4۔ 1 یعنی یہ قیام نصف رات سے کچھ کم (ثلث) یا کچھ زیادہ (دو ثلث) ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 4۔ 2 چناچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی قرأت ترتیل کے ساتھ ہی تھی اور آپ نے اپنی امت کو بھی ترتیل کے ساتھ، یعنی ٹھہر ٹھہر پڑھنے کی تلقین کی ہے۔
[٤] ترتیل میں کون کون سی باتیں شامل ہیں :۔ رَتِّلْ : رتل کسی چیز کی خوبی، آرائش اور بھلائی کو کہتے ہیں اور رتل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنا ہے۔ نیز اس کا معنی خوش آوازی سے پڑھنا یا پڑھنے میں خوش الحانی اور حسن ادائیگی میں حروف کا لحاظ رکھنا اور ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر اور الگ الگ کرکے پڑھنا ہے اور اس طرح پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انسان اس کے معانی پر غور کرسکتا ہے اور یہ معانی ساتھ کے ساتھ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ چناچہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز پڑھتے پھر اس قدر سوجاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی۔ پھر اتنی دیر نماز پڑھتے جتنی دیر سوئے تھے پھر اس کے بعد اتنی دیر سو جاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت جدا جدا تھی حرف حرف کرکے، (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب کیف کانت قراۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیز انہی سیدہ ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قرائت کو الگ الگ کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) پڑھتے پھر ٹھہر جاتے پھر (الرحمٰنِ الرّحِیْم) پڑھتے پھر ٹھہر جاتے پھر (مَالک یوم الدِّیْن) پڑھتے) (ترمذی۔ ابو اب القراء ات عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ترتیل قرآن کا مطلب :- ورتل القرآن ترتیلاً ، ترتیل کے لفظی معنے کلمہ کو سہولت اور استقامت کے ساتھ منھ سے نکالنے کے ہیں (مفردات امام راغب) مطلب آیت کا یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں جلدی نہ کریں، بلکہ ترتیل و تسہیل کے ساتھ ادا کریں اور ساتھ ہی اس کے معانی میں تدبر و غور کریں (قرطبی) ورتل کا عطف قم الیل پر ہے اور اس میں اس کا بیان ہے کہ رات کے قیام میں کیا کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد اگرچہ قرائت و تسبیح، رکوع و سجود سبھی اجزائے نماز پر مشتمل ہے مگر اس میں اصل مقصود قرات قرآنی ہے اسی لئے احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز بہت طویل ادا فرماتے تھے، یہی عادت صحابہ وتابعین میں مصروف رہی ہے۔- مسئلہ :۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کا صرف پڑھنا مطلوب نہیں بلکہ ترتیل مطلوب ہے جس میں ہر ہر کلمہ صاف صاف اور صحیح ادا ہو۔ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح ترتیل فرماتے تھے۔ حضرت ام سلمہ سے بعض لوگوں نے رات کی نماز میں آپ کی تلاوت قرآن کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے نقل کر کے بتلایا جس میں ایک ایک حرف واضح تھا (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، از مظہری) - مسئلہ :۔ ترتیل میں تحسین صوت یعنی بقدر اختیار خوش آوازی سے پڑھنا بھی شامل ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی قرات و تلاوت کو ایسا نہیں سنتا جیسا اس نبی کی تلاوت کو سنتا ہے جو خوش آوازی کے ساتھ جہراً تلاوت کرے (مظہری) - حضرت علقمہ نے ایک شخص کو حسن صوت کیساتھ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا لقد (رتل القرآن فداہ ابی وامی، یعنی اس شخص نے قرآن کی ترتیل کی ہے میرے ماں باپ اس پر قربان ہوں (قرطبی) - اور اصل ترتیل وہی ہے کہ حروف و الفاظ کی ادائیگی بھی صحیح اور صاف ہو اور پڑھنے والا اس کے معانی پر غور کر کے اس سے متاثر بھی ہو رہا ہو جیسا کہ حسن بصری سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک شخص پر ہوا جو قرآن کی ایک آیت پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنا ہے۔ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا بس یہی ترتیل ہے (جو یہ شخص کر رہا ہے) از قرطبی
اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا ٤ ۭ- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - رتل - الرَّتَلُ : اتّساق الشیء وانتظامه علی استقامة، يقال : رجل رَتَلُ الأسنان، والتَّرْتِيلُ : إرسال الکلمة من الفم بسهولة واستقامة . قال تعالی: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا[ المزمل 4] ، وَرَتَّلْناهُ تَرْتِيلًا[ الفرقان 32] .- ( ر ت ل ) الرتل کسی چیز کا حسن تناسب کے ساتھ منتظم اور مرتب ہونا رجل رَتَلُ الأسنان ۔ آدمی جس کے دانت آبدار اور حسن ترتیب کے ساتھ ہوں اور ترتیل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا[ المزمل 4] اور تم قرآن کو خوب حسن ترتیب سے پڑھا کرو ۔ وَرَتَّلْناهُ تَرْتِيلًا[ الفرقان 32] اور ہم نے اسے نہایت عمدہ ترتیب اور تناسب کے ساتھ اتارا ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔
قول باری ہے (ورتل القران ترتیلا۔ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” اسے پوری طرح واضح کرکے پڑھو۔ “ طائوس کا قول ہے۔ اسے اس طرح واضح طور پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو کہ تمہارا ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم ومدعا کو سمجھ لے۔ “ مجاہد کا قول ہے ” ایک لفظ کو دوسرے لفظ کے ساتھ پیوستہ کرکے آہستہ آہستہ پڑھو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قیام اللیل کی فرضیت کے نسخ کے متعلق مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ نیز یہ کہ قیام اللیل مستحب ومندوب ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قیام اللیل کی ترغیب وتحریض کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات مروی ہے۔- حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز حضرت دائود (علیہ السلام) کی نماز تھی ۔ آپ نصف رات تک سوتے، پھر تہائی رات نماز پڑھتے اور آخری چھٹے حصے میں سوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا روزہ تھا۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہ رکھتے۔ “
