Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابتدائے وحی حضرت جابر سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ Ǻ۝ۙ ) 74- المدثر:1 ) نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی آیت ( اقرا باسم ) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یحییٰ بن ابو کثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں؟ تو فرمایا آیت ( یا ایھا المدثر ) میں نے کہا لوگ تو آیت ( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ Ǻ۝ۚ ) 96- العلق:1 ) بتاتے ہیں فرمایا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں حضرت جابر نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا ۔ میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ Ǻ۝ۙ ) 74- المدثر:1 ) کی آیتیں اتریں ( بخاری ) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی ۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورہ مدثر کی ( وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ Ĉ۝۽ ) 74- المدثر:5 ) تک کی آیتیں اتریں ، ابو سلمہ فرماتے ہیں ( رجز ) سے مراد بت ہیں ۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی ، یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورہ اقراء کی آیتیں ( مالم یعلم ) تک پڑھا گئے تھے ، پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں ، طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے ، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے ، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے ، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں فاصبر تک اتریں ۔ پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے ، جہنم سے ، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا ۔ ان کو آگاہ کر دو ان سے غفلت کو دور کر دو ، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت ، بدعہدی ، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو ، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں ، عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال کی اصلاح کر لو ، یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں ، عربی محاورے میں جو معصیت آلود ، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب ، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں ، شاعر کہتا ہے ۔ اذا المر الم یدنس من اللوم عرضہ فکل ردا یرتدیہ جمیل یعنی انسان جبکہ سیہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو ۔ کپڑے پاک صاف رکھو ، میلوں کو دھو ڈالا کرو ، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو ۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی ۔ سات ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو ، محمد بن کعب قرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو ۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ، جیسے اور جگہ فرمان ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا Ǻ۝ۙ ) 33- الأحزاب:1 ) اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو ۔ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو ، ابن مسعود کی قرأت میں آیت ( ان تستکثر ) ہے ، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو ، یہ چار قول ہوئے ، لیکن اول اولیٰ ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر ، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ ۔ ( ناقور ) سے مراد صور ہے ، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کیسے راحت سے رہوں؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے؟ فرمایا کہو دعا ( حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا ) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا ، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ آیت ( فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ Ḍ۝ۙ ) 74- المدثر:9 ) یہ آج کا دن تو بیحد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے ، حضرت زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی ، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ (اِ قْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ) ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو ، مجھے کپڑا اوڑھا دو ۔ چناچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری) اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] وحی کی گرانیاری :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلی جو وحی غار حرا میں نازل ہوئی وہ سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ خالق کائنات ہے۔ اسی نے آپ کو بھی پیدا کیا ہے اور اسی نے یہ فرشتہ نازل کیا ہے۔ ان آیات میں آپ کو تبلیغ وغیرہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنا مقصود تھا۔ فرشتہ جبریل کے ذریعہ نبی کے دل پر جو وحی نازل ہوتی ہے۔ نبی کے لئے سخت تکلیف دہ اور گرانبار ہوتی ہے۔ اس دوران پہلے گھنٹی کی سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پھر نبی کا اس عالم سے رشتہ کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا ہے اور اس وحی کا اتنا بار ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض اوقات سردیوں میں وحی کے وقت پسینہ آجاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدنا زید بن ثابت (رض) کی ران پر ران رکھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوا۔ سیدنا زید کہتے ہیں کہ میں نے اس کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی۔ اور ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی پر سوار تھے۔ وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو اس کے بوجھ اور دباؤ سے اونٹنی نیچے بیٹھ گئی تھی۔ چناچہ پہلی دفعہ غار حرا میں جب وحی نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اس تکلیف اور بوجھ سے مجھے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ خیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی حالت میں گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (رض) نے آپ کو بہت تسلی دی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وحی کی تکلیف اور بوجھ کے باوجود اس دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک عجیب طرح کی لذت بھی محسوس ہوئی تھی۔ اسی لذت کی وجہ سے آپ وحی کے منتظر بھی رہتے تھے۔ بعد ازاں ایک دن درج ذیل واقعہ پیش آیا :- سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی بند رہنے کا تذکرہ فرما رہے تھے۔ فرمایا : ایک دفعہ چلتے چلتے میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اتنا ڈرا کہ ڈر کے مارے زمین پر گرپڑا۔ پھر اپنے گھر آیا تو گھر والوں سے کہا : مجھے کمبل اڑھا دو ۔ مجھے کمبل اڑھا دو چناچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ( یَایُّھَا الْمُدَّثِّرْ ۔۔ فَاھْجُرْ ) تک۔ ابو سلمہ نے کہا رجز سے بت مراد ہیں۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی، برابر لگاتار آنے لگی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یا یھا المدثر :” المدثر “ اصل میں ” المتدثر “ تھا ” تائ “ کو دال سے بدل کر دال میں ادغام کردیا گیا ۔ جو کپڑا جسم کے ساتھ ملا ہوا ہو اسے ” شعار “ اور جو اس کے اوپر پہنا جائے اسے ”’ ثار “ کہتے ہیں۔ اس خطاب کی وجہ کے لئے دیکھیے سورة مزمل کی پہلی آیت کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھو (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو یا یہ کہ مستعد ہوجاؤ) پھر (کافروں کو) ڈراؤ (جو کہ مقتضا منصب نبوت کا ہے اور یہاں تبیشر یعنی جنت کی بشارت کا اسلئے ذکر نہیں فرمایا کہ یہ آیت بالکل ابتدائے نبوت کی ہے اس وقت باسثنا ایک دو کے کوئی مسلمان نہیں تھا تو انداز ہی انسب تھا) اور اپنے رب کی بڑائیاں کرو (کہ تبلیغ میں سب سے پہلی چیز توحید ہے) اور (آگے بعض ضروری اعمال و عقائد واخلاق کی تعلیم ہے جس پر خود بھی عالم رہنا چاہئے کہ تبلیغ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی ضروری ہے یعنی ایک تو) اپنے کڑوں کو پاک رکھئے (یہ اعمال میں سے ہے اور چونکہ بالکل ابتداء میں نماز نہ تھی اس لئے اس کا حکم نہیں ہوا) اور (دوسرے یہ کہ) بتوں سے الگ رہو (جس طرح کہ اب تک الگ ہو۔ یہ عقائد میں سے ہے یعنی بدستور سابق توحید پر دوام رکھو اور باوجود یکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی احتمال نہ تھا پھر بھی یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ عقیدہ توحید کی اہمیت معلوم ہو کہ معصوم کو بھی باوجود احتیاج نہ ہونے کے اس کی تعلیم کی جاتی ہے) اور کسی کو اس غرض سے مت دو کہ (دوسرے وقت) زیادہ معاوضہ چاہو ( یہ متعلق اخلاق کے ہے اور گو اوروں کے لئے یہ امر جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے جیسا سورة روم کی (آیت)- وما اتیتم من ربا الخ - کی تفسیر سے معلوم ہوسکتا ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان چونکہ اعلیٰ وارفع ہے اس لئے آپ پر اس کو بھی حرام کردیا گیا - کمافی الروح والا صح ان النھی للتحریم وانہ من خواصہ علیہ الصلوة والسلام - اور پھر (انذار و تبلیغ میں جو ایذا پیش آئے اس پر) اپنے رب (کی خوشنودی) کے واسطے صبر کیجئے (یہ خاص اخلاق متعلقہ بالتبلیغ میں سے ہے پس یہ آیتیں جامع ہوگئیں اصلاح اعمال و اخلاق کو اپنے لئے بھی دوسروں کے لئے بھی) پھر (اس ڈرانے کے بعد جو کوئی ایمان نہ لاوے اس کے لئے یہ وعید ہے کہ) جس وقت صور پھونکا جاوے گا سو وہ وقت یعنی وہ دن کافروں پر ایک سخت دن ہوگا جس میں ذرا آسانی نہ ہوگی (آگے بعض خاص کفار کا ذکر ہے یعنی) مجھ کو اور اس شخص کو ( اپنے اپنے خال پر) رہنے دو (کہ ہم اس سے نمٹ لیں گے) جس کو میں نے (مال واولاد سے خالی اور) اکیلا پیدا کیا (جیسا کہ پیدا ہونے کے وقت آدمی کے پاس نہ مال ہوتا ہے اور نہ اولاد، اور مراد اس سے ولید بن مغیرہ ہے جسکا قصہ معارف و مسائل کے تحت آئے گا) اور اس کو کثرت سے مال دیا اور پاس رہنے والے بیٹے (دیئے) اور سب طرح کا سامان اس کے لئے مہیا کردیا پھر بھی (باوجود اس کے اس مال واولاد کا شکر بجا نہ لایا کہ ایمان لے آتا بلکہ اس نعمت وافرہ کو براہ کفران وبیقدری قلیل سمجھ کر) اس بات کی ہوس رکھتا ہے کہ (اس کو) اور زیادہ دوں ہرگز (وہ زیادہ دینے کے قابل) نہیں (کیونکہ) وہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے (اور مخالفت کیساتھ عدم قابلیت ظاہر ہے) استدراج کا معاملہ اس سے الگ ہے اس شخص کی نزول آیت کے روز سے ظاہر اً بھی ترقی بند ہوگئی چناچہ پھر نہ کوئی اولاد ہوئی اور نہ کچھ مال بڑھا۔ اور یہ سزا تو دنیا میں ہے اور آخرت میں اس کو عنقریب (یعنی مرنیکے بعد) دوزخ کے پہاڑ پر چڑھاؤں گا (حدیث ترمذی میں مرفوعاً ہے کہ صعود دوزخ میں ایک پہاڑ سے ستر برس میں اس کی چوٹی پر پہنچے گا پھر وہاں سے گر پڑیگا پھر اسی طرح ہمیشہ چڑھے گا اور گریگا اور وجہ اس سزا کی وہی عناد ہے جو اوپر مذکور ہوا، اور آگے بھی اس کی کچھ تفصیل ہے وہ یہ کہ) اس شخص نے (اس بارے میں) سوچا (کہ قرآن کی شان میں کیا بات تجویز کروں) پھر (سوچ کر) ایک بات تجویز کی (جسکا بیان آگے آتا ہے) سو اس پر خدا کی مار ہو کیسی بات تجویز کی (اور) پھر (مکرر) اس پر خدا کی مار ہو کیسی تجویز کی (یہ تعجب مکرر اس کی سخت مذمت اور قابل تعجیب بات پر ہے یعنی کیسی بےجوڑ بات تجویز کی جسکا احتمال ہی نہیں ہوسکات) پھر (حاضرین کے چہروں کو) دیکھا (کہ وہ تجویز کی ہوئی بات ان سے کہوں) پھر منہ بنایا (تاکہ دیکھنے ووالے سمجھیں کہ اس کو قرآن سے بہت کراہت وانقباض ہے) اور زیادہ منہ بنایا پھر منہ پھیرا اور تکبر ظاہر کیا (جیسا عادت ہے کہ جس چیز کو قابل اعراض سمجھتے ہیں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی گردن پھیر لیتے ہیں اور اظہار تنفر کرتے ہیں) پھر بولا کہ بس یہ تو جادو ہے (جو اوروں سے) منقول (ہے) بس یہ تو آدمی کا کلام ہے (یہ بیان ہے اس تجویز مذکورہ کا، مطلب یہ کہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ بشر کا کلام ہے جس کو آپ کسی جادوگر سے نقبل کردیتے ہیں، یا آپ خود مصنف ہیں لیکن یہ مضامین مدعیان نبوت سابقین سے منقول ہیں اور اسلوب عبارت نعوذ باللہ آپ کے سحر کا اثر ہے۔ آگے اس عناد کی سزاد تفصیلاً فرماتے ہیں جیسا اوپرسارھقہ صعودا میں اجمالاً فرمایا تھا پس عنیدا میں جرم کا ذکر اور سارہقہ میں سزا کا ذکر اجمالاً اور انہ فکر عنیدا کی تفیصل ہے اور ساصلیہ۔ سارھقہ کی تفصیل ہے یعنی) میں اس کو جلدی دوزخ میں داخل کروں گا اور تم کو کچھ خبر ہے کہ دوزخ کیسی چیز ہے (وہ ایسی ہے کہ) نہ تو (داخل ہونے کے بعد داخل ہونے والے کی کوئی چیز جلانے سے) باقی رہنے دیگی اور نہ (داخل ہونے کے قبل جو کفار اس وقت باہر ہوں گے نہ ان میں سے کسی کو بغیر اپنے اندر لئے ہوئے) چھوڑے گی (اور) وہ (جلا کر) بدن کی حیثیت بگاڑ دیگی (اور) اس پر انیس فرشتے (جو اسکے خزان ہیں جن میں ایک کا نام مالک ہے مقرر) ہوں گے (جو کافروں کو انواع انواع عذاب دیں گے۔ حاصل یہ کہ فرشتے جن کی قوت معلوم ہے باوجودیکہ ان میں ایک بھی تمام اہل جہنم کی تعذیر کے لئے کافی ہے پھر انیس فرشتوں کے مقرر ہونے سے ظاہر ہے کہ عذاب کا بہت ہی اہتمام ہوگا اور نکتہ خاص انیس کے عدد میں حقیقةً اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن دوسرے حضرات نے جو ذکر کیا ہے اس سب میں اقرب وہ ہے جو اللہ نے اس حقیر کے دل میں القاء فرمایا ہے وہ یہ کہ اصل تعذیب کفار کی عقائد حقہ کی مخالفت پر ہے اور عقائد قطعیہ جو عملیات کے متعلق نہیں حسب تفصیل رسالہ فروع الایمان نو ہیں۔ ایمان لانا اللہ تعالیٰ پر، اعتقاد رکھنا کہ عالم حادث ہے، ایمان لانا فرشتوں پر، ایمان لانا اس کی سب کتابوں پر، ایمان لانا پیغمبروں پر، ایمان لانا تقدیر پر، ایمان لانا قیادت کے دن پر، جنت کا یقین کرنا، دوزخ کا یقین کرنا، باقی سب عقائد انہیں کے ملحقات و فروع ہیں۔ اور عقائد قطعیہ جو عملیات کے متعلق ہیں دس ہیں۔ پانچ مامورات کے متعلق، یعنی ان کے وجوب کا اعتقاد ضروری ہے۔ وہ پانچ مامورات جو شعائر اسلام میں یہ ہیں، تلفظ بالشہادتیں، اقامت صلوٰة، ایتا زکوٰة، صوم رمضان، حج بیت اللہ اور پانچ منہیات کے متعلق یعینی ان کی تحریم کا اعتقاد واجب ہے اور وہ پانچ منہیات جو کہ آیت امتحان وغیرہ میں مذکور ہیں یہ ہیں۔ سرقہ، زنا، قتل، خصوصاً قتل اولاد، بہتان، عصیان فی المعروف جس میں غیبت وظلم یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھانا وغیرہ سب آگیا پس یہ سب عقائد ملا کر انیس ہوئے شاید ایک ایک عیدہ کے مقابلے میں ایک ایک فرشتہ معین ہو اور چونکہ ان سب میں ایک عقیدہ سب سے بڑا ہے یعنی توحید اسلئے ان فرشتوں میں بھی ایک فرشتہ سب سے بڑا مقرر ہوا ہو یعنی مالک واللہ علم باسرارہ) اور (اس آیت کا مضمون سن کر جو کفار نے تمسخر کیا جس کا بیان عمارف کے تحت میں آئے گا اس پر اگلا مضمون نازل ہوا کہ) ہمنے دوزخ کے کارکن (آدمی نہیں بلک) صرف فرشتے بنائے ہیں (جن میں سے ایک ایک فرشتہ جو تمام جن وانس کی برابر قوت ہے - کذا فی الدر مرفوعا ولفظہ ھکذا الھم مثل قوۃ الثقلین) - اور ہم نے جو ان کی تعداد (ذکر وحکایت میں) صرف ایسی رکھی ہے جو کافروں کو گمراہی کا ذریعہ ہو (مراد اس سے انیس کا عدد ہے) تو اس لئے ( کہ یہ نتائج اس پر مرتب ہوں یعنی) تاکہ اہل کتاب (سننے کے ساتھ) یقین کرلیں اور ایمان والوں کا ایمان اور بڑجھ جائے اور اہل کتاب اور مومنین شک نہ کریں اور تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں (شک کا) مرض ہے وہ اور کافر لوگ کہنے لگیں کہ اس عجیب مضمون سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصود ہے ( اہل کتاب کے یقین کی دو توجیہہ ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ ان کی کتاب میں بھی یہ عدد لکھا ہو تو فوراً مان لیں گے اور اگر اب ان کی کتابوں میں یہ عدد نہ ہو تو ممکن ہے کہ کتابوں کے ضائع اور محرف ہونے سے ضائع ہوگیا ہو اور دوسری توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدد ان کی کتاب میں نہ ہو لیکن وہ فرشتوں کی قوت کے قائل تھے اور بہت سے امور توقیفیہ ان کی کتابوں میں موجود تھے تو ان کے پاس کوئی ہنبی اذکار کا نہ تھا پس یقین سے مراد عدم انکار وعدم استہزا ہوگا لیکن ظاہر توجیہہ اول ہے اور اہل ایمان کے ایمان کی زیارت کی بھی دو توجیہ ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ اہل کتاب کے استیقان کو دیکھ کر ان کا ایمان کیفا قوی ہوجائے کہ آپ باوجود عدم اختلاط اہل کتاب کے وحی سابق کے موافق خبر دیتے ہیں ضرور نبی برحق ہیں۔ دوسری توجیہہ یہ کہ جب کوئی مضمون نیا نازل ہوتا تھا اس پر ایمان لاتے تھے پس ایک فرد تصدیق کی اور بڑھی، اس سے بحیثیت کمیت ایمان میں زیادتی ہوئی اور یرتاب کو تاکید کے لئے بڑھایا کہ اثبات یقین اور نفی شک دونوں کی تصریح ہوجائے۔ اور مرض میں دو احتمال ہیں ایک تو شک کیونکہ ظہور حق کے بعد بعضے جاحد اور منکر ہوتے ہیں بعضے متردد ہوتے ہیں تو اہل مکہ بھی ایسے لوگ ہوں گے دوسرا معنے نفاق تو اسمیں پیشن گوئی ہوگی کہ مدینہ میں منافق ہوں گے اور ان کا یہ قول ہوگا اور مومنین اور اہل کتاب کے اثبات و نفی شک کو جدا جدا اس لئے فرمایا کہ اہل کتاب کا یقین ونفی شک لغوی ہے اور مومنین کا شرعی، آگے فریقین کے حال پر بطور تفریح کے فرماتے ہیں کہ جس طرح حق تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس باب میں خاص ہدایت کی اور کافروں کو اس باب میں خاص گمراہ کیا) اسی طرح اللہ تعالیٰ جسکو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کردیتا ہے اور (آگے تتمہ مضمون سابق کا کہ جہنم کے خازن فرشتوں کا عدد انیس ایک خاص حکمت کی بنا پر ہے ورنہ) تمہارے رب کے (ان) لشکروں ( کی یعنی فرشتوں کی تعداد اس کثرت سے ہے کہ اس کو بجز رب کے کوئی نہیں جانتا ( اگر وہ چاہتے تو بےانتہا فرشتوں کو خازن بنادیتے اور اب بھی گوخازن انیس ہیں مگر ان کے اور اعوان و انصار بہت کثرت سے ہیں چناچہ حدیث مسلم میں ہے کہ جہنم کو اس حال میں حاضر کیا جائے گا کہ اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر باگ کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوں گے) اور جو اصل مقصود جہنم کا حال بیان کرنے سے وہ عدد کی قلت یا کثرت یا تعین یا انکشاف حکمت تخصیص یا عدم انکشاف پر موقوف نہیں اور وہ اصل مقصود (یہ ہے کہ) دوزخ (کا حال بیان کرنا) صرف آدمیوں کی نصیحت کیلئے ہے ( تاکہ وہاں کے عذاب کو سن کر ڈریں اور ایمان لادیں اور یہ مقصود کسی خاص خصوصیات پر موقوف ہیں پس مقتضا عقل کا بھی یہی ہے کہ اصل مقصود کو محفوظ و ملحوظ رکھ کر ان بالائی امور کے در پے نہ ہوں آگے جہنم کی عقوبت کا کسی قدر بیان ہے جس میں ذکری للبشر کے اجمال کی تفصیل ہے پس ارشاد ہے کہ بالتحقیق قسم ہے چاند کی اور رات کی جب جانے لگے اور صبح کی جب روشن ہوجائے کہ وہ دوزخ بڑی بھاری چیز ہے جو انسان کے لئے بڑا ڈراوا ہے یعنی تم میں جو (خیر کی طرف) آگے بڑھے اس کے لئے بھی یا جو (خیر سے) پیچھے ہٹے اسکے لئے بھی (مطلب یہ کہ جمیع مکلفین کے لئے نذیر ہے اور چونکہ نتائج اس انداز کے قیامت میں ظاہر ہوں گے اس لئے قسم ایسی چیزوں کی کھائی گئی جو قیامت کے بہت ہی مناسب ہے، چناچہ قمر کا اول بڑھنا پھر گھٹنا نمونہ اس عالم کے نشوونما اور پھر اضمحلال وفنا کا ہے یہاں تک کہ چاند کے محاق یعنی بےنور ہوجانے کی طرح یہ بھی فانی محض ہوجائے گا، اسی طرح اس عالم دنیا کو اس عالم آخرت کے ساتھ اختفار واکتشاف حقائق میں ایسی نسبت ہے جیسے رات کو دن کے ساتھ۔ پس اس عالم کا ختم ہوجانا مشابہ رات گزر جانے کے ہے اور اس عالم کا ظہور مشابہ اسفار صبح کے ہے۔ آگے دنیا اور اہل دنیا کے بعض احوال کا بیان ہے یعنی) ہر شخص اپنے اعمال (کفریہ) کے بدلہ میں ( دوزخ میں) محبوس ہوگا مگر داہنے والے (یعنی مومنین جس کی تفصیل سورة واقعہ میں گزری ہے اور چونکہ یہاں اصحاب الیمین مقابل اصحاب الشمال کے ہے اسلئے مقربین کو بھی شامل ہے حاصل یہ کہ مومنین اس قید سے مستثنیٰ ہیں) کہ وہ بہشتوں میں ہوں گے (اور) مجرموں ( یعنی کفار) کا حال (خود ان کفار ہی سے) پوچھتے ہوں گے (اور) کیفیت باہمی کلام کی باوجود اس بعد کے جو دوزخ اور جنت میں ہے۔ سورة اعراف کی (آیات)- ونادی اصحب الجنتہ اصحب النار - کی تفیسر میں گزری ہے اور یہ سوال زجر و تنبیہ کے لئے ہوگا حاصل یہ کہ مومنین کفار سے پوچھیں گے کہ ( تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا وہ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور غریب کو (جسکا حق واجب تھا) کھانا کھلایا کرتے تھے اور (جو لوگ دین حق کے ابطلال کے مشغلہ میں رہتے تھے ان) مشغلہ میں رہنے والوں کے ساتھ ہم بھی (اس) مشغلہ (ابطال دین) میں رہا کرتے تھے اور قیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ہم کو موت آگئی (اور) ہم ان حرکات سے باز نہ آئے یعنی خاتمہ اسی نافرمانی پر ہوا اس وجہ سے ہم دوزخ میں آئے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفار مکلف بالفروع یعنی نماز روزہ احکام شرعیہ کے مامور ہوں کیونکہ جہنم میں دو چیزیں ہوں گی ایک عذاب دوسرا شدت عذاب۔ پس ممکن ہے کہ مجموعہ اعمال مذکورہ سبب ہو مجموعہ عذاب اور شدت عذاب کا اس طرح کہ کفر و شرک تو سبب ہو تعذیب کا اور ترک صلوة وغیرہ سبب ہو زیادہ تعذیب کا اور کفار کے غیر مکلف بالفروع ہونے کے معنی یہ کہے جائیں گے کہ ان فروع پر نفس تعذیب نہ ہوگی اور زیادہ تعذیب اس لئے ہوسکتی ہے کہ اصول کے ضمن میں فروع بھی تبعاً آہی جاتے ہیں۔ اس لئے ضمناً مکلف ہونا زیادتی عذاب کا سب ہوسکتا ہے) سو (حالت مذکورہ میں) ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی (اور اس عدم نفع کا تحقق عدم شفاعت کے تحقق سے ہوگا یعنی کوئی ان کافروں کی شفاعت ہی نہ کرسکے گا لقولہ تعالیٰ- (آیت) فمالنا من شافعین - آگے ان کے اعراض پر تفریح ہے کہ جب کفر و اعراض کی بدولت ان کی یہ گت بننے والی ہے) تو ان کو کیا ہوا کہ اس نصیحت (قرانی) سے روگردانی کرتے ہیں کہ گویا وہ وحشی گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے جارہے ہیں۔ (اس تشبیہ میں کئی امر کی رعایت ہے اول تو گدھا بےوقوفی اور حماقت میں مشہور ہے دوسرے اس کو وحشی فرض کیا جس کو گورخر کہتے ہیں کہ وہ جو چیزیں ڈرنے کی نہیں ہوتیں ان سے بلاوجہ ڈرتا اور بدکتا بھاگتا ہے تیسرے شیر سے اس کا ڈرنا فرض کیا کہ اس صورت میں ان کا بھاگنا انتہا درجہ ہوگا، اور اس بھاگنے کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اس قرآن کو بزعم خود حجیت میں کافی نہیں سمجھتے) بلکہ ان میں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھلے ہوئے (آسمانی) نوشتے دیئے جائیں (جیسا در منشور میں قتادہ سے مروی ہے کہ بعضے کفار نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا اتباع کریں تو خاص ہمارے نام آسمان سے ایسے نوشتے آئیں جن میں آپ کے اتباع کا حکم لکھا ہوا ہے - وھذا کقولہ تعالیٰ (آیت) حتی تنزل علینا کتبا نقروہ اور منشرہ - کا بڑھانا توضیح مقصود کے لئے ہے جیسے معمولی خط ہوتے ہیں کہ کھولے جاتے ہیں اور پڑھے جاتے ہیں ایسے ہی نوشتے ہمارے پاس آنے چاہیں، آگے اس بیہودہ درخواست کا رد ہے کہ یہ) یہ ہرگز نہیں (ہوسکتا کیونکہ نہ اس کی ضرورت اور نہ ان لوگوں کو اس کی قیادت بالخصوص اس وجہ سے کہ اس درخواست کا سبب یہ نہیں کہ دل میں ان کے ارادہ ہو کہ اگر ایسا