ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی ، حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے ، حسن اور اعرج کی قرأت آیت ( لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ Ǻۙ ) 75- القيامة:1 ) ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں ، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے ، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے ۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے ، نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہدیا ؟ یہ کیوں کھا لیا ؟ یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے ، یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی ، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو ، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے ، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے ، آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ( قادرین ) حال ہے ( نجمع ) سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں ۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے ، امیدیں باندھے ہوئے ہے ، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کرتولوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے ، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے ، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے ، اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے ، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہو گی ، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 48 ) 10- یونس:48 ) ، کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہدے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43ۭ ) 14- ابراھیم:43 ) ، یعنی پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے ، برق کی دوسری قرأت برق بھی ہے ، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا ، جیسے فرمایا آیت ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ Ǻ۽ ) 81- التكوير:1 ) حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( وجمیع بین الشمس والقمر ) ہے ، انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47 ) 42- الشورى:47 ) یعنی آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا 49ۧ ) 18- الكهف:49 ) جو کیا تھا ، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے ، جیسے فرمان ہے آیت ( اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14ۭ ) 17- الإسراء:14 ) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے ، اس کے کان آنکھ ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں ، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے ، کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بیکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا ۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے ۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں ، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سر سے انکار ہی کر دیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں ، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا ، جیسے اور جگہ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52 ) 40-غافر:52 ) ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کر دیں گے لیکن بےسود ہو گا ۔
1۔ 1 میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔
