Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے دعا و مناجات کے لیے یکسو اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوجانا، یہ رہبانیت سے مختلف چیز ہے رہبانیت تو تجرد اور ترک دنیا ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] تبتل کا لغوی مفہوم :۔ تَبَتُّلْ : کے معنی کسی شے کو کاٹ کر کسی شے سے جدا کرنا اور بتل اور تبتل کے معنی ہر قسم کے دھندوں اور جھمیلوں سے توجہ ہٹا کر اور فراغت پاکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور خلوص نیت کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہونا ہے۔ گویا یہ مقصد بھی دن کے کام کاج، ہنگاموں اور شور و شغب میں حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے بھی رات کو اٹھنا ہی مناسب وقت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واذکر اسم ربک …:” بتل یبتل “ (ن، ض) قطع کرنا۔” تبتل “ منقطع ہونا۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ رات کو خاص طور پر اٹھ کر قیام، تلاوت اور ذکر الٰہی کے علاوہ دن رات کے ہر وقت میں بھی اللہ کا ذکر جاری رکھ اور اپنی تمام تر توجہ مخلوق سے ہٹا کر اپنے رب ہی کی طرف رکھ۔ اس مطلب کا قرینہ یہ ہے کہ اس میں ذکر و تبل کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں فرمایا، عائشہ (رض) فرماتی ہیں :(کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یذکر اللہ علی کل اخیانہ) (مسلم، الحیض، باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ وغیرھا : ٣٨٣)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اقوات میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ “ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دن کی لمبی چوڑی مصروفیات سے فارغ ہو کر رات کو خاص طور پر اپنے رب کا ذکر کر اور ہر کام سے کی طور پر منقطع ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجا، جیسا کہ سورة انشراح میں فرمایا :(افذا فرعت فانصب، والی ربک فارعب) (الانشراح، ٨٠٨)” جب تو فارغ ہو تو محنت کر اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کر۔ “ اس مطلب کا قرینہ شروع سورت سے آیات کا سیاق ہے۔ دونوں مطل ہی دسرت ہیں، پہلے مطلب کی صورت میں اعم ذکر و تبتل مراد ہوگا، جو دوسرے اشغال کے ساتھ بھی جاری رہتا ہے اور دوسرے میں خاص، جو دوسرے کام چھوڑ کر رات کی تنہائی میں یکسوئی سے ادا ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا تبتل کے لفظی معنے مخلوق سے منقطع ہو کر خالق کی عبادت میں لگ جانے کے ہیں واذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ کا عطف قم الیل پر ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیام الیل یعنی رات کی نماز کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ضمن میں دن کی خاص خاص عبادتوں کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا کما فی قولہ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا اس آیت میں ایک ایسی عبادت کا حکم ہے جو رات یا دن کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال میں جاری رہتی ہے وہ ہے ذکر اللہ، اور مراد ذکر اللہ کے حکم سے اس پر مداومت ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تو تصور ہی نہیں ہوسکتا کہ آپ بالکل ذکر نہ کرتے ہوں اس لئے اس حکم کا منشاء دوام ذکر ہی ہوسکتا ہے (مظہری) اور مراد آیت کی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ ذکر اللہ کو شب و روز ہمہ وقت جاری رکھیں اس میں نہ کبھی دہول ہونا چاہئے نہ سستی۔ اور یہ مراد اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ ذکر اللہ سے مراد عام لیا جائے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے یا اعضاء وجوارح کو اللہ تعالیٰ کے احکام میں مشغول رکھنے سے۔ اور ایک حدیث میں جو حضرت صدیقہ عائشہ کی روایت سے یہ آیا ہے کہ کان یذکر اللہ عل کل حین، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اللہ کا ذکر فرماتے تھے یہ بھی اس عام معنے کی رو سے صحیح ہوسکتا ہے کیونکہ بیت الخلا وغیرہ میں آپ کا ذکر لسانی نہ کرنا روایات حدیث سے ثابت ہے مگر ذکر قلبی ہر وقت جاری رہ سکتا ہے اور ذکر قلبی کی دو صورتیں ہیں ایک الفاظ متخیلہ کے ذریعہ ذکر کرنا، دوسرے اللہ تعالیٰ کی صفات و کمالات میں غور و فکر کرنا، کما افادہ شیخ التھانوی قدس سرہ۔