[١١] اسلام لانے میں اس کی سرداری رکاوٹ بن گئی :۔ ولید بن مغیرہ خود بڑا سمجھدار اور عربی کلام کے نشیب و فراز سے خوب واقف تھا۔ وہ خود قرآن سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا۔ اب قریشی سرداروں کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ اگر ان کا رئیس مسلمان ہوگیا تو پھر تو ان کا کہیں بھی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ اس کو اپنے سابقہ دین پر برقرار رکھنے کا بیڑا ابو جہل نے اٹھایا۔ (ولید بن مغیرہ کے بعد قریش کی سیادت ابو جہل کے ہاتھ آئی تھی) جب ابو جہل نے اسے سمجھایا کہ اگر وہ مسلمان ہوگیا تو اس کی سب عزت و جاہ خاک میں مل جائے گی اور اسے قریش کی سیادت سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ تو وہ اسلام لانے سے رک گیا۔ اب ایک اور اہم مسئلہ درپیش تھا کہ حج کا موسم قریب آچکا تھا اور قریشی سرداروں کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ جو لوگ حج کے موقعہ پر باہر سے مکہ آتے ہیں انہیں اسلام کی دعوت سے کیونکر روکا جاسکتا ہے اور وہ پیغمبر اسلام کو کیا کہہ کر لوگوں کو ان سے متنفر کرسکتے ہیں ؟- خ ولید بن مغیرہ کے ہاں مشرکین مکہ کا مشورہ :۔ چناچہ اس غرض کے لیے قریشی سردار ولید بن مغیرہ کے ہاں جمع ہوئے۔ ولید بن مغیرہ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اچھا تم لوگ اپنی اپنی تجاویز پیش کرو۔ ان میں سے ایک بول اٹھا : ہم کہیں گے کہ یہ شخص کاہن ہے ولید کہنے لگا : واللہ وہ کاہن نہیں، اس کے کلام میں نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے، نہ قافیہ گوئی اور نہ تک بندی۔ پھر وہ کاہن کیسے ہوسکتا ہے ؟ دوسرے نے کہا ہم کہیں گے : وہ پاگل ہے ولید نے کہا : واللہ وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگلوں کو دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں تیسرے نے کہا : ہم کہیں گے، وہ شاعر ہے ولید کہنے لگا : وہ شاعر بھی نہیں، ہمیں رجز، حجز، قریض مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے۔ تب لوگوں نے کہا : ہم کہیں گے : وہ جادو گر ہے ولید نے کہا وہ جادوگر بھی نہیں۔ یہ شخص نہ ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے اور نہ گرہ لگاتا ہے آخر لوگوں نے جھنجھلا کر کہا : پھر تم ہی اپنی بےداغ رائے پیش کرو۔ ولید کہنے لگا۔ مجھے ذرا سوچ لینے دو ۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں پر ایک فاخرانہ نگاہ ڈالی۔ پھر از راہ تکبر پیشانی کو سکیڑا جیسے قرآن سے اسے بہت کراہت اور انقباض ہے۔ اس کے ساتھی چلے گئے، وہ سوچتا رہا، سوچتا رہا۔ بالآخر اس نے اپنی بےداغ رائے یہ پیش کی کہ تم لوگ باہر سے آنے والوں سے یوں کہہ سکتے ہو کہ یہ شخص ایسا کلام پیش کرتا ہے جو ایسا جادو ہے جس سے بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے، شوہر بیوی سے جدا ہوجاتا ہے اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے چناچہ اس تجویز پر متفق ہو کر سب لوگ رخصت ہوگئے۔ اس مکالمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ولید بن مغیرہ پر قرآن کی حقیقت پوری طرح واضح ہوچکی تھی۔ اب وہ جو کچھ پینترے بدل رہا تھا محض اپنے اقتدار اور جاہ کو محفوظ رکھنے کی خاطر کر رہا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اسی ہٹ دھرمی اور کج فکری کا نقشہ پیش کیا ہے۔
فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ١٩ ۙ- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