5۔ 1 رات کا قیام چونکہ نفس انسانی کے لئے بالعموم گراں ہے، اس لئے یہ جملہ خاص طور پر فرمایا کہ ہم اس سے بھی بھاری بات تجھ پر نازل کریں گے، یعنی، قرآن، جس کے احکام و فرائض پر عمل، اس کی حدود کی پابندی اور اس کی تبلیغ اور دعوت، ایک بھاری جانفسانی کا عمل ہے۔ بعض نے ثقالت سے وہ بوجھ مراد لیا ہے جو وحی کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑتا تھا جس سے سخت سردی میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے۔
[٥] عظیم ذمہ داری کیا ہے :؟ بھاری کلام سے مراد وہ احکام ہیں جو معاشرہ میں انقلاب کے سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے جانے والے تھے۔ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ان احکام پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنا تھا پھر اس دعوت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنا اور ان کے مقابلہ میں اٹھنا تھا۔ مشرکانہ عقائد کے خلاف اور جاہلی تہذیب و تمدن کے خلاف جہاد کرنا تھا۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے دشمن معاشرہ میں محبت و موانست اور بھائی بندی کی فضا پیدا کرنا تھی۔ پھر انہی کو متحد کرکے پوری دنیائے کفر سے ٹکر لینا تھی اور اللہ کی مہربانی اور مدد کے ساتھ دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ کے مقابلہ میں غالب کرنا تھا۔ یہ تھیں وہ عظیم ذمہ داریاں جن کی آپ کو ( اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا ) 73 ۔ المزمل :5) کے ذریعہ اطلاع دی گئی اور اسی فریضہ کی تربیت کے سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا۔
(١) انا سنلقی علیک…: اس آیت میں اور اس کے بعد والی دو آیتوں میں رات کے قیام کے حکم کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ وحی الٰہی کا بھاری بوجھ اٹھانے کی استعداد پیدا کرنے کے لئے رات کا قیام اور اس میں پورے غور و فکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہایت ضروری ہے۔ - (٢) قولاً ثقیلاً “ (بھاری کلام) سے مراد وحی الٰہی ہے جو اترتے وقت بھی بھاری ہے، ہر کلام اور ہر چیز سے بھاری ہے، اس پر عمل بھاری ہے اور اسے تمام دنیا تک پہنچانے کا فریضہ بھی بہت بھاری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے :(١) نزول وحی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت بوجھ پڑتا تھا، جسے برداشتک رنا آپ پر بہت بھاری تھا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سخت سردی کے دن آپ پر وحی نازل ہوتی اور جب وہ حالت ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی سے پسینا ٹپک رہا ہوتا۔ (بخاری، بدہ الوحی، باب کیف کان بدء الوحی …: ٢) زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی تو آپ کی ران میری ران پر تھی، آپ کی ران کا اتنا بوجھ تھا، قریب تھا کہ وہ میری ران کو کچل دے۔ (دیکھیے بخاری : ٢٨٣٢) عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی پر سوار ہوتے، آپ پر وحی اترتی تو اونٹنی زمین پر گردن رکھ دیتی۔ (دیکھیے سمند احمد : ٦ ١١٨، ح : ٢٣٨٢١) (٢) یہ کلام دوسرے تمام کلام سے بھایر ہے، ب اقی سب کلام اس کے مقابلے میں ہی ہیں۔ (٣) اس کے احکام پر عمل کرنا بھاری ہے۔ فرئاض پنج گانہ اور دوسرے احکام بجا لانا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا نفس پر بہت بھاری ہے۔ (٤) یہ اس لئے بھی بھاری ہے کہ اسے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہے جو نہایت دشوار کام ہے۔ اس کے لئے آپ کو لوگوں کی مخالفت طعن و ملامت ، ٹھٹھا و مذاق، گالی گلوچ، جسمانی ایذا، قتل کی سازشیں اور ہجرت و جہاد سب کچھ برداشت کرنا ہوگا۔
(آیت) اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا ثقیل کے معنی بھاری کے ہیں اور قول ثقیل سے مراد قرآن ہے کیونکہ اس کے بیان کردہ حلال و حرام اور جائز اور ناجائز کے حدود کی دائمی پابندی طبعی طور پر بھاری ہے بجز اس کے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو آسان بنا دے اور قرآن کو قول ثقیل اس وجہ سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے نزول کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک خاص وزن اور شدت محسوس فرماتے تھے جس سے سخت سردی کے زمانے میں بھی آپ کی پیشانی پیسینہ پسینہ ہوجاتی تھی اور اگر اس وقت کسی اونٹنی پر سوار ہیں تو وہ اس کے بوجھ سے اپنی گردن ڈال دیتی تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں (صحیح بخاری وغیرہ) - اس آیت میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ نماز تہجد کا حکم اسلئے دیا گیا کہ انسان مشقت اٹھانے کا خوگر بنے۔ یہ رات کو نیند کے غلبہ اور نفس کی راحت کے خلاف ایک جہاد ہے اس کے ذریعہ ثقیل بوجھ احکام کی برداشت آسان ہوجائے گی جو قرآن میں نازل ہونے والے ہیں۔
اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًاٍ ٥- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے
(٥۔ ٦) ہم تم پر بذریعہ جبریل امین ایک کلام نازل کرنے کو ہیں جو امر و نہی حلال و حرام وعد و وعید کے اعتبار سے سخت ہے، یا یہ کہ بھاری ہے یا یہ کہ جو اس کی مخالفت کرے اس کے لیے بھاری ہے یا یہ کہ رات کو نماز پڑھنے میں بھاری ہے۔ رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونے میں آدمی کو نشاط حاصل ہوتا ہے جبکہ ثواب سمجھ کر پڑھے یا یہ کہ دل و زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور قرآن کریم خوب صاف پڑھا جاتا ہے۔
آیت ٥ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا ۔ ” ہم عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ “- اس سے مراد رسالت (انذار و تبلیغ) کی ذمہ داری ہے ‘ جس کے بارے میں پہلا حکم سورة المدثر کی ابتدائی آیات میں آیا تھا۔ واضح رہے کہ سورة المزمل کی زیر مطالعہ آیات (غالباً ابتدائی نو آیات) تیسری وحی کی صورت میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ اس کے بعد نازل ہونے والی چوتھی وحی سورة المدثر کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی۔ - اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس عظیم ذمہ داری کے بارے میں بتایا جا رہا ہے جس کا بوجھ عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں پر پڑنے والا تھا۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے ہی انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے ‘ لیکن اب رسالت کی کٹھن ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید ریاضت کرنے کی ہدایت کی گئی کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کا بیشتر حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھنے میں گزارا کریں اور اس طرح قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر جذب کریں۔
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :5 مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اس کے تحمل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے ، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو ۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا ، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے میں اٹھنا ، اور اس کے مطابق عقائد و افکار ، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پو رے نظام میں انقلاب برپا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس بنا پر بھی اس کو بھاری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحمل بڑا دشوار کام تھا ۔ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے ۔ میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اب ٹوٹ جائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے ، آپ کی پیشانی سے اس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا ( بخاری ، مسلم ، مالک ، ترمذی ، نسائی ) ۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزول وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا ( مسند احمد ، حاکم ، ابن جریر ) ۔
3: اس سے مراد قرآنِ کریم ہے۔ چونکہ یہ سورت ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، اس لئے قرآنِ کریم کا بیشتر حصہ ابھی نازل ہونا باقی تھا۔