Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] پہلا سبق اللہ کی کبریائی :۔ یعنی دنیا میں جتنے لوگ بڑے بنے بیٹھے ہیں۔ ان سب کی بڑائیاں اللہ کی بڑائی کے سامنے ہیچ ہیں۔ نیز بڑے بڑے حکمران اور ان کی حکومتیں بھی اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے سامنے کوئی چیز نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کی کبریائی، بزرگی اور بڑائی سے پوری طرح روشناس کرائیے۔ اور زبان سے بھی اللہ کی بڑائی بیان کرتے رہا کیجئے۔ اسی حکم کی وجہ سے اسلام میں تکبیر یا کلمہ اللہ اکبر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ہر اذان میں چھ بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے۔ اور ہر نماز کا افتتاح بھی اسی تکبیر سے ہوتا ہے۔ پھر رکوع جاتے وقت، سجدہ کے وقت، سجدہ سے اٹھتے وقت غرض نماز کی ہر رکعت میں متعدد بار اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ پھر نماز کے بعد تکبیر و تہلیل کی بہت فضیلت آئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے ہر وقت اللہ کی کبریائی کا تصور موجود رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وربک فکبر :” ربک “ کو پہلے لانے سے یہ معنی پیدا ہوگیا کہ صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔” فکبر “ میں ” فائ “ پہلے ” قم “ کے جواب ہی میں ہے، یعنی ” فم فکبر “ ربک “ اسی طرح ” وثیابک فطھر “ اور ” والرجز فاھجر “ میں بھی ” فائ “ اسی ” قم “ کے جواب میں ہے۔ ” وربک فکبر “ کے الفاظ میں ” صرف اپنے رب کو بڑا جان “ اور ” صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کر ”’ ونوں معنی موجود ہیں، یعنی دعوت دیتے وقت کوئی کتنا بڑا سردار یا مال دار، یا بادشاہ یا بدمعاش ہو اس کی بڑائی تمہاری دعوت کے لئے رکاوٹ نہ بنے، بلکہ صرف اپنے رب کو بڑا جانو۔ جب تمہارے دل و دماغ میں اور تمہاری آنکھوں کے سامنے صرف وہی بڑا ہوگا تو ساری مخلوق تمہاری نظروں میں ہیچ ہوگی اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے احکام پہنچانے میں کسی کی بڑائی مانع نہیں ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کا وصف بیان فرمایا :(الذین یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون احداً الا اللہ) (الاحزاب : ٣٩)” وہ لوگ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور صرف اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ “- دوسرے معنی ہیں ” صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کر “ یعنی جاہل اور مشرک لوگ جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں ان سب کی نفی کردہ اور صاف اعلان کر دو کہ اس کائنات میں بڑائی صرف اللہ کی شان ہے، اس کے علاوہ بڑا بننا کسی کا حق ہی نہیں ہے، اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف اسی لئے عبادت کے لائق بھی صرف اسی کی ہستی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ وَرَبَّكَ فَكَبِّر یعنی صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کیئجے قول سے بھی، عمل سے بھی، لفظ رب اس جگہ اسلئے اختیار کیا گیا کہ یہ خود علت اس حکم کی ہے کہ جو سارے جہان کا پالنے والا ہے صرف وہی ہر بڑائی اور کبریائی کا مستحق ہے۔ تکبیر کے لفظی معنی اللہ اکبر کہنے کے بھی آتے ہیں جسمیں نماز کی تکبیر تحریمہ اور دوسری تکبیرات بھی داخل ہیں اور خارج نماز بھی اذان اقامت وغیرہ کی تکبیر اس میں شامل ہے۔ اس حکم کو نماز کی تکبیر تحریمہ کیساتھ مخصوص قرار دینے کا الفاظ قرآن میں کوئی اشارہ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۝ ٣ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار - والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم .- والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] .- التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ ” اور اپنے رب کو بڑا کرو “- غور کیجیے رب کو بڑا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ وہ تو اپنی ذات میں خود ہی سب سے بڑا ہے ۔ ہم انسان اس کو بھلا کیا بڑا کریں گے ؟ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی عملاً تسلیم نہیں کی جارہی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو محدود اختیار عطا فرمایا تھا اس کے بل پر اس نے اسی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ظلم اور فساد کا بازار گرم ہوگیا ہے : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم : ٤١) ” بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے ‘ لوگوں کے اعمال کے سبب “۔ چناچہ اب جو کوئی بھی اللہ کو اپنا الٰہ اور اپنا رب مانتا ہے ‘ اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پارٹی (حزب اللہ) کا ممبر اور اس کی فوج کا سپاہی بن کر لوگوں سے اس کی بڑائی کو منوانے اور اس کی کبریائی کو عملی طور پر دنیا میں نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا تن من اور دھن کھپا دے ‘ تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو : وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِج (الانفال : ٣٩) ” اور دین ُ کل کا کل اللہ کے لیے ہوجائے “۔ یہ ہے ” تکبیر ِرب “ یا رب کو بڑا کرنے کے مفہوم کا خلاصہ۔ گویا ان دو لفظوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کا پورا فلسفہ بیان کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ” تکبیر رب “ کی اصطلاح کی حیثیت ایک ایسی گٹھلی کی ہے جس میں سے اقامت ِدین ‘ غلبہ ٔ دین ‘ اظہارِ دین حق ‘ حکومت ِالٰہیہ وغیرہ اصطلاحات کی کو نپلیں پھوٹی ہیں۔- سورت کی ان ابتدائی تین آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اس دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تفکر و تدبر بلکہ تشویش اور فکر مندی کا غلبہ تھا۔ غارِ حرا کے اندر پہلی وحی کا نزول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجا طور پر فکر مند تھے ۔ پھر ورقہ بن نوفل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آئندہ حالات کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ پہلی وحی کے واقعہ کے بعد حضرت خدیجہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر ان کے پاس لے کر گئیں۔ وہ صاحب بصیرت عیسائی راہب تھے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غار حرا میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شہر سے نکال دے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ورقہ بن نوفل کی اس بات پر پریشانی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھییہاں سے نکال دے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطلب تھا کہ وہ سب لوگ تو مجھ سے بیحد محبت کرتے ہیں ‘ مجھے صادق اور امین مانتے ہیں ‘ اور میرے قدموں میں اپنی نگاہیں بچھاتے ہیں ‘ بھلا وہ مجھے کیوں شہر بدر کریں گے ؟ اس پر ورقہ بن نوفل نے جواب دیا کہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی یہ ذمہ داری جس کسی کو بھی ملی اس کی قوم اس کی دشمن بن گئی ‘ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس ملاقات کے بعد جلد ہی ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ - اس واقعہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے۔ ورقہ بن نوفل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق تو کردی تھی لیکن اس وقت تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی دعوت کی تبلیغ کا حکم نہیں ملا تھا ۔ یعنی اس وقت تک صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور ہوا تھا ‘ رسالت کی ذمہ داری ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں ملی تھی۔ اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایمان کی دعوت بھی نہیں دی اور اسی لیے ورقہ بن نوفل کا شمار صحابہ میں بھی نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :3 یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اس دنیا میں اسے انجام دینا ہوتا ہے ۔ اس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں ان سب کی نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ اذان کی ابتدا ہی اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے ۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے ۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیازی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبی نے اپنا کام ہی اللہ اکبر کی تکبیر سے شروع کیا تھا ۔ اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ جیسا کہ ان آیات کی شان نزول سے معلوم ہو چکا ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر ا ٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا ۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے ، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیرتھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اس کے مجاور تھے ۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا ۔ اسی لیے اٹھو اور خبردار کرو کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ اپنے رب کی بڑائی کا علان کرو اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اس کام میں تمہیں نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب ان سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جا سکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani