگر اس مدت کا اظہار مخلوق پر بمصلحت نہیں کیا جاتا، الفاظ کے عموم سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم غیر موقف اور دائمی ہے عنداللہ جو اس کی مدت مقرر ہے جب وہ مدت ختم ہو کر حکم واپس لیا جاتا ہے تو مخلوق کی نظر میں وہ حکم کی منسوخی ہوتی ہے اور حقیقت میں وہ بیان مدت ہوتا ہے یعنی اس وقت مخلوق پر ظاہر کردیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ حکم ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ صرف اسی مدت کے لئے جاری کیا تھا اب وہ مدت ختم ہوگئی حکم باقی نہیں رہا۔- قرآن کریم میں بہت سی آیات کے منسوخ ہونے پر جو عامیانہ شبحصہ کیا جاتا ہے اس تقریر سے وہ شبھہ رفع ہوگیا، کیا نماز تہجہد خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس آیت کے بعد بھی فرض رہی بعض ائمہ تفسیر نے اسی کو اختیار کیا ہے ان کا استدلال سورة بنی اسرائیل کی ( آیت) ومن الیل فتھجد بہ نافلة لک سے ہی جس میں نماز تہجد کو خاص آپ کے ذمہ ایک زائد فرض کی حیثیت سے عائد کیا گیا ہے کیونکہ نافلہ کے لغوی معنی زائدہ کے آتے ہیں اور مراد فریضہ زائدہ ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ فرضیت اس نماز کی امت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں سے منسوخ ہوگئی البتہ بطور استحباب اس کی ادائیگی سب کے لئے باقی رہی اور آیت مذکورہ میں نافلۃ لک اپنے اصطلاحی معنے میں بحکم نفل ہے پھر اس کی خصوصیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو آیت میں لفظ لک سے مفہوم ہوتی ہے اس کی کیا وجہ ہے یہ پوری تفصیل اور نماز تہجہد کی فرضیت منسوخ ہونے کے بعد یہ نماز صرف نفل و مستحب کے درجہ میں رہی یا سنت مؤ کدہ کے درجہ میں یہ پوری تحقیق سورة بنی اسرئایل کی آیت مذکورہ کے تحت میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے وہاں تہجد کے خاص فضائل اور مسائل کا بھی ذکر کردیا گیا ہے۔- یہ آیت جن کے ذریعہ نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوئی اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ سے شروع ہو کر فاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ تک آئی ہے۔ یہ آیت شروع سورت کی آیات سے ایک سال یا آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی ہے سال بھر کے بعد قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہوئی، مسند احمد، مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں قیام اللیل کو فرض کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام ایک سال تک اس کی پابندی کرتے رہے سورت کا آخری حصہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے تک آسمان میں روک رکھا سال بھر کے بعد آخری حصہ نازل ہوا جس میں قیام الیل کی فرضیت منسوخ ہو کر تخفیف ہوگئی اور اس کے بعد قیام الیل صرف نفل و مستحب رہ گیا (از روح المعانی) پھر ان آیات میں تنسیخ حکم کی علت یہ بتلائی ہے کہ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْه یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ تم اس کا احصاء نہ کرسکو گے۔ احصاء کے لفظی معنے شمار کرنے کے ہیں۔ مطلب آیت کا بعض حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا ہے کہ قیام الیل میں اللہ تعالیٰ نے اگرچہ مقدار وقت کی پوری تعیین نہیں فرمائی بلکہ ایک تہائی رات سے دو تہائی رات تک کے درمیان کا وقت مقرر فرمایا تھا مگر صحابہ کرام جب اس نماز میں مشغول ہوتے تو اشتغال نماز کے ساتھ یہ معلوم ہونا دشوار تھا کہ رات آدھی ہوئی یا کم و بیش کیونکہ اوقاف معلوم کرنے کے ایسے آلات گھڑیاں وغیرہ اس زمانے میں موجود نہ تھیں اور ہوتیں بھی تب بھی شغل نماز کے ساتھ بار بار گھڑیوں کو دیکھتے رہنا ان حضرات کے حالات اور ان کے خشوع و خضوع کے ساتھ آسان نہ تھا، یہ معنے ہوئے لن تحصوہ کے اور بعض حضرات نے یہاں احصاء سے مراد عمل احصاء یعنی اس طویل وقت اور نیند کے وقت کی نماز پر مداومت نہ کر سکنا مراد لیا ہے۔ لفظ احصاء اس معنے کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں اسماء اللہ الحسنیٰ کے بارے میں آیا من احصاھا دخل الجنہ، اس میں لفظ احصاء کا مفہوم بہت سے علماء نے عمل احصار لیا ہے یعنی اسماء الہیہ کے مقتضیٰ پر پورا عمل ہونا، جیسا کہ معارف القرآن میں آیت وان تعدوا نعمت اللہ لانخصوھا کے تحت میں اس کی تفصیل لکھی گئی (پارہ نمبر ٣١ سورة ابراہیم) - فَتَابَ عَلَيْكم لفظ توبہ کے اصلی معنے رجوع کے ہیں۔ گناہ سے توبہ کو بھی اسی لئے توبہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے جرم و گناہ سے رجوع ہوتا ہے اس جگہ مراد صرف رجوع ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ حکم قیام اللیل کی فرضیت کا واپس لے لیا، آخر میں فرمایا۔- فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ یعنی نماز تہجد جو اب بجائے فرض کے مستحب یا سنت باقی رہ گئی ہے اس میں جس قدر قرآنی آسانی سے کوئی شخص پڑھ لیا کرے کسی خاص مقدار کی تعیین نہیں ہے اس آیت سے بہت سے مسائل فقیہہ نکلتے ہیں جو فقہ کی کتابوں میں مفصل مذکور ہیں وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔- وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا، اقیموالصلوة میں جمہور مفسرین کے نزدیک نماز فرض مراد ہے اور یہ ظاہر ہے کہ نماز فرض پانچ ہیں جو لیلتہ المعراج میں فرض ہوئی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام الیل کی فرضیت جو ایک سال تک جاری رہی تھی اسی عرصہ میں لیلتہ الاسراء کا واقعہ پیش آیا جس میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں اور اس کے بعد آیات مذکورہ کے ذریعہ نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور آخر سورت میں جو اقامت صلوة کا حکم آیا ہے اس سے مراد پانچ نمازیں فرض ہیں (ابن کثیر، قرطبی، بحر محیط) - اسی طرح اتوا لزکوة میں زکوة سے زکوة فرض مراد ہے مگر مشہور یہ ہے کہ زکوة بعد ہجرت دوسرے سال میں فرض ہوئی، اور یہ آیت مکی ہے ابتدائے اسلام میں نازل ہوئی ہے اس لئے بعض مفسرین نے خاص اس آیت کو مدنی کہا ہے۔ مگر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ زکوة تو مکہ مکرمہ میں اوائل اسلام ہی میں فرض ہوگئی ہو مگر اس کے نصاب اور مقدار واجب کی تفصیلات مدینہ طیبہ میں ہجرت کے دوسرے سال میں بیان کی گئی ہوں، اس طرح آیت کے مکی ہونے کی صورت میں بھی اس کو زکوة فرض پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ روح العانی میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور اس کی پوری تحقیق احقر کے رسالہ نظام زکوة میں تفصیل سے آئی ہے۔- وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو اس عنوان سے تعبیر کیا ہے کہ گویا یہ خرچ کرنے والا اللہ کو قرض دے رہا ہے اس میں اس کے حال پر لطف و کرم کی طرف اشارہ بھی ہے اور اس کا بیان بھی کہ اللہ تعالیٰ غنی الاغنیاء ہے اس کو دیا ہوا قرض کبھی مارا نہیں جاسکتا ضرور وصول ہوگا اور چونکہ زکوة فرض کا حکم اس سے پہل آ چکا ہے اس لئے اقرضوا اللہ میں جس خیرات اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا ذکر ہے اس کو اکثر حضرات نے صدقات نافلہ اور تبرعات پر محمول کیا ہے جیسے اپنے اقابر و اعزاء کو کچھ دینا یا مہمان کی مہمانی پر خرچ کرنا یا علماء و صلحاء کی خدمت کرنا وغیرہ اور بعض حضرات نے اس کا مفہوم یہ قرار دیا ہے کہ زکوة کے علاوہ بھی بہت سے مالی واجبات انسان پر عائد ہوتے ہیں۔ جیسے ماں باپ، بیوی، اولاد کا نفقہ واجبہ یا دوسری واجبات شرعیہ تو اتوالزکوة میں ادائے زکوة کا حکم دینے کے بعد دوسرے واجبات کا ذکر اقرضوا اللہ سے کردیا گیا۔- وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ آلایتہ، ماتقدموا لانفسکم کا مطلب یہ ہے کہ جو نیک کام اپنی زندگی میں کر گزرو وہ بہت رہے اس سے کہ مرنے کے وقت وصیت کرو اس میں مالی عبادت صدقہ و خیرات بھی داخل ہے اور نماز روزہ وغیرہ بھی جو کسی کے ذمہ قضا ہو اپنے ہاتھ سے اپنے سامنے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس سے سبکدوشی بہتر ہے بعد میں تو وارثوں کے اختیار میں بات رہتی ہے وہ کریں یا نہ کریں۔- حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے سوال کیا کہ تم میں ایسا کون ہے جوا پنے وارث کے مال سے بہ نسبت اپنے مال کے زیادہ محبت رکھتا ہو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے وارث کے مال کی محبت خود اپنے مال سے زیادہ رکھے۔ آپ نے فرمایا سوچ سمجھ کر بات کرو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ میں تو اس کے سوا کوئی دوسری صورت معلوم نہیں آپ نے فرمایا (جب یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ) تمہارا مال وہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارث کا مال ہے (ذکرہ ابن کثیر باسناد ابی یعلے الموصلی ثم قال و رواہ البخاری من حدیث حفص بن غیاث الخ) - تمت سورة المزمل بحمد اللہ یوم الثلتآء 22 رجب سن 1391 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ان ربک یعلم انک تقوم ادنی من ثلثی اللیل ونصفہ وثلثہ ، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو) تا قول باری (فاقروا ما تیسرمن القران ۔ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کئی معانی پر مشتمل ہے۔- ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ ابتداء میں قیام اللیل باری ہے (فاقروا ماتیسر من القران)- تیسرے یہ کہ تھوڑی سی قرات کے ذریعے نماز کے جواز پر اس کی دلالت ہورہی ہے چوتھے یہ کہ جو شخص سورة فاتحہ کی قرات کیے بغیر اگر کسی اور مقام سے قرات کرے گا تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ ہم نے گزشتہ اوراق میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آیت کا نزول صلاۃ اللیل کے بارے میں ہوا تھا اور صلوٰۃ اللیل اب منسوخ ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ صلوٰۃ اللیل کی فرضیت منسوخ ہوچکی ہے لیکن اس کی شرائط اور اس کے دوسرے احکام منسوخ نہیں ہوئے نیز ہمیں تسبیح کے ذکر کے بعد قرات کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے (فاقروا ما تیسرمنہ)- اگر یہ کہا جائے کہ اگر اس سے نفل نماز میں قرات مراد ہے اس لئے فرض نماز میں قرات کے وجوب پر اس سے استدلال نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب نفل نماز میں قرات کا وجوب ثابت ہوگیا تو فرض نماز بھی اسی طرح ہے کیونکہ قرات کے لحاظ سے کسی نے بھی فرض اور نفل نماز کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔- نیز قول باری (فاقروا ما تیسر من القران) وجوب کا مقتضی ہے کیونکہ یہ امر ہے اور امروجوب پر محمول ہوتا ہے۔ دوسری طرف کوئی ایسا مقام نہیں جہاں قرآن کی قرات ضروری اور لازم ہو۔ یہ مقام صرف نماز کا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس سے نماز کے اندر قرات مراد لی جائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اگر نفل نماز قرات مراد ہے جبکہ نفل نماز خود فرض نہیں ہے تو یہ قرات کی فرضیت پر کس طرح دلالت کرے گی۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نفل نماز اگرچہ فرض نہیں لیکن اس کے باوجود جو شخص نفل نماز پڑھے گا اس پر قرات لازم ہوگی۔- جس وقت وہ نفل نماز شروع کرے گا اس وقت ہی اس پر قرات فرض ہوجائے گی جس طرح نماز کی دوسری شرائط مثلاً طہارت ، ستر عورت وغیرہ اس پر فرض ہوجاتی ہے یا جس طرح انسان پر بیع وشراء کے عقود نیز بیع سلم وغیرہ فرض نہیں ہوتے لیکن جب کوئی شخص ان میں سے کوئی عقد کنا چاہے گا تو اس کے لئے شریعت کے مباح طریقے سے اس عقد کو عمل میں لانا فرض ہوگا۔- آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو نہیں دیکھتے۔ آپ نے فرمایا (من اسلم فلیسلم فی کیل معلوم و وزن معلوم الی اجل معلوم جو شخص بیع مسلم کرے تو وہ معلوم ناپ اور معلوم وزن کے ذریعے مدت تک کرے) اب ظاہر ہے کہ کسی پر عقد سلم ضروری نہیں ہے لیکن جو شخص عقد مسلم کرے گا وہ ان شرائط کے تحت کرے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فاقروا ما تیسر من القران) سے خود نماز مراد ہے اس لئے آیت میں نماز کے اندر قرات کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اس کے ذریعے کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی کی طرف پھیر دینا لازم آتا ہے جب کہ یہ بات دلالت کے بغیر جائز نہیں ہوتی۔- علاوہ ازیں معترض نے جو بات کہی ہے اگر اسے درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی قرات کی فرضیت پر اس کی دلالت بحالہ قائم رہتی ہے کیونکہ اس صورت میں قرات کے لفظ سے نماز کی تعبیر صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ قرات نماز کی ایک رکن ہے۔ جس طرح ارشاد باری ہے (واذا قیل لھم ارکعوا لایرکعون، اور جب ان سے جھکنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ نہیں جھکتے) ۔- مجاہد کا قول ہے کہ آیت سے نماز مراد ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (وارکعوا مع الراکعین اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو) اس سے نماز مراد ہے۔ یہاں لفظ رکوع سے نماز کی تعبیر کی گئی کیونکہ رکوع نماز کا ایک رکن ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ کے رب کو پتہ ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ ایمان والوں میں سے بعض کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات نماز میں کھڑے رہتے ہیں۔- اور رات دن کی ساعتوں کو یا یہ کہ رات میں جو تمہیں نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے تم اسے ضبط نہیں کرسکتے اس نے رات کی نماز کے بارے میں تمہارے حال پر عنایت کی ہے۔ سو اب تم لوگ نماز میں سو آیات یا اس سے زیادہ پڑھ لیا کرو۔- اسے یہ بھی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض آدمی بیمار ہوں گے کہ رات کو نماز نہیں پڑھ سکتے اور بعض تلاش معاش کے لیے سفر کریں گے ان پر رات کو نماز پڑھنا دشوار ہوگا اور بعضے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں گے تو تم سے نماز میں جتنا آسانی سے قرآن حکیم پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔- اور پانچوں نمازوں کی مع ان کے رکوع و سجود اور تمام واجبات کے پابندی کیا کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خلوص اور سچائی کے ساتھ صدقہ دو ۔- اور عمل صالح کرو اور جو نیک عمل یا صدقہ اپنے لیے آگے بھیج دو گے تو اس کا ثواب جنت میں اسی طرح محفوظ پاؤ گے کہ اس میں کسی قسم کی کمی اور چوری و نقصان نہیں ہوگا۔- اور اللہ سے اپنے گناہ معاف کراتے رہو بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

یہ رکوع صرف ایک آیت پر مشتمل ہے۔ اس آیت کے زمانہ نزول کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے ۔ کوئی روایت بتاتی ہے کہ یہ آیت اس سورت کے پہلے حصے کے نزول کے آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی اور اس سے قیام اللیل کا پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ کچھ روایات میں یہ مدت ایک سال اور کچھ میں ١٦ ماہ بتائی گئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور پہلی آیات کے گیارہ سال بعد نازل ہوئی۔ اس آیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق روایات میں پائے جانے والے غیر معمولی اختلاف کی وجہ جاننے کے لیے میں ایک عرصہ تک پریشان رہا۔ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی تفسیر سے بھی مجھے کوئی واضح راہنمائی نہ مل سکی۔ پھر کسی زمانے میں علامہ جلال الدین سیوطی (رح) کی کتاب ” الاتقان فی علوم القرآن “ کا مطالعہ کرتے ہوئے اتفاقاً مجھے اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس - کا یہ قول مل گیا کہ یہ ایک نہیں دو آیات ہیں۔ چناچہ اس قول کی روشنی میں اس نکتے پر میرا دل مطمئن ہوگیا کہ اس کلام کا نزول تو دو حصوں میں ‘ دو الگ الگ مواقع پر ہوا ‘ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اسے ایک آیت شمار کیا گیا۔- آیت ٢٠ اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یقینا آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی رات کے قریب ‘ کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی رات “- وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ ” اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں ان میں سے بھی ایک جماعت آپ کے ساتھ (کھڑی) ہوتی ہے۔ “- وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَط ” اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ کرتا ہے۔ “- رات دن کے اوقات بھی اللہ نے بنائے ہیں اور انسانوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے ‘ اس لیے وہ اپنے بندوں کی استعداد سے خوب واقف ہے۔- عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ ” اللہ جانتا ہے کہ تم اس کی پابندی نہیں کرسکو گے “- یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس انداز سے یہ مشقت زیادہ عرصے تک نہیں جھیلی جاسکتی۔- فَتَابَ عَلَیْکُمْ ” تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی ہے “- فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ” تو اب قرآن سے جتنا بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ “- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مذکورہ قول کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ اس آیت کا یہ حصہ پہلی آیات کے گیارہ ماہ یا ایک سال بعد نازل ہوا۔ اس حکم کے ذریعے دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی رات تک قیام کرنے کی پابندی ختم کردی گئی اور یہ سہولت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق قیام اللیل میں جتنا ممکن ہو اتنا قرآن پڑھ لیا کرے۔ البتہ آیت کا دوسرا (درج ذیل) حصہ جس میں قتال کا ذکر ہے ‘ اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہجرت سے متصلاً قبل یا ہجرت کے متصلاً بعدنازل ہوا۔ چناچہ گیارہ سال کے وقفے والی روایت اس حصے سے متعلق ہے۔- عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰیلا ” اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں کچھ لوگ مریض ہوں گے “- وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ” اور بعض دوسرے زمین میں سفر کریں گے اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہوں گے “- وَاٰخَرُوْنَ یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ” اور کچھ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہوں گے “- اب ظاہر ہے ایسے لوگوں کے لیے رات کو طویل قیام کرنا ممکن نہیں۔- فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُلا ” چناچہ جس قدر تمہارے لیے آسان ہو ‘ اس میں سے پڑھ لیا کرو “- وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ” اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو “- اب اس حکم میں نماز پنجگانہ کی تاکید ہے اور نماز پنجگانہ ظاہر ہے ١٠ نبوی میں معراج کے موقع پر فرض ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے بھی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ آیت کا یہ حصہ ١٠ نبوی کے بعد ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے فوراً بعد نازل ہوا ۔ اس حکم میں پانچ نمازوں کو قیام اللیل کا بدل قرار دے دیا گیا ‘ البتہ رمضان میں قیام اللیل کا معاملہ اس سے مستثنیٰ رہا۔ رمضان چونکہ نزول قرآن کا مہینہ ہے : شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ : ١٨٥) ” رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا “ چناچہ قرآن سے تعلق کی تجدید کے لیے اس مہینے میں قیام اللیل کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) نے رمضان کی آمد پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خطبہ نقل کیا ہے ‘ جس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : (جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَـــہٗ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا) (١) ” اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) “۔ یعنی رمضان کے روزے تو اہل ایمان پر فرض کردیے گئے کہ اہل ثروت ‘ نادار ‘ مزدور ‘ کسان وغیرہ سبھی روزہ رکھیں اور بھوک پیاس کی سختیاں برداشت کرنے کے عادی بن کر خود کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار رکھیں۔ جبکہ رمضان کی راتوں کے قیام کے لیے اختیار دے دیا گیا کہ جو کوئی اس کا اہتمام کرسکتا ہو وہ ضرور اس کی برکتوں سے مستفیض ہو۔ بعد میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق (رض) کے دور خلافت میں اسے اجتماعی شکل دے دی گی۔ چناچہ اجتماعی قیام اللیل کا وہ سلسلہ جس کا اہتمام ہمارے ہاں باجماعت تراویح کی صورت میں ہوتا ہے حضرت عمر (رض) کی وساطت سے امت تک پہنچا ہے۔ یہ دراصل قیام اللیل کا ” عوامی “ پروگرام ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیام اللیل کی برکتوں سے کوئی شخص بھی محروم نہ رہنے پائے۔ قرونِ اولیٰ کے مخصوص ماحول اور حالات میں اس باجماعت قیام اللیل کی افادیت بہت زیادہ تھی ۔ قرآن مجید کی زبان چونکہ ان لوگوں کی اپنی زبان تھی اس لیے امام کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ ” از دل خیزد بر دل ریزد “ کے مصداق تمام سامعین کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں کی تراویح کے اکثر و بیشتر مقتدی تو ” زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم “ کی تصویر بنے سارا وقت رکعتوں کے حساب میں مشغول رہتے ہیں (اِلا ماشاء اللہ) ۔ چناچہ اس عظیم الشان فورم پر بھی اب قرآن کا سننا بس سننے کی حد تک ہی ہے اور تفہیم و تذکیر کے حوالے سے اس استماع کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔- وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًاط ” اور اللہ کو قرض حسنہ دو ۔ “- وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًاط ” اور جو بھلائی بھی تم آگے بھیجو گے اپنی جانوں کے لیے ‘ اسے موجود پائو گے اللہ کے پاس بہتر اور اجر میں بڑھ کر۔ “- جو نیک اعمال تم نے آگے بھیجے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ کے پاس تم بہت ہی بہتر حالت میں پائو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو نہ صرف سات سو گنا تک بڑھا کر تمہیں لوٹائے گا بلکہ اپنے فضل ِخاص سے اس کے بدلے خصوصی اجر بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔- وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہو۔ “- اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ‘ رحمت فرمانے والا ہے۔ “- صحیح البخاری ‘ کتاب صلاۃ التراویح ‘ باب فضل لیلۃ القدر۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا ‘ باب فی قیام رمضان وھو التراویح۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :18 یہ آیت جس کے اندر نماز تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں ، حضرت عائشہ سے مسند احمد ، مسلم اور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا ۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا ، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے ۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے ( ابن جریر و ابن ابی حاتم ) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے ۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا ۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :19 اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا ، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا ، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں ۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :20 ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا ۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی ، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :21 چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو ، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی ۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں ، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے ، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں ۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو ۔ ( بخاری و مسلم ) اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے ، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے ۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت ، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :22 جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :23 یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا رسول اللہ صلی علیہ وسلم واخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی ( ابن مردویہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یاتینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یاتینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ( بیہقی فی شعب الایمان ) ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :24 مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنج وقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :25 ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے ، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگان خدا کی مدد ہو ، یا رفاہ عام ہو ، یا دوسرے بھلائی کے کام ۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے معتدد مقامات پر کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ا ول ، البقرہ ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ ، حاشیہ 33 ۔ جلد پنجم ، الحدید ، حاشیہ 16 ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :26 مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟ تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو ۔ فرمایا اعلموا ما تقولون ۔ سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا حال واقعی یہی ہے ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر ۔ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے ۔ ( بخاری ۔ نسائی ۔ مسند ابو یعلیٰ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani