فما لھم عن التذکرۃ…:” مستنفرۃ “ باب استفعال سے اسم فاعل بمعنی ” نافرۃ “ ہے، جیسے ” عجب “ اور ” استعجب “ اسی طرح ” سخر “ اور ” استخر “ ہم معنی ہیں۔ حروف زیادہ ہونے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ، سخت بدکنے والے۔ ” قسورۃ “” قسر “ سے ہے جس کا معنی غلبہ اورق ہر ہے، چونکہ شیر اپنے شکار کو مغلوب و مقہور کرتا ہے اسلئے اسے ” ق سورة “ کہتے ہیں۔ شکاریوں کی جماعت کو بھی ” ق سورة “ کہتے ہیں اور لوگوں کے شور و غل کو بھی ” ق سورة “ کہتے ہیں۔ کفار کے نصیحت اور آیات قرآنی سننے سے بھگانے کو ان جنگلی گدھوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو شیر کی آہٹ یا شکاریوں کے خطرے سے بدک کر بےتحاشا بھاگتے ہیں۔
فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ- یہاں تذکرہ سے مراد قرآن حکیم ہے کیونکہ تذکرہ کے لفظی معنی یاد دلانے والی چیز کے ہیں اور قرآن اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی رحمت وغضب اور ثواب و عذاب کو یاد دلانے میں بےنظیر ہے اور آخر میں فرمایا - کلا انہ تذکرة- یعنی بلا شبہ قرآن تذکرہ ہے جسکو تم نے چھوڑ رکھا ہے قسورة کے معنی شیر کے بھی آتے اور تیر انداز شکاری کے بھی اس جگہ صحابہ کرام سے دونوں منقول ہیں۔
فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْكِرَۃِ مُعْرِضِيْنَ ٤٩ ۙ- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(٤٩۔ ٥٢) سو ان مکہ والوں کو کیا ہوا کہ یہ قرآن کریم کو جھٹلاتے ہیں کہ گویا وہ وحشی گدھے ہیں کہ شیر سے یا آدمیوں کی جماعت سے بھاگے جارہے ہیں، بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے نوشتے دیے جائیں، چناچہ ان لوگوں نے اس کی درخواست کی تھی کہ خاص ہمارے نام نوشے آئیں جس میں ہمارا نام اور توبہ لکھی ہو کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں۔- شان نزول : بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ (الخ)- ابن منذر نے سدی سے روایت کیا ہے کہ کفار نے کہا کہ اگر محمد سچے ہیں تو صبح کو ہر ایک شخص کے سر کے نیچے سے لکھا ہوا نکلے جس میں اس کے لیے دوزخ سے برات لکھی ہوئی ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