2۔ 1 یعنی اہل مکہ کو ڈرا، اگر وہ ایمان نہ لائیں۔
[٢] اس سورة کی ابتدا میں ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ کہ اب سونے کا وقت نہیں بلکہ جو لوگ اللہ کو بھول کر خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں انہیں بتائیے کہ انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے۔ لہذا اپنے برے انجام سے بچنے کی خاطر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت بجا لاؤ۔
قم فانذر : اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت کے آغاز کا حکم ہوا۔ سورة علق کے شروع میں آپ کو وہ وحی پڑھنے کا حکم ہوا تھا جو آپ پر نازل ہوئی، اب وحی کے احکام کے مطابق لوگوں کو نصیحت کرنے اور ڈرانے کا حکم ہوا اور وہ اوصاف اختیار کرنے کا حکم دیا گیا جو داعی کے لئے ضروری ہیں۔ ان میں سے پہلی چیز سستی اور غفلت چھوڑ کر کمر ہمت باندھنا اور اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کی پرستش کرنے والوں کو اس کے وبال سے ڈرانا ہے۔
سورة مدثر میں سب سے پہلا حکم آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ قُمْ فَاَنْذِرْ یعنی کھڑے ہوجائے اسکے معنے حقیقی قیام کے بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ جو کپڑوں میں لپ کر لیٹ گئے ہیں اس کو چھوڑ کر کھڑے ہوجائیے اور یہ معنی بھی بعید نہیں کہ قیام سے مراد کام کے لئے مستعد اور تیار ہونا ہو اور مطلب یہ ہو کہ اب آپ ہمت کرکے خلق خدا کی اصلاح کی خدمت سنبھالئے۔ فانذر، انذار سے مشتق ہے جس کے معنے ڈرانے کے ہیں مگر ایسا ڈرانا جو شفقت و محبت پر مبنی ہوتا ہے جیسے باپ اپنے بچے کو سانپ بچھو اور آگے سے ڈراتا ہے انبیا کی یہی شان ہوتی ہے اسلئے ان کا لقب نذیر اور بشیر ہوتا ہے۔ نذیر کے معنی شفقت و ہمدردی کی بنا پر مضر چیزوں سے ڈرانے والا اور بشر کے معنی خوش خبری سنانے والا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی دونوں ہی لقب قرآن کریم میں جابجا مذکور ہیں مگر اس جگہ صرف انذار کے ذکر پر اکتفا اس لئے کیا گیا کہ اس وقت مومن مسلمان تو گنے چنے چند ہی تھے باقی سب منکرین و کفار تھے جو کسی بشارت کے مستحق نہیں بلکہ ڈرانے ہی کے مستحق تھے۔
قُـمْ فَاَنْذِرْ ٢ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
آیت ٢ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے۔ “- یہ ہے وہ کٹھن ذمہ داری جس کے بارے میں سورة المزمل کی آیت اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا ۔ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت پہلے اشارہ دے دیا گیا تھا ‘ یعنی انذارِ آخرت کی ذمہ داری ‘ جس کے لیے تمہیدی کلمات میں قیام اللیل کے مقابلے میں ” قیام النہار “ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ دراصل انبیاء و رسل - کی دعوت کے حوالے سے جو اصطلاح قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے وہ ” انذار “ ہی ہے۔ اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بار بار حکم دیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کریں : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ (الانعام : ١٩) اینبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان لوگوں کو بتائیں کہ قرآن مجھ پر نازل ہی اس لیے ہوا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم لوگوں کو خبردار کر دوں۔ تم اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین مخلوق ہو ‘ تمہارے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے ۔ یہ روح اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم امانت ہے جس کی ذمہ داری کے بوجھ سے زمین ‘ پہاڑ اور آسمان تک ڈر گئے تھے۔ اسی امانت کے حوالے سے تمہارا احتساب ہونا ہے۔ اس احتساب کے لیے مرنے کے بعد تمہیں پھر سے زندہ کیا جائے گا :- (وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْئِ سُوْئً ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا) (١)- ” اللہ کی قسم ‘ تم سب مر جائو گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو پھر یقینا تم اٹھائے جائو گے جیسے (ہر صبح) بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا ‘ اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور برائی کا برائی ‘ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی “- بہرحال آیت زیر مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا نقطہ آغاز ” انذارِ آخرت “ ہے ۔ اب اگلی آیت میں اس دعوت کے ہدف کے بارے میں بتایا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا ہدف نہ تو خانقاہی نظام کی تشکیل ہے اور نہ ہی صرف تعلیم و تعلّم کے نظام کا قیام ہے ‘ بلکہ اس کا ہدف یہ ہے :
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :2 یہ اسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ انذر قومک من قبل ان یاتیھم عذاب الیم اپنی قوم کے لوگوں کو ڈراؤ قبل اس کے کہ ان پر ا یک دردناک عذاب آ جائے ۔ ( نوح ۔ 1 ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے ، اٹھو اور تمہارے گردو پیش خدا کے جو بندے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو چونکا دو ۔ انہیں اس انجام سے ڈراؤ جس سے یقیناً وہ دوچار ہوں گے اگر اسی حالت میں مبتلا رہے ۔ انہیں خبردار کر دو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پرس نہ ہو ۔