- دوسرا حکم اس آیت میں یہ دیا گیا کہ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا یعنی آپ تمام مخلوقات سے قطع نظر کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں لگ جائیں اس کے عام مفہوم میں اللہ کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک نہ کرنا بلکہ خلاص اللہ کے لئے عبادت کرنا بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ اپنے تمام اعمال و افعال اور حرکات و سکنات میں نظر اور بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر رہے کسی مخلوق کو نفع و ضرر کا مالک یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں۔ حضرت ابن زید نے فرمایا کہ تتبل کے معنے یہ ہیں کہ تمام دنیا ومافیہا کو چھوڑیں اور صرف اس چیز کی طرف متوجہ رہیں جو اللہ کے پاس ہے (مظہری) لیکن جس تبتل اور مخلوق سے قطع تعلق کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے وہ اس ترک تعلقات اور ترک دنیا سے بالکل مختلف ہے جس کو قرآن میں رہبانیت کہا ہے اور اس کی مذمت کی طرف اشارہ کیا ہے (آیت) ورھبانیتہ ابتدعوھا اور جس کے متعلق حدیث میں ہی لا رہبانیتہ فی الاسلام کیونکہ رہبانیت اصطلاح شرع میں اس ترک دنیا اور ترک تعلقات کا نام ہے جس میں تمام لذائذ اور حلال طیب اشیائ کو بہ نیت عبادت چھوڑ دیا جائے یعنی یہ اعتقاد ہو کہ ان حلال چیزوں کے چھوڑے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل نہیں ہو سکتی۔ یا عملاً ترک تعلقات اس طرح کرے کہ لوگوں کے حقوق واجبہ کی رعایت نہ کرے ان میں خلل آئے اور یہاں جس تبتل اور ترک تعلق کا حکم ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق پر کسی دوسری مخلوق کا تعلق غالب نہ آجائے خواہ اعتقادا یا عملاً اور ایسا ترک تعلق دنیوی تمام معاملات ازدواج و نکاح اور تعلقات رشتہ داری وغیرہ کے منافی نہیں بلکہ ان سب کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے جیسا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت خصوصاً سید الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کی پوری زندگی اور شمائل اس پر شاہد ہیں۔ یہاں جس مفہوم کو لفظ تبتل سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کا دوسرا عنوان سلف صالحین کی زبان میں اخلاص ہے۔ (مظہری) - فائدہ مہمہ :۔ ذکر اللہ کی کثرت اور تعلقات دنیا کے ترک کے معاملے میں صوفیائے کرام سلفاً وخلفاً سب سے آگے رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم جس مسافت کو طے کرنے اور راستہ قطع کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں درحقیقت اس کے دو قدم ہیں۔ پہلا قدم مخلوق سے انقطاع ہے اور دوسرا قدم وصولی الی اللہ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ آیت مذکورہ میں انہیں دو قدموں کو دو جملوں میں عطف کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلا - یہاں ذکر اللہ سے مراد اس پر ایسی مداومت ہے جس میں کبھی قصور و فتور نہ ہو اور کسی وقت اس سے ذہول نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جس کو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں وصول الی اللہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح پہلے جملے میں آخری قدم کا ذکر فرمایا اور دوسرے جملے میں پہلے قدم کا یہ ترتیب شاید اس لئے بدل گئی کہ اگرچہ عمل میں تبتل یعنی قطع تعلقات (بالمعنے المذکور) مقدم ہے اور وصول الی اللہ اس کے بعد اس پر مرتب ہوتا ہے مگر چونکہ مقصد سالک کا یہ دوسرا ہی قدم ہے اور یہی درحقیقت مقصود المقاصد ہے اس کی اہمیت و افضلیت بتلانے کے لئے تربیت طبعی وقوعی کو بدل کر ذکر اللہ کو مقدم بیان فرمایا گیا۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے انہیں دو قدموں کو خوب بیان فرمایا ہے۔- تعلق حجاب است و بےحاصلی :۔ چو پیوند ہابگسلی واصلی - ذکر اسم ذات یعنی اللہ اللہ کا تکرار بھی مامور بہ ذکر و عبادت ہے :۔ اس آیت میں ذکر اللہ کے حکم کو لفظ اسم کیساتھ مقید کر کے واذْكُرِ اسْمَ رَبِّك فرمایا ہے واذکر ربک نہیں فرمایا اس میں اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ اسم رب یعنی اللہ اللہ کا تکرار بھی مطلوب و ماموربہ ہے (مظہری) بعض علماء نے جو صرف اسم ذات اللہ اللہ کے تکرار کو بدعت کہہ دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْہِ تَبْتِيْلًا۝ ٨ ۭ- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بتل - قال تعالی: وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا[ المزمل 8] أي : انقطع في العبادة وإخلاص النية انقطاعا يختص به، وإلى هذا المعنی أشار بقوله عزّ وجل : قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ [ الأنعام 91] ولیس هذا منافیا لقوله عليه الصلاة والسلام :«لا رهبانية ولا تَبَتُّلَ في الإسلام» فإنّ التبتل هاهنا هو الانقطاع عن النکاح، ومنه قيل لمریم : العذراء البَتُول، أي : المنقطعة عن الرجال والانقطاع عن النکاح والرغبة عنه محظور لقوله عزّ وجل : وَأَنْكِحُوا الْأَيامی مِنْكُمْ [ النور 32] ،- وقوله عليه الصلاة والسلام : «تناکحوا تکثروا فإني أباهي بکم الأمم يوم القیامة» . ونخلة مُبْتِل : إذا انفرد عنها صغیرة معها - ( ب ت ل ) آیت کریمہ :۔ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا[ المزمل 8] کے معنی یہ ہیں کہ اخلاص نیت اور عبادت میں سب سے کٹ کر ایک خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ [ الأنعام 91] کہدو کہ ( اس کتاب کو ) خدا ہی نے ( نازل کیا تھا ) پھر ان کو چھوڑدو لہذا اس آیت یعنی اور حدیث (22) لارھبانیۃ ولا تبتل فی الاسلام کے درمیان منافات نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جس تبتل سے منع کیا گیا ہے وہ نکاح سے کنارہ کشی انقطاع ہے اور اسی معنی میں مریم (علیہ السلام) کو العذراء البتول کہا جاتا ہے کیونکہ مریم (علیہ السلام) عمر بھر ازدواجی زندگی سے کنارہ کش رہیں اور ترک نکاح شرعا ممنوع ہے جیسے فرمایا :۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی مِنْكُمْ [ النور 32] ، کہ اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو اور حدیث میں ہے (23) تناکحوا تکثدو ا فانی اباھی بکم الامم یوم القیامۃ ۔ کہ نکاح کرو تاکہ تمہاری کثرت ہو قیامت کے دن دوسرے کے مقابلہ میں مجھے تمہاری کثرت تعداد سے فخر ہوگا ۔ تخلۃ مبتل ۔ کھجور جس کے ساتھ کا چھوٹا پودا اس سے الگ ہوگیا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واکراسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہورہو) مجاہد کا قول ہے ” اللہ سے اپنے اخلاص کا اظہار کرو۔ “ قتادہ کا قول ہے ” پورے اخلاص کے ساتھ اس سے دعا مانگو اور اس کی عبادت کرو۔ “ ایک قول کے مطابق اس سے مراد سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہنا اور صرف اسی سے خیر کی امید رکھنا ہے۔- بعض لوگ تکبیر افتتاح کے سلسلے میں اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر نماز کے ضمن میں ہوا ہے اس لئے یہ اللہ کے تمام اسماء کے ساتھ افتتاح صلوٰۃ کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔- قول باری ہے (سبحا طویلا ۔ (دن کے اوقات میں تمہارے لئے) بہت مصروفیات ہیں) قتادہ کا قول ہے کہ طویل فراغت ہے۔ قول باری (ھی اشدوطا) کی ایک قرات وطاء ہے جس کی تفسیر میں مجاہد کا قول ہے ” واطا اللسان القلب مواطاۃ وو طاء “ یعنی رات کا وقت دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔- جن حضرات نے اس لفظ کو ” وطا “ پڑھا ہے انہوں نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ رات کی عبادت دن کی عبادت کی بہ نسبت زیادہ گراں ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا ۔ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں اور ہر طرف سے کٹ کر بس اسی کے ہو رہیں۔ “- تبتّلکا معروف مفہوم تو یہی ہے کہ سب سے کٹ کر کسی ایک کا ہوجانا ‘ لیکن عملی طور پر اس حکم کے ذریعے ایک بندئہ مومن سے ” بےہمہ و باہمہ “ کی کیفیت مطلوب ہے۔ یعنی رشتوں اور تعلقات کے ہجوم میں بظاہر سب کے ساتھ نظر آئو ‘ لیکن حقیقت میں تمہارا تعلق کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ جیسے قیامت کے دن ہر انسان کو انفرادی حیثیت سے اللہ کے حضور کھڑے ہونا ہوگا۔ اس وقت ماں باپ ‘ اولاد ‘ بیوی ‘ شوہر کوئی بھی ساتھ نہیں ہوگا۔ بہرحال ایک بندئہ مومن کو فریضہ دعوت و تبلیغ کی ادائیگی کے لیے بظاہر تو معاشرے میں رہنا ہے اور خود سے متعلقہ لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے ‘ لیکن باطنی طور پر اسے تمام لوگوں سے ذہنی و قلبی رشتے ‘ دوستیاں ‘ امیدیں اور توقعات توڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے رشتہ استوار کرنا چاہیے ۔ یہ ہے وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا کے حکم کا اصل مدعا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :9 دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو ۔ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 63 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: ذکر میں دونوں باتیں داخل ہیں، زبان سے اﷲ تعالیٰ کا ذِکر بھی، اور دل سے اﷲ تعالیٰ کا دھیان رکھنا بھی۔ اور سب سے الگ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دُنیا کے سارے تعلقات چھوڑ دو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سارے تعلقات پر اﷲ تعالیٰ کے تعلق کو غالب رکھو، یہاں تک کہ دُنیا کے تعلقات بھی اﷲ تعالیٰ ہی کے احکام کے مطابق اور اُسی کے حکم کی تعمیل میں ہونے چاہئیں۔ اس طرح وہ تعلقات بھی اللہ ہی کے لئے ہوجائیں گے۔