ہوگا تو اتباع کرلیں گے ( بلکہ سبب یہ ہے کہ) یہ لوگ آخرت (کے عذاب) سے نہیں ڈرتے ( اس لئے حق کی طلب نہیں ہے اور یہ درخواستیں محض ضد اور ہٹ دھرمی سے ہیں حتیٰ کہ اگر یہ درخواستیں بالفرض پوری بھی ہوجاویں تب بھی یہ لوگ اتباع نہ کریں - ( آیت) لقولہ تعالیٰ ولو نزلنا علیک کتبا فی قرطاس فلمسوہ بایدھیم لقال الذین کفرو ان ھذا الا سحر مبین) - آگے بطور نتیجہ کے اس کا داور اس پر زجر ہے کہ جب اس درخواست کا بیہودہ ہونا ثابت ہوگیا تو یہ) ہرگز نہیں (ہوسکتا بلکہ) یہ قرآن (ہی) نصیحت ( کے لئے کافی) ہے، دوسرے صحیفوں کی حاجت نہیں) سو (اس حالت میں) جسکا جی چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے (اور جسکا جی چاہے نہ کرے جہنم میں جاوے ہم کو کوئی ضرورت نہیں کہ مطلوبہ قسم کے نوشتے نازل کریں) اور (قرآن کے تذکرہ یعنی ہدایت ہونے میں اس سے شبہ نہ کیا جاوے کہ بعض لوگوں کو اس سے تذکرہ و ہدایت نہیں ہوتی، بات یہ ہے کہ قرآن گوفی نفسہ تذکرہ ہے لیکن) بدون خدا کے چاہے یہ لوگ نصحیت قبول کریں گے (اور اس نہ چاہنے میں بعض حکمتیں ہیں لیکن قرآن فی نفسہ تذکرہ ضرور ہے پس اس سے تذکرہ حاصل کرو اور خدا کی اطاعت کرو کیونکہ) وہی ہے جس (کے عذاب) سے ڈرنا چاہئے اور (وہی ہے) جو (بندوں کے گناہ) معاف کرتا ہے - (کقولہ تعالیٰ (آیت) ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفور رحیم) - معارف ومسائل - سورة مدثر قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے جو نزول قرآن کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے اسی لئے بعض حضرات نے اس سورت کو سب سے پہلے نازل ہونیوالی سورت بھی کہا ہے۔ اور روایات صححیہ معروفہ کی رو سے سب سے پہلے سورة اقرا کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ پھر کچھ مدت تک نزول قرآن کا سلسلہ بند رہا جس کو زمانہ فترت وحی کا کہا جاتا ہے اسی زمانہ فترت کے آخر میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے اوپر سے کچھ آواز سنی تو آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی دیکھا کہ وہ ہی فرشتہ جو غار حرا میں سورة اقرا کی آیات لے کر آیا تھا وہ ہی آسمان کے نیچے فضا میں ایک معلق کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کو اس حال میں دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہی طبعی رعب وہیبت کی کیفیت طاری ہوگئی جو غار حرا میں نزول اقرا کے وقت ہوئی تھی سخت سردی اور کپکپی کے احساس سے آپ گھر میں واپس تشریف لے گئے اور فرمایا زملونی زملونی یعنی مجھے ڈھانپو مجھے ڈھانپو۔ آپ کپڑوں میں لپٹ کر لیٹ گئے اس پر سورة مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں کمانی حدیث الصحیحین۔ اسی لئے اس سورت میں آپ کو خطاب یایھا المدثر کے الفاظ سے کیا گیا، یہ لفظ دثار سے مشتق ہے جو ان زائد کپڑوں کو کہا جاتا ہے جو آدمی عام لباس کے اوپر کسی سردی وغیرہ کے دفع کرنے کے لئے استعمال کیا کرتا ہے اس لفظ سے خطاب ایک حبیبانہ مشفقانہ خطاب ہے جیسا کہ مزمل میں بیان ہوچکا ہے۔ لفظ مزمل کے معنے بھی اسی کے قریب ہیں۔ روح المعافی میں جابرین زید تابعی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سورة مدثر، مزمل کے بعد نازل ہوئی ہے اور بعض حضرات نے یہ روایت حضرت ابن عباس سے بھی نقل کی ہے مگر صحیحین کی جو روایت اوپر نقل کی گئی ہے اس میں اس کی تصریح ہے کہ سب سے پہلے سورة مدثر نازل ہوئی (اور مرد یہ ہے کہ فترت وحی کے بعد سب سے پہلے یہ سورت نازل ہوئی) اگر مزمل کا نزول اس سے پہلے ہوا ہوتا تو حضرت جابر ابن عبداللہ راوی حدیث اس کو بیان کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ لفظ مزمل اور مدثر دونوں تقریباً ہم معنے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک ہی واقعہ میں ان دونوں کا نزول ہوا اور وہ واقعہ وہی جبرئیل امین کو آسمان کے نیچے کرسی پر بیٹھے دیکھنے کا اور آپ کا گھر میں