Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دن کے مقابلے میں رات کو قرآن زیادہ واضح اور حضور قلب کے لئے زیادہ موثر ہے، اس لئے کہ اس وقت دوسری آوازیں خاموش ہوتی ہیں۔ فضا میں سکون غالب ہوتا ہے اس وقت نمازی جو پڑھتا ہے وہ آوازوں کے شور اور دنیا کے ہنگاموں کے نذر نہیں ہوتا بلکہ نمازی اس سے خوب محفوظ ہوتا اور اس کی اثر آفرینی کو محسوس کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] تہجد کا لغوی مفہوم :۔ پانچ نمازوں کی فرضیت تو معراج کو ہوئی تھی۔ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اور دوسرے صحابہ کرام (رض) بھی یہی رات کی نماز ہی پڑھا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کا بھی کوئی اہتمام یا حکم نہیں تھا۔ صحابہ کرام (رض) اپنے اپنے گھروں میں یہ نماز اپنے اپنے طور پر ادا کرلیا کرتے تھے۔ جب معراج میں پانچ وقت نمازیں فرض ہوئیں تو یہ نماز صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فرض رہ گئی باقی مسلمانوں سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی۔ البتہ اس کے ادا کرنے کی ترغیب ضرور دی گئی۔ اب اس نماز کی حیثیت عام مسلمانوں کے لیے سنت موکدہ کی ہے۔ اس کے اوقات بھی مختلف تھے۔ کئی مسلمان اسے رات کے ابتدائی حصہ میں ادا کرلیا کرتے تھے۔ بعض دوسرے پچھلے حصہ میں یہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام اللیل کی ایک صورت وہ تھی جو اوپر سیدہ ام سلمہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے۔ اور لغوی لحاظ سے لفظ تہجد یا ھجود کا یہی معنی ہے۔ یعنی رات بھر میں کئی بار سونا بھی اور جاگنا بھی۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو بھی یہ نماز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فرض ہی رہی اور اس کا وقت نصف شب سے لے کر طلوع فجر تک قرار پالیا۔ یعنی اس عرصہ کے درمیان کسی بھی وقت یہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ ان آیات سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ سورة مزمل کے نزول سے پہلے قرآن کا اتنا حصہ نازل ہوچکا تھا جسے اس لمبی نماز میں ترتیل کے ساتھ پڑھا جاسکتا تھا۔- [٧] وَطَأ بمعنی روندنا، پامال کرنا، سب کس بل نکال دینا۔ یعنی رات کو جاگ کر اپنے نفس کو اللہ کی عبادت پر آمادہ کرنا نفس کی سرکشی کو دور کرنے اور اس کے کس بل نکالنے کے لیے بہت موثر علاج ہے۔ البتہ اس سے نفس کو کوفت بہت ہوتی ہے۔ اور (وَطَأ عَلَی الاَمْرِ ) کا دوسرا معنی کسی کام کو اپنی مرضی کے موافق آسان بنالینا بھی ہے۔ گویا شب بیداری اگرچہ نفس پر بہت گرانبار ہے تاہم یہ نفس کی اصلاح کے لیے اور جس کام کے لیے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، نہایت مناسب اور مفید رہے گی۔- [٨] ( أقْوَمُ قِیْلاً ) یعنی بات کو زیادہ درست بنانے والا۔ یعنی شب بیداری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت دل و دماغ تازہ ہوتے ہیں۔ شوروغل نہیں ہوتا۔ لہذا اس وقت جو قرآن پڑھا جائے گا۔ طبیعت پوری توجہ سے اس میں غور و فکر کرے گی۔ گویا قرآن کے مطالب سمجھنے اور اس سے اثر پذیری کے لیے یہ وقت موزوں ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان ناشئۃ الیلھی اشد …:” ناشئۃ الیل “ (رات کا اٹھنا) ” نشاء ینشا “ (ف ، ک) کا مصدر بروزن ” عافیۃ “ اور ” کاذبۃ “ ہے۔ نشاء من مکانہ “ وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ ” وطاً “ ” وطی یطا “ (س) کا مصدر ہے، پاؤں سے روندنا کچلنا۔ ” اقوم “ زیادہ سیدھا، زیادہ درست۔ ” قلیلاً “ ” قولاً “ کی طرح مصدر ہے۔ - (٢) یعنی رات کا اٹھنا طبیعت پر بہت بھاری اور نفس کو کچلنے میں دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ واضح رہے کہ جو لوگ زیادہ سے زیادہ جسمانی ایذا برداشت کرلیتے ہیں بےخوابی کی ایذا کے سامنے ان کے حصول بھی جو بدلے جاتے ہیں۔ نیند جیسی مرغوب چیز چھوڑ کر قیام کا مشکل ترین عمل کرنے سے نفس میں مشقت اٹھانے کی اتنی قوت پیدا ہوگی کہ وہ رحی الٰہی کو اٹھانے اور تبلیغ رسالت کے بھار بوجھ کر بردشات کرنے کے قابل ہوجائے گا۔” اقوم قیلاً “ رات کو جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت اٹھ کر آدمی اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس مبارک وقت میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی جو اس کی توجہ خراب کرے، اس وقت منہ سے نکلنے والے الفاظ زبان اور دل دونوں سے وقت میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی جو اس کی توجہ خراب کرے، اس وقت منہ سے نکلنے والے الفاظ زبان اور دل دونوں سے نکل رہے ہوتے ہیں اور اس عمل میں کسی دکھاوے یا سناوے کی آمیزش بھی نہیں ہوتی، کیونکہ کوئی دوسرا نہ دیکھتا ہے نہ سن رہا ہوتا ہے، اس لئے اسے بات کرنے میں زیادہ درست قرار دیا۔ پھر رات کا آخری حصہ خاص قبولیت کا وقت بھی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ینزل ربنا تبارک و تعالیٰ کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین یسفی ثلث اللیل الاخر یقول من یدعونی فاستجیب لہ ؟ من یسالنی فاعطیہ ؟ من یستغفرنی فاغفرلہ ؟ ) (بخاری، التھجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل : ١١٣٥۔ مسلم : ٨٥٨(” ہمارے اب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری ثلث باقی ہوتا ہے، فرماتا ہے :” کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش کی درخواست کرے اور میں اسے بخشوں ؟ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ لفظ ناشہ بوزن عافیت مصدر ہے جس کے معنی ہیں رات کی نماز کے لئے کھڑا ہونا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ سونے کے بعد رات کی نماز کے لئے اٹھنا ناشتہ الیل ہے اس معنی کے لحاظ سے لفظ ناشتہ اللیل بمعنے تہجہد ہوگیا کیونکہ تہجد کے لفظی معنے بھی رات میں سو کر اٹھنے کے بعد نماز پڑھنے کے ہیں۔ ابن کیسان نے فرمایا کہ آخر رات کے قیام کو ناشتہ اللیل کہا جاتا ہے۔ ابن زید نے فرمایا کہ رات کے جس حصے میں بھی کوئی نماز پڑھی جائے وہ ناشتہ الیل میں داخل ہے اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد ہر نماز ناشتہ الیل میں داخل ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عباس اور ابن زبیر (رض) سے ناشتہ الیل کے معنے پوچھے تو انہوں نے فرمایا الیل کلھا ناشتہ یعنی رات کے ہر حصہ کی نماز ناشتہ الیل میں داخل ہے (مظہری) - ان مجموعہ اقوال میں کوئی تضاد نہیں حقیقت یہ ہے کہ قیام الیل اور ناشتہ الیل کا مفہوم اصل میں عام ہے رات کے کسی ھی حصہ میں جو نماز پڑھی جائے اس پر ان دونوں لفظوں کا اطلاق ہوسکتا ہے خصوصاً جو نماز عشاء کے بعد ہو جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے لیکن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جمہور و صحابہ وتابعین اور صلحائے امت کا ہمیشہ یہ عمل رہا ہے کہ اس نماز کو سو کر اٹھنے کے بعد آخر شب میں ادا کرتے تھے اس لئے وہ افضل و اعلیٰ اور موجب برکات زیادہ ہے اور نفس سنت قیام الیل اور ناشتہ الیل کی عشاء کی نماز کے بعد ہر نماز نفل سے ادا ہوجاتی ہے۔- هِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا وطاً میں دو قراتیں ہیں، مشہور قراة بفتح الواؤ و سکون الطاء بروزن ضرب ہی جس کے معنی روندنے اور کچلنے کے آتے ہیں اس کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ رات کی نماز نفس کشی اور نفس کو کچلنے میں بہت معین ہے یعنی نفس کو قابو میں رکھنے اور ناجائز خواہشات پر اڑنے سے روکنے میں نماز تہجد سے بڑی مدد ملتی ہے خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے .... دوسری قراة میں وطاء بکسر الواو بالالف المحمودة بروزن کتاب ہے اس صورت میں یہ مواطاة بمعنی موافقت کا مصدر ہے قرآن کریم کی آیت لیواطوا عدة ماحرم میں اسی موافقت کے معنی ہیں، ائمہ تفسیر میں سے حضرت ابن عباس اور ابن زید سے اس کے یہی معنی منقول ہیں، ابن زید نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ رات کے وقت نماز کے لئے اٹھنا قلب نگاہ، کان اور زبان سب میں باہمی موافقت پیدا کرنے میں اشد ہے یعنی بہت زیادہ موثر ہے۔- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اشد وطا کے معنی یہ ہیں کہ کان اور قلب میں اس وقت زیادہ موافقت ہوتی ہے کہ رات کا وقت عموماً کاموں سے فراغت اور شور و شغب سے نجات اور سکون کا وقت ہوتا ہے اس وقت جو الفاظ زبان سے نکلیں گے اپنے کان بھی ان کو سنیں گے اور دل بھی حاضر ہوگا۔