Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی رات کو نماز اور تلاوت زیادہ مفید اور موثر ہے، یعنی اس پر ہمیشگی کر، دن ہو یا رات، اللہ کی تسبیح و تمحید اور تکبیر و تہلیل کرتا رہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ان لک فی الھار سبحاً طویلاً :” سبحا “ اور ” سباحۃ “ (ف) کا اصل معنی تیرنا ہے ، جیسے فرمایا (والسبحت سبحاً (النازعات : ٣)” اور جو تیرے تیرنے والے ہیں تیزی سے تیرنا۔ “ مراد ادھر ادھر آنا جاا، کام کاج اور مشغولیت ہے، یعنی دن کے وقت آپ کو گھر کے کام، فکر معاش، تبلیغ دین، مہمان نوازی، مسلمانوں کے معاملات کی اصلاح اور جہاد فی سبیل اللہ، غرض بیشمار مصروفیات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جتنا مشغول وقت گزارا ہے ایسا مشغول وقت گزارنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ایسی مشغولیت میں دن کے وقت ذکر الٰہی، قیام اور تلاوت کیلئے الگ وقت ناکلنا ممکن نہیں تھا، اس لئے خاص ان کاموں کے لئے رات کو اٹھنے کی تاکید فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا . لفظ سبح کے لفظی معنے جاری ہونے اور گھومنے پھرنے کے ہیں اسی سے پانی میں تیرنے کو بھی سبح اور سباحت کہا جاتا ہے کہ پانی میں بغیر کسی رکاوٹ کے گھومنا پھرنا تیراکی کے ساتھ آسان ہے۔ یہاں مراد سبح سے دن بھر کے مشاغل ہیں جن میں تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق کے لئے یا اپنی معاشی مصالح کے لئے چلنا پھرنا سب داخل ہیں۔- اس آیت میں قیام الیل کے حکم کی تیسری حکمت و مصلحت کا بیان ہے یہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پوری امت کے لئے عام ہے وہ یہ کہ دن میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسی طرح دوسرے سبھی حضرات کو بہت سے مشاغل چلنے پھرنے کے رہتے ہیں۔ فراغ بالی سے عبادت میں توجہ مشکل ہوتی ہے رات کا وقت اس کام کے لئے رہنا چاہئے کہ بقدر ضرورت نیند اور آرام بھی ہوجائے اور قیام الیل کی عبادت بھی۔- فائدہ :۔ حضرات فقہاء نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء و مشائخ جو تعلیم و تربیت اور اصلاح خلق کی خدمتوں میں لگے رہتے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ یہ کام دن ہی تک محدود رہنے چاہئیں، رات کا وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری اور عبادت کے لئے فارغ رکھنا بہتر ہے جیسا کہ علمائے سلف کا تعامل اور اس پر شاہد ہی کوئی وقتی ضرورت دینی، تعلیمی، تبلیغی کبھی اتفاقاً رات کو بھی اس میں مشغول رکھنے کی داعی ہو تو وہ بقدر ضرورت مستثنیٰ ہے۔ اس کی شہادت بھی بہت سے حضرات علماء و فقہاء کے عمل سے ثابت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ لَكَ فِي النَّہَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا۝ ٧ ۭ- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - طول - الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ- [ القصص 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ- [ غافر 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ.- ( ط و ل ) الطول - یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔- طالوت - یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧۔ ٩) اور آپ کو دن میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خوب موقع رہتا ہے اور اپنے پروردگار کے حکم سے نماز پڑھیے یا یہ کہ اس کی توحید بیان کیجیے اور اپنی نماز دعا اور عبادت خالص اللہ ہی کے لیے کرو اسی کی عبادت کر کے اپنا پروردگار بناؤ یا کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے فتح وثواب کا وعدہ فرمایا ہے اس میں اسی کو ذمہ دار بناؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ۔ ” یقینا دن کے اوقات میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی مصروفیات ہیں۔ “- دن کے اوقات میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی دوسری مصروفیات کا سامنا ہوتا ہے۔ دعوت کے سلسلے میں طرح طرح کے لوگوں سے ملنا اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں سننا بذات ِخود ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ان مصروفیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توجہ بٹی رہتی ہے ۔ لیکن رات کی تنہائیوں میں تو بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہے ۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری توجہ اور دلجمعی سے اپنے رب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یعنی دن کا وقت چونکہ دُوسرے کاموں میں مصروفیت کا وقت ہوتا ہے، اس لئے اس میں اتنی دِلجمعی کے ساتھ عبادت مشکل ہے۔