واپس ہو کر کپڑوں میں لپٹ جانیکا ہو جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ اس سے کم از کم اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ سورة مزمل اور مدثر کی ابتدائی آیتیں فترت وحی کے بعد سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات ہیں ان دونوں میں کون مقدم اور کون موخر ہے اس میں روایتیں مختلف ہوگئیں اور سورة اقرا کی ابتدائی آیات کا ان سب سے پہلے نازل ہونا تمام روایات صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ دونوں سورتیں اگرچہ متقارب زمانے میں ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئی ہیں مگر فرق دونوں میں یہ ہے کہ سورة مزمل کے شروع میں جو احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے گئے ان میں اپنی ذاتی شخصی اصلاح سے متعلق اور سورة مدثر کے شروع میں جو احکام دیئے گئے ہیں انکا تعلق زیادہ تر دعوت و تبلیغ اور اصلاح خلق سے ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝ ١ - دثر - قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ أصله المتدثّر فأدغم، وهو المتدرّع دِثَاره، يقال : دَثَرْتُهُ فَتَدَثَّرَ ، والدِّثَار : ما يتدثّر به، وقد تَدَثَّرَ الفحل الناقة : تسنّمها، والرّجل الفرس : وثب عليه فركبه، ورجل دَثُور : خامل مستتر، وسیف داثر : بعید العهد بالصّقال، ومنه قيل للمنزل الدارس :- داثر، لزوال أعلامه، وفلان دِثْرُ مالٍ ، أي : حَسَنُ القیام به .- ( د ث ر ) المدثر ۔ ( ازتفعل ) اصل میں متدثر تھا ۔ تاء کو دال سے بدل کر دال کو دال می ادغام کردیا ۔ اس کے معنی کپڑا وڑھنے والے کے ہیں ۔ کہاجاتا ہے دثرثہ فتدثر ( میں نے اسے کپڑے میں لپیٹا جنانچہ وہ لپٹ گیا ) قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُجو کپڑا لپیٹے پڑے ہو ۔ الدثار ۔ وہ کپڑا جس میں آدمی لپٹ جائے جیسے چادر کمبل وغیرہ ۔ تدثر الفحل الناقۃ ۔ سانڈھ اونٹنی پر چڑھ گیا تدثر الرجل الفرس ۔ آدمی گوڑے پر کود کر سوار ہوگیا ۔ رجل دثور ۔ گم نام آدمی ۔ سیف داثر ۔ زنگ آلود تلوار جسے پالش کئے بہت عرصہ گزر گیا ہو ۔ اسی سے جس منزل کے نشانات مٹ گئے ہوں اسے داثر کہاجاتا ہے ۔ فلان دثر مال وہ مال کی اچھی طرح خبر گیری کرنے والا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٣) محمد اٹھو اور کافروں کو ڈراؤ اور ان کو توحید کی طرف بلاؤ اور بتوں کے پجاریوں کے سامنے اپنے پروردگار کی بڑائیاں بیان کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :1 اوپر دیباچے میں ہم ان آیات کے نزول کا جو پس منظر بیان کر کے آئے ہیں اس پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یایھا الرسول یا یایھا النبی کہہ کر مخطاب کرنے کے بجائے یایھا المدثر کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یکایک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھاؤ ، مجھے اڑھاؤ ، اس لیے اللہ تعالی نے آپ کو یایھا المدثر کہہ کر خطاب فرمایا ۔ اس لطیف طرز خطاب سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اے میرے پیارے بندے ، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے ، تم پر تو ایک کار عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوناچاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ اُسی طرح کا خطاب ہے جیسا پچھلی سورت کے شروع میں گزرا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اصل عربی لفظ ’’مزمل‘‘ تھا اور یہاں ’’مدثر‘‘ ہے، معنیٰ دونوں کے تقریباً ایک ہے، اس کی تشریح کے لئے پچھلی سورت کا حاشیہ نمبر ۱ ملاحظہ فرمائیں۔ صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پر سب سے پہلی وحی کے طور پر تو سورۂ علق (سورت نمبر۹۶) کی پہلی پانچ آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ اُس کے بعد ایک عرصے تک وحی کا سلسلہ بندرہا۔ پھر سورہ مدثر کی یہ آیتیں نازل ہوئیں۔