- واقوم قیلاً اور اقوام کے معنے زیادہ مستقسیم و درست اور زیادہ ثابت کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ رات کے وقت میں تلاوت قرآن زیادہ درست اور جماؤ اور ثبات کیساتھ ہو سکتی ہے کیونکہ مختلف قسم کی آوازوں اور شور و شغب سے قلب اور ذہن مشوش نہیں ہوتا۔- خلاصہ اس آیت کا بھی حکم قیام الیل کی حکمت بیان کرنا ہے اس سے پہلی آیت میں جو اس کی حکمت ارشاد فرمائی گئی تھی۔ اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلا یہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات قدسی کے ساتھ خاص تھی کہ قول ثقیل یعنی قرآن کے نزول کا تعلق آپ ہی کی ذات سے ہے۔ اس دوسری آیت میں جو حکمت بیان ہوئی وہ سب امت کے لئے عام ہے کہ رات کی نماز میں دو وصف ہیں اول قلب و زبان میں موافقت دوسرے تلاوت قرآن میں بوجہ سکون کے آسانی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۝ ٦ ۭ- نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - وطأ - وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی - مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة 37] - ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ ( ف ) برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ان ناشئۃ اللیلھی اشد وطا، درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لئے بہت کارگر ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن الزبیر (رض) کا قول ہے کہ جب تم رات کے وقت اٹھ کر سیدھے کھڑے ہوجائو یعنی نماز پڑھو تو یہی رات کا اٹھنا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ ” پوری رات جب کوئی شخص اٹھ کر نماز پڑھتا رہے تو ایسا شخص رات کو اٹھنے والا کہلائے گا۔ عشاء کی نماز کے بعد کا وقت رات کو اٹھنے کا وقت ہے۔ “ حسن سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔- قول باری (اشد وطاو اقوم قیلا ۔ نفس پر قابو پانے کے لئے زیادہ کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے) کے متعلق حسن کا قول ہے کہ ” یہ جسم کو زیادہ مشقت میں ڈالنے کا ذریعہ اور خیر یعنی میں زیادہ ثابت قدم رہنے کا وسیلہ ہے۔ “ مجاہد کا قول ہے (واقوم قیلا) قرآن ٹھیک پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً ” یقینا رات کا جاگنا بہت موثر ہے نفس کو زیر کرنے کے لیے “- وَّاَقْوَمُ قِیْلًا ۔ ” اور بات کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔ “- یہ نہایت سکون و اطمینان کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت بندے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ ناشئۃ الیل استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسرین اور اہل لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ سے مراد نفس ناشئہ ہے ، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا ۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے پر ہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ اور مجاہد نے اسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :7 اصل میں لفظ اشد وطاً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے ۔ اس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلط حاصل کر کے اپنی اس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دین حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کے ان اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لامحالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا اس میں ریاکاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :8 اصل میں اقوم قیلا ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے ۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ سکتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اجدر ان یفقہ فی القران ، یعنی وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور و خوض کرے ( ابو داؤد )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یعنی رات کو اُٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے سے اِنسان کے لئے اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ اور رات کے وقت میں چونکہ شور و غل نہیں ہوتا، اس لئے تلاوت اور دُعا ٹھیک ٹھیک اور حضورِ قلب کے ساتھ ادا ہوتی ہیں۔ دن کے وقت یہ فائدے کم ہوتے ہیں۔