فاذا نقرفی الناقور…:” الناقور “ ” نقر ینفر “ (ن) سے ” فاعدل “ کے وزن پر ہے جس کا معنی ہے، پھونکنا، ایسی ضرب لگانا کہ سوراخ ہوجائے، مراد صور ہے۔ شروع سورت میں ڈرانے کا حکم ہے، اب اس کی تفصیل ہے کہ جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور ہر چیز فنا ہونے کے بعد دوبارہ سب لوگ قبروں سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو وہ ایک مشکل دن ہوگا ۔
فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ ٨ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- نقر - النَّقْرُ : قَرْعُ الشَّيْءِ المُفْضِي إِلَى النَّقْبِ ، والمِنْقَارُ : ما يُنْقَرُ به كمِنْقَارِ الطَّائرِ ، والحَدِيدَةِ التي يُنْقَرُ بها الرَّحَى، وعُبِّرَ به عن البَحْثِ ، فقیل : نَقَرْتُ عَنِ الأَمْرِ ، واستُعِيرَ للاغْتِيَابِ ، فقیل : نَقَرْتُهُ ، وقالتْ امرأةٌ لِزَوْجِهَا : مُرَّ بِي عَلَى بَنِي نَظَرِي ولا تَمُرَّ بي عَلَى بَنَاتِ نَقَرِى «1» ، أي :- علی الرجال الذین ينظُرون إليَّ لا علی النِّساء اللَّواتِي يَغْتَبْنَنِي . والنُّقْرَةُ : وَقْبَةٌ يَبْقَى فيها ماءُ السَّيْلِ ، ونُقْرَةُ القَفَا : وَقْبَتُهُ ، والنَّقِيرُ : وَقْبَةٌ في ظَهْرِ النَّوَاةِ ، ويُضْرَبُ به المَثَلُ في الشیء الطَّفِيفِ ، قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً- [ النساء 124] والنَّقِيرُ أيضا : خَشَبٌ يُنْقَرُ ويُنْبَذُ فيه، وهو كَرِيمُ النَّقِيرِ. أي : كَرِيمٌ إذا نُقِرَ عنه . أي : بُحِثَ ، والنَّاقُورُ : الصُّورُ ، قال تعالی: فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا صَوَّتَّ له بلسانِكَ ، وذلک بأن تُلْصِقَ لسانَك بنُقْرَةِ حَنَكِكَ ، ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا خَصَصْتَهُ بالدَّعْوَةِ ، كأَنَّك نَقَّرْتَ له بلسانِكَ مُشِيراً إليه، ويقال لتلک الدَّعْوَةِ : النَّقْرَى.- ( ن ق ر ) النقر ( ن ) کسی چیز کو کھٹکھٹانا حتیٰ کہ اس میں سوراخ ہوجائے المنقار کھٹکھٹا نے لا آلہ جیسے پرند کی چونچ یا چکی کو کندہ کرنے کے اوزار وغیرہ ۔ نقرت عن الامر کسی معاملہ کی چھان بین کرنا نقرتہ بطور استعارہ بمعنی غیبت کرنا جیسا کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا : ۔ کہ مجھے مردوں کے پاس سے لے کر کر گزر نا جو نظر ڈالتے ہیں اور عورتوں کے پاس سے لے کر نہ گزر نا جو عیب لگاتی اور غیبت کرتی ہیں ۔ النقرۃ گڑھا جس میں سیلاب کا پانی باقی رہ جاتا ہے گر دن کے پچھلے حصے کے گڑھے کو نقرۃ القفا کہا جاتا ہے ۔ انقیر کھجور کی گھٹلی کے گڑھے کو کہتے ہیں ۔ اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء 124] اور تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی ۔ اور النقیر اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جس میں گڑھا کر کے اس میں نبیذ ڈالتے ہیں کہا جاتا ہے ھو کریم النقیر فلاں شریف الاصل ہے یعنی بعد از تفتیش ۔ الناقور کے معنی صور یعنی بگل کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ نقرت الرجل زبان کو تالو سے لگا کر آواز نکال کر کسی آدمی کو بلانا ۔ نقرت ت الرجل کسی شخص کو جماعت میں سے خاص کر علیحدہ بلانا گو یا زبان کے ذریعہ آواز نکال کر خاص کر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور اس طور سے بلانے کو نقری کہا جاتا ہے ۔ میں نے خاص طور پر انہیں بلایا ۔
(٨۔ ١٠) اور اپنے پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت پر جمے رہو، سو جس وقت مردوں کو زندہ کرنے کے لیے صورت میں پھونک ماری جائے گی تو اس دن کی ہیبت و عذاب کافروں کے لیے سخت ہوگا جس میں ان پر ذرا آسانی نہ ہوگی۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ (الخ)- امام بخاری و مسلم نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے غار حرا میں ایک مہینہ تک اعتکاف کیا ہے جب میں اپنے اعتکاف کے دن پورا کرچکا تو میں وہاں سے آنے کے لیے نکلا تو مجھے آواز دی گئی تو میں نے اپنا سر اوپر کو اٹھایا دیکھتا کیا ہوں کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس غار غرا میں آیا تھا، چناچہ میں لوٹا اور میں آکر کہنے لگا کہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔- طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا کہ ولید بن مغیرہ نے قریش کے لیے کھانا تیار کیا، چناچہ جب انہوں نے کھانا کھالیا تو وہ کہنے لگے کہ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو ان میں سے بعض کہنے لگے ساحر ہیں، اور بعض نے کہا ساحر نہیں ہیں، اور بعض کہنے لگے کاہن ہیں اور بعض نے کہا کاہن نہیں ہیں، اور بعض کہنے لگے شاعر ہیں اور بعض نے کہا شاعر نہیں ہیں اور بعض کہنے لگے یہ تو منقول جادو ہے اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع ہوئی تو آپ غمگین ہوئے اور اپنا سر مبارک جھکا لیا اور چادر لپیٹ لی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ تک نازل فرمائی۔
آیت ١٠ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ ۔ ” کافروں پر وہ ہلکا نہیں ہوگا۔ “- اس کے مقابل سورة المزمل میں قیامت کے دن کا ذکر اس طرح آیا تھا : فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ - السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖط کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا ۔ ” اب اگر تم بھی کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اس دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ آسمان اس کے ساتھ پھٹ پڑنے کو ہے۔ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ “- اس کے بعد سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان آیات کا لہجہ اور انداز بہت سخت ہے۔