جنتیوں اور دوزخیوں میں گفتگو ہو گی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال میں قیامت کے دن جکڑا بندھا ہو گا لیکن جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ آیا وہ جنت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھ ہوئے جہنمیوں کو بدترین عذابوں میں دیکھ کر ان سے پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے نہ تو رب کی عبادت کی نہ مخلوق کے ساتھ احسان کیا بغیر علم کے جو زبان پر آیا بکتے رہے جہاں کسی کو اعتراض کرتے سنا ہم بھی ساتھ ہوگئے اور باتیں بنانے لگ گئے اور قیامت کے دن کی تکذیب ہی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آ گئی ، یقین کے معنی موت کے اس آیت میں بھی ہیں آیت ( وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ 99ۧ ) 15- الحجر:99 ) یعنی موت کے وقت تک اللہ کی عبادت میں لگا رہ اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی نسبت حدیث میں بھی یقین کا لفظ آیا ہے ، اب اللہ مالک الملک فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی کی سفارش اور شفاعت نفع نہ دے گی اس لئے کہ شفاعت وہاں نافع ہو جاتی ہے جہاں محل شفاعت ہو لیکن جن کا دم ہی کفر پر نکلا ہو ان کے لئے شفاعت کہاں؟ وہ ہمیشہ کے لئے ( ہاویہ ) میں گئے ۔ پھر فرمایا کیا بات ہے کہ کونسی وجہ ہے کہ یہ کافر تیری نصیحت اور دعوت سے منہ پھیر رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شکاری شیر سے ، فارسی زبان میں جسے شیر کہتے ہیں اسے عربی میں اسد کہتے ہیں اور حبشی زبان میں ( قسورہ ) کہتے ہیں اور نبطی زبان میں رویا ۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین تو چاہتے ہیں کہ ان میں کے ہر شخص پر علیدہ علیحدہ کتاب اترے جیسے اور جگہ ان کا مقولہ ہے آیت ( حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ١٢٤ ) 6- الانعام:124 ) یعنی جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ نہ دیئے جائیں جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ رسالت کے قابل کون ہے؟ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم بغیر عمل کے چھٹکارا دیئے جائیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دراصل وجہ یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کا یقین نہیں اس پر ایمان نہیں بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں تو پھر ڈرتے کیوں؟ پھر فرمایا سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن محض نصیحت و موعظت ہے جو چاہے عبرت حاصل کر لے اور نصیحت پکڑ لے ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 29ۧ ) 81- التكوير:29 ) یعنی تمہاری چاہتیں اللہ کی چاہت کی تابع ہیں ۔ پھر فرمایا اسی کی ذات اس قابل ہے کہ اس سے خوف کھایا جائے اور وہی ایسا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے ، مسند احمد میں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے میں اس کا حقدار ہوں کہ مجھے سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے جو میرے ساتھ شریک بنانے سے بچ گیا تو وہ میری بخشش کا مستحق ہو گیا ، ابن ماجہ اور نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں ، سہیل اس کا راوی قوی نہیں اللہ تعالیٰ کے احسان سے سورہ مدثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ، فالحمد اللہ
38۔ 1 رہن گروی کو کہتے ہیں یعنی ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے، وہ عمل اسے عذاب سے چھڑا لے گا، (اگر نیک ہوگا) یا ہلاک کروا دے گا۔ (اگر برا ہے)
(کل نفس بما کسبت …: یعنی جس طرح کوئی گروی رکھی ہوئی چیز اس وقت تک نہیں چھوٹتی جب تک وہ حق ادا نہ کردیا جائے جس سکے بدلے اسے گروی رکھا گیا ہے، اسی طرح ہر شخص اپنے عمل کے عوض گروی اور گرفتار ہوگا ، جب تک وہ عمل پیش نہ کرے جس کی ادائیگی اس پر واجب تھی، رہئای نہیں پاسکتا۔ ہاں جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا وہ گرفتار نہیں ہوں گے بلکہ اعمال صالحہ کی وجہ سے رہا ہو جایئں گے، جس طرح حق ادا کرنے سے گروی چھوٹ جاتی ہے۔
ۭكُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ 38ۙاِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ- رھنتہ بمعنی مرہونہ ہے اور مراد اس سے اس کا محبوس ومقید ہونا ہے جس طرح کوئی شخص قرص کے بدلے میں کوئی چیز رہن رکھدے تو وہ چیز قرض خواہ کے قبضہ میں محبوس رہتی ہے، مالک اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح قیامت کے روز ہر ایک نفس اپنے گناہوں کے بدلے میں محبوس اور مقید رہیگا مگر اصحاب الیمین اس حبس اور قید سے مستثنی ہوں گے۔- یہاں حبس سے مراد جہنم میں محبوس ہونا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر مذکور میں لیا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ ہر شخص اپنے اپنے گناہوں کی سزا بھگنتے کے لئے جہنم میں محبوس رہے گا مگر اصحاب الیمین اس سے مستثنی ہوں گے۔ اس سیاق سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اصحاب الیمین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا قرض ادا کردیا یعنی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے سب حقوق دنیا میں ادا کردیئے تھے یا اللہ تعالیٰ اور بندوں نے معاف کردیئے وہ فرض اور قرض سب ادا کرچکے ان کے نفوس کے مرہون ہونے کی کوئی وجہ نہیں، یہ تفسیر بظاہر صاف و بےتکلف ہے۔ اگر حبس سے مراد حساب کتاب اور جنت دوزخ کے داخلے سے پہلے کسی جگہ محبوس ہونا ہے تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ تمام نفوس اپنے اپنے حساب کے لئے محبوس ہوں گے جب تک حساب نہ ہوجائے کوئی کہیں نہ جاسکے گا۔ اس صورت میں اصحاب الیمین مستثنی کئے گئے ان سے مراد یا تو وہ معصومین ہوسکتے ہیں جن کے ذمہ حساب نہیں، جیسے نابالغ بچے کما ہو قول علی کرم اللہ وجہہ یا پھر وہ لوگ جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس امت کے بہت سے لوگ سے مستثنی کردیئے جاویں گے وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ اور سورة واقعہ میں جو حاضرین محشر کی تین قسمیں بتلائی ہیں۔ ایک سابقین ومقربین، دوسرے اصحاب الیمین، تیسرے اصحاب الشمال، یہاں مقربین کو بھی اصحاب الیمین میں شامل کرکے صرف اصحاب الیمین کے ذکر پر اکتفا کیا گیا لیکن اس معنی کے اعتبار سے تمام اصحاب الیمین کا حساب کے لئے محبوس ہونے سے استثنا کسی نص سے ثابت نہیں یہ معنی پہلی تفسیر یعنی حبس فی جہنم ہی کے ساتھ درست ہوسکتے ہیں۔ واللہ اعلم
كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ رَہِيْنَۃٌ ٣٨ ۙ- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - رَهِينٌ- الرَّهْنُ : ما يوضع وثیقة للدّين، والرِّهَانُ مثله، لکن يختصّ بما يوضع في الخطاروأصلهما مصدر، يقال : رَهَنْتُ الرَّهْنَ ورَاهَنْتُهُ رِهَاناً ، فهو رَهِينٌ ومَرْهُونٌ. ويقال في جمع الرَّهْنِ : رِهَانٌ ورُهُنٌ ورُهُونٌ ، وقرئ : فَرُهُنٌ مقبوضة وفَرِهانٌ وقیل في قوله : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ، إنه فعیل بمعنی فاعل، أي : ثابتة مقیمة . وقیل : بمعنی مفعول، أي : كلّ نفس مقامة في جزاء ما قدّم من عمله . ولمّا کان الرّهن يتصوّر منه حبسه استعیر ذلک للمحتبس أيّ شيء کان، قال : بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ، ورَهَنْتُ فلانا، ورَهَنْتُ عنده، وارْتَهَنْتُ : أخذت الرّهن، وأَرْهَنْتُ في السِّلْعة، قيل : غالیت بها، وحقیقة ذلك : أن يدفع سلعة تقدمة في ثمنه، فتجعلها رهينة لإتمام ثمنها .- ( ر ھ ن ) الرھن ( گروی رکھی ہوئی چیز ) اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو قرض میں بطور ضمانت رکھ لی جائے اور یہی معنی رھان کے ہیں لیکن رھان خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی مقابلہ میں شرط کے طور پر رکھ لی جائے اصل میں یہ دونوں لفظ مصدر ہیں جیسے رھنت الرھن وراھنتہ رھانا اور رھین اور مرھون : صیغہ صفت ہیں اور رھن کی جمع رھان رھن اور رھون آتی ہے اور آیت : ۔ فرھن مقبوضۃ : تو کچھ رہن قبضہ میں رکھ لو ۔ میں ایک قراءت فَرُهُنٌ مقبوضة بھی ہے اور آیت كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رھینۃ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور اس کے معنی ثابت اور قائم رہنے والی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول سے ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص اپنے گزشتہ اعمال کی پاداش میں رکا رہے گا ۔ پھر رھن میں چونکہ حبس ( روکنے ) کے معنی پائے جاتے ہیں اس لئے کبھی مجازا رھن یعنی مطلق کسی چیز کو روکنے کے آجاتا ہے ۔ جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے ۔ رھنت فلانا رھنت عنده کے معنی کسی کے پاس گروی رکھنے کے ہیں اور ارتھنت ( افتعال ) کے معنی گروی لینے کے ۔ اور ارھنت ( افعال ) فی السلعۃ کے معنی بعض نے سامان تجارت کو گراں فروخت کرنا کئے ہیں اصل میں اس کے معنی بیعانہ کے طور پر کچھ سامان دے دینے کے ہیں ۔ جو قیمت ادا کرنے تک بطور ضمانت بائع کے پاس رہتا ہے ۔
آیت ٣٨ کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ ۔ ” ہر جان رہن ہے اس کے عوض جو کچھ کہ اس نے کمایا ہے۔ “- ہر انسان نے اپنی دنیا کی زندگی میں جو کچھ کمایا ہے قیامت کے دن وہ سب کچھ اسے وصول کرنا ہوگا۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ طور ، حاشیہ 16 ۔
17: یعنی جس طرح قرض کی توثیق کے لئے کوئی چیز گروی (رہن) رکھی جاتی ہے، کہ اگر قرض ادا نہ ہوا تو قرض خواہ اُسے بیچ کر اپنا حق حاصل کرسکتا ہے، اسی طرح کافر اس طرح رہن رکھا ہوا ہے کہ یا تو ہدایت کا راستہ اختیار کرلے، ورنہ اس کا پورا وجود دوزخ کا ایندھن بنے گا۔