آیت ٤ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ ” یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں “- یا پھر رات کا دو تہائی حصہ قیام میں گزاریں۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام اللیل کا دورانیہ یا نصاب ایک تہائی رات سے لے کر دو تہائی رات تک ہونا چاہیے ۔ اس نصاب میں ہمارے لیے رمضان کے قیام اللیل کے حوالے سے بھی راہنمائی موجود ہے۔ رمضان کی راتوں کے قیام کے بارے میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :- (مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَـہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ) (١)- ” جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جس نے رمضان (کی راتوں ) میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ ‘ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں “ - اب ظاہر ہے ” قیام اللیل “ کی اصطلاح کا اطلاق رات کے ایک بڑے حصے کے قیام پر ہی ہوسکتا ہے۔ گھنٹے بھر میں جیسے تی سے بیس رکعتیں پڑھ کر سو جانے کو تو قیام اللیل نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہ بیس رکعتوں کا نصاب تو اصل میں ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے سارا دن محنت و مشقت میں گزارنا ہے۔ ایسے لوگوں کی مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق (رض) نے ان کے لیے قیام اللیل کا ایک کم سے کم معیار مقرر فرما دیا تھا۔ البتہ جن لوگوں کے حالات موافق ہوں انہیں رمضان المبارک میں بہرصورت زیر مطالعہ آیات کے مفہوم و مدعا کے مطابق قیام اللیل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ حضرات جو اپنی ملازمت وغیرہ سے ایک ماہ کی رخصت لے سکتے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ چھٹیاں سیرسپاٹوں پر ضائع کرنے کے بجائے رمضان کے لیے بچا کر رکھا کریں ‘ تاکہ قیام اللیل کی برکتوں سے کماحقہ مستفید ہو سکیں۔- وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ۔ ” اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جایئے۔ “- تَرْتِیْلکے معنی قرآن مجید کو خوب ٹھہرٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنے کے ہیں۔ گویا قیام اللیل کا اصل لازمہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور وہ بھی ترتیل کے ساتھ۔ واضح رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں دے دیا گیا تھا۔ بعد میں جب باقاعدہ پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو قیام اللیل کو مختصر کر کے تہجد کی شکل دے دی گئی ‘ لیکن اس میں بھی قرآن کی تلاوت پر زور دیا گیا : وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ (بنی اسرائیل : ٧٩) یعنی تہجد بھی قرآن کے ساتھ ( بِــہٖ ) ادا کریں۔ تہجد کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چند مختصر سورتوں کے ساتھ آٹھ رکعتیں ادا کیں اور پھر بیٹھ کر دوسرے اذکار میں مشغول ہوگئے۔ بہرحال جسے اللہ تعالیٰ نے تہجد کی توفیق دی ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اتنا قرآن ضرور یاد کرے جس سے تہجد کا کچھ نہ کچھ حق ادا ہو سکے۔
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :3 یہ اس مقدار وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ اس میں آپ کو اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نماز میں صرف کریں ، یا اس سے کچھ کم کر دیں ، اس سے کچھ زیادہ ۔ لیکن انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ترجیح آدھی رات ہے ، کیونکہ اسی کو معیار قرار دے کر کمی بیشی کا اختیار دیا گیا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :4 یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو ، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو ، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو ۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو ۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکر سے لبریز ہو جائے ۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو ۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ غرض یہ قرات محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کا طریقہ حضرت انس سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے ۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرے تھے ۔ ( بخاری ) حضرت ام سلمہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے جاتے تھے ، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رکھ جاتے ، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھہرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدین کہتے ( مسند احمد ۔ ابو داؤد ۔ ترمذی ۔ نسائی ) حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے ، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے ، جہاں اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے ( مسلم ، نسائی ) ۔ حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم ۔ ( اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے ) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ( مسند احمد ، بخاری ) ۔