6۔ 1 یعنی احسان کرکے یہ خواہش نہ کر کہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گا۔
[٦] بےلوث خدمت اور اللہ کے لیے صبر :۔ کسی شخص کی بےلوث خدمت کرنا بڑا حوصلہ مندی کا کام ہے۔ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اگر وہ کسی پر کوئی دنیوی یا دینی بھلائی کرے تو کسی نہ کسی رنگ میں اس کو اس کا بدلہ ضرور ملنا چاہیے۔ بلکہ بسا اوقات انسان کی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ کسی پر اس نے جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ اسے اس سے بڑھ کر ملنا چاہیے۔ یہ نظریہ خالصتاً خود غرضانہ اور مادی نظریہ ہے۔ لہذا جس عظیم مقصد کے لیے آپ کو تیار کیا جارہا تھا اور جس طرح آپ کو پوری بنی نوع انسان کی ہدایت کی خدمت سپرد کی جانے والی تھی اس کے لیے ابتدا میں ہی آپ کو یہ ہدایت کی گئی کہ کسی طرح کے فائدہ، لالچ، غرض اور معاوضہ کا طمع رکھے بغیر لوگوں پر دینی اور دنیوی دونوں طرح کی بھلائیاں کرنا ہوں گی اور اس راہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جتنے بھی مصائب پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے اللہ کی رضا کی خاطر برداشت کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں کا بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔
(ولاتمنن تستکثر :” من یمن “ احسان کرنا۔ ” استکثر “ (استفعال) زیادہ طلب کرنا۔ ” استکثر الشیء “ کا معنی کسی چیز کو زیادہ سمجھنا بھی آتا ہے۔ یعنی آپ کسی پر احسان کریں تو اس نیت سے نہیں کہ مجھے اس سے زیادہ ملے گا۔ نہ راہ حق کی طرف رہنمائی کے احسان پر کسی سے کوئی توقع رکھیں ، نہ کسی کو کچھ دے کہ اس سے زیادہ حاصل ہونے کی طلب رکھیں، تو قع اور طلب صرف اپنے پروردگار سے رکھیں۔ اس کے علاوہ یہ معنی بھی درست ہے کہ آپ کسی پر جتنا بھی احسان کریں اسے زیادہ نہ سمجھیں۔ اس آیت میں داعی کو ہر قسم کی طمع اور لالچ سے اجتناب کا حکم ہے، کیونکہ یہ چیز دعوت الی اللہ کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
پانچواں حکم وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر، یعنی کسی شخص پر احسان اس نیت سے نہ کیئجے کہ جو کچھ اس کو دیا ہے اس سے زیادہ وصول ہوجائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو ہدیہ تحفہ اس نیت سے دینا کہ وہ اس کے معاوضہ میں اس سے زیادہ دے گا یہ مذموم و مکروہ ہے۔ قرآن کی دوسری آیت سے اگرچہ اس کا جواز عام لوگوں کے لئے معلوم ہوتا ہے مگر وہ بھی کراہت سے خالی نہیں اور شریفانہ اخلاق کے منافی ہے۔ خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تو اس کو حرام قرار دیا گیا (قالہ ابن عباس)
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ٦ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
عطیہ اس نیت سے نہ دیا جائے کہ بدلے میں عطیہ ملے - قول باری ہے (ولا تمنن تستکثر۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لئے) حضرت ابن عباس (رض) ، ابراہیم نخعی، مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ کوئی عطیہ اس نیت سے نہ دو کہ تمہیں اس کے بدلے میں اس سے زیادہ دیا جائے۔ حضن بصری اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ اپنی نیکیوں کو زیادہ سمجھتے ہوئے اللہ پر ان کا احسان نہ دھرو کہ پھر اللہ کے ہاں تمہاری یہ نیکیاں گھٹ جائیں۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور قرآن کی جو دولت عطا کی ہے لوگوں سے زیادہ اجر حاصل کرنے کی نیت سے اس کا احسان نہ جتلائیں۔ مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اپنی طاعت کو کثیر سمجھتے ہوئے اپنے اعمال میں کمزوری نہ دکھائیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے الفاظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ تمام معانی مراد ہیں۔ تاہم احتمال کے تمام وجوہ میں سے عموم پر اسے محمول کرنا سب سے موزوں صورت ہوگی۔
آیت ٦ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ۔ ” اور زیادہ لینے کے لیے کسی پر احسان نہ کیجیے۔ “- اس آیت کا عام اور معروف مفہوم تو یہی ہے کہ کسی پر احسان کرتے ہوئے بدلے کی توقع نہ رکھو ‘ بلکہ احسان برائے احسان کرو۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر اس آیت کا وہ ترجمہ پسند ہے جو مولانا اصلاحی صاحب نے کیا ہے : ” اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر “ مَنَّ یَمُنُّ مَنًّا کے معانی احسان کرنا اور احسان جتلانا کے علاوہ توڑنے اور کاٹنے کے بھی ہیں۔ اصلاحی صاحب نے اپنے ترجمے میں اسی معنی کو اپنایا ہے۔ چناچہ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے فرضِ منصبی سے متعلق جدوجہد کو منقطع نہ کرنا ‘ یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت کے بڑے بڑے نتائج نکلیں گے۔ کچھ عرصے تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انتظار تو ضرور کرنا پڑے گا لیکن بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریک کامیاب ہوگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھیروں کامیابیاں ملیں گی۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :6 اصل الفاظ ہیں ولا تمنن تستکثر ۔ ان کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں ان کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کرو بے غرضانہ کرو ۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حسن سلوک محض اللہ کے لیے ہو ، اس میں کوئی شائبہ اس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کی دنیوی فوائد حاصل ہوں ۔ بالفاظ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو ، فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی احسان نہ کرو ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے ، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتاؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو ، مگر اپنی نگاہ میں اپنے عمل کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر ، اور اس کام میں جان لڑا کر تم اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو ۔
3: کسی کو اس نیت سے کوئی ہدیہ تحفہ دینا کہ جواب میں وہ اُس سے زیادہ دے اس آیت کی رُو سے ممنوع ہے۔ ایک تفسیر کے مطابق یہی حکم سورۃ روم(۳۰:۳۹) میں بھی گذرا ہے۔