4۔ 1 یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
[٤] دوسرا سبق : جسم اور لباس کی صفائی اور راہبانہ تصور :۔ یعنی اپنے کپڑے میل کچیل سے بھی اور نجاست سے بھی پاک صاف رکھیے۔ اور صاف ستھرا لباس استعمال کیا کیجئے اور جسم کو پاک صاف رکھیے۔ کیونکہ روح کی پاکیزگی کے لیے جسم اور لباس کی صفائی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس آیت میں ان راہبانہ تصورات کا پورا رد موجود ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جتنا گندہ اور میلا کچیلا رہے اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں محبوب اور مقدس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں جسم اور لباس کی صفائی کی جو اہمیت ہے اس ابتدائی حکم سے اس پر پوری روشنی پڑتی ہے۔
(١) وثیابک فطھر : کافر لوگ کتنے بھی صاف ستھرے ہوں اپنے کپڑے پاک نہیں رکھتے، نہ انہیں پیشاب سے پرہیز ہوتا ہے نہ استنجا کی فکر اور نہ غسل جنابت کا خیال۔ حکم ہوا کہ آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں۔ جب کپڑے پاک رکھنا ضروری ہے تو جسم پاک رکھنا تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہوا۔ آیت کے ظاہری الفاظ کا تقاضا یہی ہے اور سب سے پہلے مراد بھی یہی ہے۔ ہاں ، محاورہ میں پاک دامنی سے مراد گناہوں کی آلودگی سے پاک ہونا بھی ہوتا ہے، اسلئے یہ معنی بھی ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھو۔ طبری نے پہلا معنی زیادہ ظاہر قرار دیا ہے۔- (٢) ” وثیابک فطھر “ (اپنے کپڑے پاک رکھو) میں ٹخنے سے اوپر کپڑا اٹھا کر رکھنے کا حکم بھی داخل ہے، کیونکہ لٹکانے کی صورت میں اس کے پلید ہونے کا خطرہ بالکل ظاہر ہے۔
تیسرا حکم یہ دیا گیا وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ، ثیاب ثوب کی جمع ہے اس کے اصلی اور حقیقی معنے کپڑے کے ہیں اور مجازی طور پر عمل کو بھی ثواب اور لباس کہا جاتا ہے، قلب اور نفس کو بھی اور خلق اور دین کو بھی، انسان کے جسم کو بھی لباس سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے شواہد قرآن اور محاورات عرب میں بکثرت ہیں۔ اس آیت میں حضرات مفسرین سے سبھی معافی منقول ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کوئی تضاد اور اختلاف نہیں۔ بطور عموم مجاز کے اگر ان الفاظ سے سبھی معنی مراد لئے جاویں تو کوئی بعد نہیں، اور معنے اس حکم کے یہ ہوں گے کہ اپنے کپڑوں اور جسم کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک رکھئے قلب اور نفس کو باطل عقائد و خیالات سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک رکھیئے۔ پائجامہ یا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت بھی اس سے مستفاد ہوتی ہے کیونکہ نیچے لٹکے ہوئے کپڑوں کا آلودہ ہوجانا بعید نہیں تو تطہیر ثوب کے حکم میں یہ بھی آگیا کہ کپڑوں کا استعمال اس طرح کرو کہ نجات سے دور رہیں۔ اور کپڑوں کے پاک رکھنے میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ماحل حرام سے نہ بنائے جائیں کسی ایسی وضع وہیت کے نہ بنائے جائیں جو شرعاً ممنوع ہیں اور ظاہر آیت سے یہ ہے کہ یہ تطہیر ثوب کا حکم نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام حالات میں عام ہے اسی لئے فقہاء نے فرمایا ہے کہ غیر حالت نماز میں بھی بغیر کسی ضرورت کے جسم کو ناپاک رکھنا یا ناپاک کپڑے پہنے رکھنا یا ناپاک جگہ میں بیٹھے رہنا جائز نہیں، ضرورت کے اوقات مستثنیٰ ہیں (ازمظہری) - اللہ تعالیٰ طہارت کو پسند فرماتے ہیں - (آیت) ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین - اور حدیث میں طہارت کو نصب ایمان قرار دیا ہے اس لئے مسلمان کو ہر حال میں اپنے جسم اور مکان اور لباس کو ظاہری طہارت کا بھی اہتمام رکھنا ضروری ہے اور قلب کی باطنی طہارت کا بھی۔ واللہ اعلم
وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ ٤ - ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔
کپڑوں کی طہارت - قول باری ہے (وثیابک فطھر۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو) نماز کے لئے کپڑوں کو تمام نجاستوں سے پاک کرنے کے وجوب پر آیت دلالت کررہی ہے نیز یہ کہ ناپاک کپڑوں میں نماز جائز نہیں ہے کیونکہ کپڑوں کی تطہیر صرف نماز کے لئے ضروری ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار (رض) کو اپنے کپڑے دھوتے ہوئے دیکھا، پوچھا کہ کپڑے کیوں دھو رہے ہو ؟ حضرت عمار (رض) نے عرض کیا کہ اس میں نخامہ (ناک سے نکلنے والا بلغم) لگ گیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کپڑا صرف خون، پیشاب یا منی وغیرہ لگ جانے سے دھویا جاتا ہے۔- حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کپڑے میں لگے ہوئے منی کو دھو دینے کا حکم دیا تھا جب کہ وہ ابھی گیلا ہو۔- بعض کا خیال ہے کہ آیت سے مراد وہ مفہوم ہے جس کی ابور زین نے روایت کی ہے کہ ” اپنے عمل کو درست کرو۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ” اپنے کپڑوں کو گناہوں سے پاک رکھو۔ “- عکرمہ کا قول ہے کہ آپ کو جسم سے پاخانہ وغیرہ لگے ہونے کی صورت میں کپڑے نہ پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ سب مجازی معنی ہیں۔ دلالت کے بغیر کلام کو ان معانی کی طرف موڑنا جائز نہیں ہے۔ مذکورہ بالا شخص نے اس سے یہ استدلال کیا ہے یہ گمان کرنا درست نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ آپ کو پیشاب وغیرہ سے اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دیا جائے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول میں شدید اختلال اور تناقض ہے نیز یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں سے کنارہ کش رہنے کا حکم دیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے (والرجزفا ھجر اور گندگی سے دور رہو)- جب کہ یہ بات سب کہ معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے قبل اور نبوت کے بعد بتوں سے کنارہ کش رہے تھے ۔ اسی طرح آپ دونوں حالتوں کے اندر گناہوں اور گندگیوں سے مجتنب رہے تھے۔ جب ان چیزوں سے کنارہ کش رہنے کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرنا درست ہے جبکہ آپ پہلے ہی سے ان چیزوں سے کنارہ کش تھے تو پھر نماز کے لئے کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم بھی درج بالا امور کی طرح ہے۔- اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (ولا تدع مع اللہ الھا اخر اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو) حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارا۔ یہ چیز مذکورہ بالا شخص کے قول کے تناقض اور اس کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔- ان صاحب کا یہ خیال ہے کہ زیر بحث آیت نماز یا وضو وغیرہ کے احکام کے نزول سے پہلے قرآن کی نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت ہے اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں زمانہ جاہلیت کے بتوں، شرک پرستی اور برے اعمال سے پاک رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔- اس شخص نے اپنے اس قول کا خود شروع میں یہ کہہ کر نقض کردیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نجاست سے اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب آپ ہی خود سوچے کہ اس شخص کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں سے کنارہ کش رہنے کا حکم دینے کی ضرورت تھی ؟ اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ آپ پہلے بتوں سے مجتنب تھے لیکن اس کے باوجود اس شخص کے نزدیک آپ کو ترک اوثان کا خطاب جائز تھا تو پھر کپڑوں کو پاک رکھنے کا مسئلہ بھی اسی طرح ہونا ضروری ہے۔- اس شخص کا یہ کہنا کہ زیر بحث آیت کا نزول سب سے پہلے ہوا تھا لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے لئے کپڑوں کی تطہیر کا حکم فرض کے طور پر نہ دیا جائے۔- دوسری طرف حضرت عائشہ (رض) ، مجاہد اور عطاء سے مروی ہے کہ قرآن کی نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت (اقراباسم ربک الذی خلق۔ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) ہے۔
اور اپنے دل کو خیانت سے پاک صاف رکھیے یا یہ کہ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔
آیت ٤ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ۔ ” اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ “- جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا مقصد پاکیزہ ہے اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لباس بھی پاک اور صاف ہوناچاہیے۔ اس آیت کی صوفیانہ انداز میں ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” ثیاب “ سے صرف کپڑے ہی نہیں بلکہ اخلاق و کردار بھی مراد ہے۔ گویا اس حکم میں ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی شامل ہے۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :4 یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو ، کیونکہ جسم و لباس کی پاگیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا ۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں طہارت کا ایک اعلی معیار قائم فرمائیں ۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کو طہارت جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار ، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے ، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو طہارت کا ہم معنی ہو ۔ بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو ۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیاہ میلا کچیلا ہو اتنا ہی زیادہ مقدس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیادار انسان ہے ۔ حالانکہ انسانی فطرت میل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو ۔ تیسرا مفہوم اس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس ستھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو ، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش ، ٹھاٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے ۔ لباس وہ اولین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے ۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ ریئسوں اور نوابوں کے لباس ، بد قوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس ، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے ، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے ۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو ۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، عطاء مجاہد ، قتادہ سعید بن جبیر ، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو ۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاہر الثیاب و فلان طاہر الذیل ، فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے ۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے برعکس کہتے ہیں فلان دنس الثیاب ، اس شخص کے کپڑے گندے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے ، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں ۔