[١] قسم کھانے سے مقصد بعض دفعہ تو اپنی بات کو مؤکد بنانا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ قسم بطور شہادت یا شہادت کو مزید مؤکد بنانے کے لیے کھائی جاتی ہے۔ اور ایسی چیز کی کھائی جاتی ہے جسے انسان بہرحال اپنی ذات سے بالاتر سمجھتا ہو۔ اور چونکہ انسان خود اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے۔ لہذا ہم انسانوں کو یہی حکم ہے کہ اگر قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے تو صرف اللہ کی ذات کی یا اس کی صفات کی کھائی جائے۔ اس کے علاوہ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک اور حرام ہے۔ لے کن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس چیز کو اہم سمجھتے ہوئے قسم اٹھانا چاہے بطور شہادت اور دلیل پیش کرکے قسم اٹھا سکتا ہے۔ مثلاً یہی قیامت کا دن جسے برپا کرنا اللہ کے انتہائی مہتم بالشان کارناموں سے ایک کارنامہ ہوگا اور یہ ایسی چیز تھی جس کا کفار مکہ یکسر انکار کر رہے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی یقین دہانی کی خاطر قیامت کے دن کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ وہ یقیناً واقع ہو کے رہے گی۔
(١) لا اقسم بیوم القیمۃ…:” القیمۃ “ ” قیام “ مصدر ہے ، کھڑا ہونا، تاء ” ایک دفعہ “ کا معنی ادا کرنے کے لئے ہے، یعنی آدمی کا ایک دفعہ کھڑا ہونا۔ یہاں یہ تنبیہ کے لئے لائی گئی ہے کہ قیامت کا وقوع دفعتاً ہوگا۔ (راغب)” یوم القیامۃ “ کا معنی ہوگا ایک ہی دفعہ اٹھ کھڑے ہونے کا دن۔ ” اللوامۃ “” لام یلوم “ سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ملامت کرنے والا، جیسے ” علامۃ “ اور ” فھامۃ “ ہے۔- (٢) ” لااقسم “ کا معنی یہ نہیں کہ میں قسم نہیں کھاتا، بلکہ ” لا “ الگ ہے اور ” قاسم “ الگ۔ معنی یہ ہے کہ نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ عرب کے ہاں یہ محاورہ عام ہے ” لا واللہ “ یعنی جب کوئی شخص انکار کر رہا ہو تو پہلے اس کے انکار کی نفی ” لا “ سے کی جاتی ہے، پھر اپنی بات کی تاکید کے لئے قسم ذکر کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی مخاطب کے غلط خیال کی تردید کے لئے ایسے ہی کہا اجتا ہے کہ نہیں، اللہ کی قسم بات اس طرح ہے۔ کئی مفسرین نے فرمایا کہ ” لا “ زائدہ ہے اور معنی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ مگر زائدہ ماننے کے بجائے با معنی قرار دینا بلاغت قرآن کے زیادہ لائق ہے، جب کہ معنی بھی درست ہو رہا ہے اور پر زور ہو رہا ہے۔- (٣) قرآن میں انسانی نفس کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے، اس کا نام ” امارہ “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان النفس لامارۃ بالسوء ) (یوسف، ٥٣)” نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ “ دوسرا وہ نفس جو آدمی کو برائی پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ” لوامہ “ ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ نیک ہو یا بد، نیک کام میں کوتاہی اور برے کام کے ارتکاب پر خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اسے عام طورپر اردو میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر یقین ہو اور ان کے حق ہونے پر اسے پورا اطمینان اور تسلی ہو، منافقین کی طرح شک و شبہ میں مبتلا نہ ہو ، یہ ” نفس مطمئنہ “ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ایک ہی نفس کی مختلف وقتوں میں تین حالتیں ہیں۔- (٤) ” بیوم القیمۃ “ اور ” بالنفس اللوامۃ “ کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں، مگر بعد میں آنے والی آیات سے وہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ہم یقینا انسان کی ہڈیاں اکٹھی کر کے اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔- (٥) قسم سے مراد اس بات کی تاکید ہوتی ہے جس کے لئے قسم کھائی جاتی ہے، پھر بعض اوقات تاکید کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز نہایت عظیم الشان ہوتی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے اور اس کی عظمت ہی بات کی تاکید کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات قسم اپنے جواب قسم کی دل یل ہوتی ہے جس سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ یہاں قیامت کے دن کی قسم قیامت کے حق ہونے کی تاکید کیلئے اٹھائی گئی ہے، اس کی وجہ قیامت کی عظمت بھی ہے اور یہ بھی کہ روز قیامت اپنی دلیل خود ہے، جیسا کہ سورة ص میں قرآن کے حق ہونے کے لئے خود قرآن کی قسم کھائی ہے، فرمایا :(ص والقرآن ذی الذکر) (ص : ١)” ص۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔ “ اور نفس لوامہ کی قسم اس لئے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا نفس برے کام پر اسے ملامت کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کے نزدیک اچھائی یا برائی کا معیار کیا ہے اورق طع نظر اس سے کہ وہ ضمیر کی اس ملامت کی پروا کرتا ہے یا نہیں ؟ ملامت کرنے والا یہ نفس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر حجت ہے کہ جس طرح تمہارا اپنا نفس خود تم سے باز پرس کر رہا ہے لازم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب تمہارا پیدا کرنے والا تم سے باز پرس کرے۔
خلاصہ تفسیر - میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے (یعنی نیکی کرکے یہ کہے کہ میں نے کیا کیا ہے اس میں اخلاص نہ تھا، اس میں فلانی خرابی رہ گئی تھی اور گناہ ہوجاوے تو بہت ہی نادم ہو۔ کذافی الدر المنثور عن ابن عباس والحسن۔ پس اس معنی کے اعتبار سے یہ نفس مطمئنہ کو بھی شامل ہے اور جواب قسم مخدوف ہے یعنی تم ضرور مبعوث ہوگے، اور ان دونوں قسموں کا مناسب مقام ہونا ظاہر ہے قیامت کا تو اسلئے کہ وہ ظرف ہے حشر ونشرا اور نفس لوامہ کا اسلئے کہ ایسا نفس قیامت کی عملی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔ آگے منکرین بعث پرر (ہے یعنی) کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں ہرگز جمع نہ کریں گے ( انسان سے مراد کافر اور ہڈیوں کی تخصیص اسلئے کہ اصل عماد بدن یہی ہیں۔ آگے اس انکار کا جواب ہے یعنی) ہم ضرور جمع کریں گے (اور یہ جمع کرنا ہم کو کچھ دشوار نہیں) کیونکہ ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوریوں تک درست کردیں (پوریوں کی تخصیص ذکری دو وجہ سے ہے ایک یہ کہ یہ اطراف بدن ہیں اور تکمیل ہر شئے کے بننے کی اس کے اطراف پر ہوتی ہے۔ چناچہ ہمارے محاورہ میں بھی ایسے موقع پر بولتے ہیں کہ میرے پور پور میں درد ہے یعنی تمام بدن میں۔ دوسرے یہ کہ پوریوں میں باوجوڈ چھوٹی ہونے کے صنعت کی رعایت زیادہ ہے اور عادة یہ زیادہ دشوار ہے پس جو اس پر قادر ہوگا وہ آسمان پر بدرجہ اولیٰ قادر ہوگا لیکن بعضا آدمی قدرت الٰہیہ میں غور نہیں کرتا اور قیامت کا قائل نہیں ہوتا) بلکہ (ایسا) بعضا آدمی (قیامت کا منکر ہو کر) یوں چاہتا ہے کہ اپنی آئندہ زندگی میں بھی (بےخوف وخطر ہو کر) فس و فجور کرتا رہے (اسلئے بطور انکار کے) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئیگا (یعنی چونکہ اپنی عمر معاصی وشہوات میں گزارنا طے کرچکا ہے اسلئے اس کو طلب حق کی نوبت ہی نہیں آتی کہ قیامت کا ہونا اس کو ثابت ہوا اسلئے انکار پر مصر ہے اور انکاراً پوچھتا ہے کہ کب آئے گی) سو جس وقت (مارے حیرت کے) آنکھیں خیرہ ہوجاویں گی (اور وجہ اس حیرت کی یہ ہوگی کہ جن امور کی تکذیب کرتا تھا وہ دفعتاً نظر آجاویں گے کذافی الجلالین) اور چاند بےنور ہوجاوے گا اور (چاند کی کیا تخصیص ہے بلکہ) سورج اور چاند (دونوں) ایک حالت کے ہوجاویں گے (یعنی دونوں بےنور ہوجاویں گے، جیسا حدیث بخاری میں آیا ہے (تکوران ومعنی کورت قال ابن عباس اظلمت، رواھمافی الدر المنثور سورة التکویر) اور چاند کو جدا بیان کرنا شاید اسلئے ہو کر عرب کی بوجہ قمری حساب رکھنے کے اس کا حال دیکھنے کا زیادہ اہتمام تھا) اس روز انسان کہے گا کہ اب کدھر بھاگوں (ارشاد ہوتا ہے کہ) ہرگز (بھاگنا ممکن) نہیں (ہوگا کیونکہ) کہیں پناہ کی جگہ نہیں (ہوگی) اس دن صرف آپ ہی کے رب کے پاس ٹھکانا (جانے کا) ہے (پھر خواہ جنت میں بھیجیں یا دوزخ میں اور رب کے سامنے جانے کے وقت) اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا ہوا جتلادیا جائے گا (اور انسان کا اپنے اعمال سے آگاہ ہونا کچھ اس جتلانے پر موقوف نہ ہوگا) بلکہ انسان خود اپنی حالت پر (بوجہ انکشاف ضروری کے) خوب مطلع ہوگا گو (با قتضائے طبیعت اس وقت بھی) اپنے حیلے (حوالے) پیش لاوے ( جیسے کفار کہیں گے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشرکین، مگر دل میں خود بھی جانیں گے کہ ہم جھوٹے ہیں غرض انسان اپنے سب حال کو خوب جانتا ہوگا اسلئے جتلانا اعلام کے لئے نہیں ہوگا بلکہ تنبیہ واتمام حجت وقطع جواب کے لئے ہوگا اور) اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ینبو اور بل الانسان سے دو مضمون مستفاد ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے عالم اور محیط ہیں۔ دوسرا یہ کہ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب حکمت متقضی ہوتی ہے تو علوم غائبہ کثیرہ کو ذہن مخلوق میں حاضر کردیتا ہے گو ان علوم غائبہ کا حاضر ہوجانا خلاف عادت طبعی ہو جیسا کہ قیامت میں اس کا وقوع ہوگا جب یہ بات ہے تو آپ نزول وحی کے وقت جیسا کہ اب تک آپ کی عادت ہے اسقدر مشقت کہ سنتے بھی ہیں، پڑھتے بھی ہیں، دھیان بھی رکھتے ہیں محض اس احتمال سے کیوں برداشت کرتے ہیں کہ شاید کچھ مضمون میرے ذہن سے نکل جائے، کیونکہ جب ہم نے آپ کو نبی بنایا ہے اور آپ سے تبلیغ کا کام لینا ہے تو یہاں مقتضائے حکمت یہی ہوگا کہ وہ مضامین آپ کے ذہن میں حاضر رکھے جائیں اور ہمارا اس پر قادر ہونا تو ظاہر ہی ہے اسلئے آپ یہ مشقت برداشت نہ کیا کیجئے، اور جب وحی نازل ہوا کرے تو) آپ (قبل وحی ختم ہوچکنے کے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی جلدی لیں (کیونکہ) ہمارے ذمہ ہے ( آپ کے قلب میں) اس کا جمع کردینا اور (آپ کی زبان سے) اسکا پڑھوادینا (جب یہ ہمارے ذمہ ہے) تو جب ہم اس کو پڑھنے لگا کریں (یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) تو آپ ( اپنے ذہن سے اور فکر سے ہمہ تن) اس کے تابع ہوجایا کیجئے (یعنی ادھر ہی متوجہ ہوجایا کیجئے اور اسکے دوہرانے میں مشغول نہ ہوا کیجئے کقولہ تعالیٰ (آیت) ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ الخ) پھر (آپ کی زبان سے لوگوں کے سامنے) اس کا بیان کرا دینا (بھی) ہمارے ذمہ ہے (یعنی آپ کو یاد کرا دینا اور آپ کی زبان پر جاری کردینا پھر تبلیغ کے وقت بھی اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں کے سامنے پڑھوا دینا یہ سب ہمارے ذمہ ہے اور یہ مضمون استطراداً آ گیا تھا۔ آگے پھر عود ہے خطاب منکرین کی طرف یعنی) اے منکرو (انسان کا اعمال متقدمہ ومتاخرہ پر مطلع کیا جانا قیامت میں ضرور ہے اور جیسا تم سمجھ رہے ہو کہ قیامت نہ ہوگی جو ہرگز ایسا نہیں اور نہ تمہارے پاس اس نفی کی کوئی دلیل ہے) بلکہ (صرف بات یہ ہے کہ) تم دنیا سے محبت رکھتے ہو اور (اس محبت میں منہمک ہو کر) آخرت ( سے غافل ہو اور غفلت کے سبب اس) کو چھوڑ بیٹھے ہو ( پس بناؤ تمہاری اس نفی کی محض فاسد سے سو قیامت ضرور ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال پر مطلع کرکے ان اعمال کے مناسب جزا ملے گی جس کی تفصیل یہ ہے) بہت سے چہرے تو اس روز با رونق ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور بہت سے چہرے اس روز بدرونق ہوں گے ( اور وہ لوگ) خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا ( یعنی اس کو عذاب شدید ہوگا، آگے دنیا کی محبت پر زجر ہے کہ تم جو دنیا کو محبوب اور آخرت کو متروک ہونے کے قابل سمجھ رہے ہو) ہرگز ایسا نہیں (کیونکہ دنیا سے ایک روز مفارقت ہونیوالی ہے اور بالآخر آخرت میں جانا ہے جسکا بیان یہ ہے کہ) جب جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور (نہایت حسرت سے اس وقت) کہا جاتا ہے (یعنی تیماردار کہتے ہیں) کہ (ارے ض کوئی جھاڑ ( پھونک کرنے) والا بھی ہے (مراد مطلغ معالج ہے چونکہ عرب میں جھاڑ پھونک کا زیادہ چرچا تھا اسلئے راق سے تعبیر کیا) اور (اس وقت) وہ (مردہ) یقین کرلیتا ہے کہ یہ مفارقت (دنیا) کا وقت ہے اور (شدت سکرات موت سے) ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے (مراد اس سے ظہور آثار اسکراث موت ہے کچھ تخصیص ساقین کے لپٹ جانے کی نہیں اس کا ذکر تمثیلاً ہے) جب یہ حالتیں پیش آتی ہیں تو اے شخص) اس روز تیرے رب کی طرف جانا ہوتا ہے (پس ایسی حالت میں حب عاجلہ وترک آخرت کس درجہ نادانی ہے پھر خدا کے پاس پہنچنے کے بعد اگر وہ کافر ہے) تو (اس کا برا حال ہوگا کیونکہ) اس نے نہ تو (خدا اور رسول کی) تصدیق کی تھی اور نہ نماز پڑھی تھی لیکن (خدا اور رسول کی) تکذیب کی تھی اور (احکام سے) منہ موڑا تھا پھر ( اس پر طرہ یہ کہ داعی حق سے منہ موڑ کر اس پر افتخار اور) ناز کرتا ہوا اپنے گھر چل دیتا تھا (مطلب یہ کہ اول تو کفر وعصیان پر پھر اس پر ندامت نہیں بلکہ اور الٹا فخر کرتا تھا کہ ہمے اس طرح حق کو رد کیا اور باطل پر جمے رہے اور پھر اس کے بعد طلب حق نہیں بلکہ اپنے خدم وحشم میں جاکر اور زیادہ مغرور اور غافل ہوجاتا، آگے اس کافر کی بدحالی کا بیان ہے کہ ایسے شخص سے کہا جاوے گا کہ) تیری کمبختی آنے والی ہے پھر (مکرر سن لے کہ) تیری کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے (تکریر مفرد سے مقدار کی زیادتی مستفاد ہوئی اور تکریر مجموعی سے کیفیت کی زیادتی، اور چونکہ وقوع جزائے مذکور موقوف ہے دو امر پر، ایک انسان کا مکلف ہونا دوسرے اس کا مر کر دوبارہ زندہ ہونا جس کے امکان میں ان کو کلام تھا اسلئے آگے دونوں مضمون ہیں یعنی) کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جاوے گا۔ (نہ اس پر احکام عائد کئے جاویں گے اور نہ اس حساب کتاب ہوگا بلکہ مکلف ہونا بھی یقینی ہے اور اس پر باز پرس ہونا بھی یقینی، اور یہ جو بعث کو محال سمجھتا ہے یہ بھی اس کی حماقت ہے) کیا یہ شخص (ابتداء میں محض) ایک قطرہ منی نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکایا گیا تھا پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا، پھر اللہ تعالیٰ نے (اس کو انسان) بنایا، پھر اعضا درست کئے پھر اس (انسان) کی دو قسمیں کردیں مرد اور عورت (اور یہ فاتفسیر یہ ہے تو) کیا وہ (خدا جس نے ابتداء میں اپنی قدرت سے یہ سب کچھ کیا) اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ (قیامت میں) مردوں کو زندہ کردے (حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلے پیدا کرنے کی نسبت آسان ہے) - معارف ومسائل - للَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۙوَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ - یہاں قسم سے پہلے حرف لا زائد ہے۔ جب قسم کسی مخالف کی بات رد کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے تو اس کے شروع میں صرف لا اس شخص کے خیال باطل کی نفی کے لئے زائد استعمال ہوتا ہے اور محاورات عرب میں یہ استعمال معروف و مشہور ہے۔ ہماری زبان میں بھی بعض اوقات کسی قابل تاکید مضمون کے بیان سے پہلے کہا جاتا ہے، نہیں آگے اپنا مقصد بیان کیا جاتا ہے۔ اس سورت میں قیامت وآخرت کے منکروں کو تنبیہ اور ان کے شکوک و شبہات کا جواب ہے۔ سورت کو اول قیامت پھر نفس لوامہ کی قسموں سے شروع فرمایا ہے اور جب قسم بقرینہ مقام مخدوف ہے یعنی قیامت ضرور آکر رہے گی۔ قیامت کی قسم تو اس کی عظمت کے اثبات کے لئے مناسب مقام ہونا ظاہر ہے اسی طرح نفس لوامہ کی قسم میں بھی اس کی عظمت اور مقبولیت عنداللہ کا اظہار ہے نفس کے معنے جان یا روح کے معروف ہیں اور لوامہ لوم بفتح اللام سے مشتق ہے جس کے معنے ملامت اور سرزنش کرنے کے ہیں۔ نفس لوامہ سے مراد وہ نفس ہے جو خود اپنے اعمال کا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو ملامت کرتا رہے یعنی جو گناہ سرزد ہوا یا عمل واجب میں کوتاہی ہوئی اس پر خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا اور اعمال خیر اور حسنات کے متعلق بھی اپنے آپ کو اس پر ملامت کرے کہ اس سے زیادہ نیک کام کرکے اعلیٰ درجات کیوں نہ حاصل کئے۔ غرض مومن کامل اپنے ہر عمل خیروشر اور حسنات وسیئات میں اپنے آپ کو ہمیشہ ملامت ہی کرتا ہے۔ گناہ یا واجب میں کوتاہی پر ملامت تو ظاہر ہے حسنات اور نیک کاموں میں ملامت کی وجہ یہ ہے کہ اے نفس تو یہ نیکی اس سے زیادہ بھی تو کرسکتا تھا اس پر زیادتی سے کیوں محروم رہا۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور دوسرے ائمہ تفسیر سے منقول ہے (ابن کثیر وغیرہ) اور اسی مفہوم کیوجہ سے حضرت حسن بصری (رح) نے نفس لوامہ کی تفسیر نفس مومنہ سے کی ہے۔ اور فرمایا کہ واللہ مومن تو ہمیشہ ہر حال میں اپنے نفس کو ملامت ہی کرتا ہے۔ سیئات پر تو ظاہر ہی ہے اپنے حسنات اور نیک کاموں میں بھی وہ مقابلہ شان حق سبحانہ وتعالیٰ کے کمی اور کوتاہی محسوس کرتا ہے کیونکہ حق عبادت کو پورا ادا کرنا تو کسی کے بس میں نہیں اسلئے ادائے حق میں تقصیر اس کے سامنے رہتی ہے اس پر ملامت کرتا ہے۔
لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ ١ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔
(١۔ ٢) میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی کہ وہ ضرور ہوگی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی خواہ نیک ہو یا گناہ گار جو کہ قیامت کے دن اپنے آپ کو ملامت کرے گا۔- نیک انسان تو عذاب وثواب کا مشاہدہ کر کے کہے گا کاش میں اور نیکیاں کرتا اور بدکار کہے گا کاش میں گناہوں سے پاک صاف ہوتا۔- اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نفس نامہ ہے یا یہ کہ وہ نفس جو کہ گناہوں سے توبہ کرے اور اپنے کو اس پر ملامت کرے یا یہ کہ اس سے نفس کافر اور فاجر مراد ہے۔
آیت ١ لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۔ ” نہیں میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ “- لَا یہاں پر معترضین کے دلائل کی نفی کے لیے آیا ہے ۔ مطلب یہ کہ تمہیں تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے اور اس بنیاد پر تم لوگ وقوع قیامت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو ‘ مگر مجھے اس کے وقوع کے بارے میں اس قدر یقین ہے کہ میں اس کی قسم کھارہا ہوں۔ موقف کے موکد اور موقر ّہونے کے اعتبار سے یہ آیت سورة التغابن کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْط (آیت ٧) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتا دیا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں “۔ سورة التغابن کی اس آیت کا اسلوب اور انداز بہت پرزور ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں خارجی دلیل اور منطق کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک شخص اپنے موقف کے حق میں اپنی شخصیت اور اپنے یقین کو دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن یہ شخصیت وہ ہے جس کے قول و کردار کی سچائی کو اپنے پرائے سب نے مثالی مانا ہے اور یہی اس قول کے سچا ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے معاملے میں بھی وقوع قیامت کے دعوے کی دلیل محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے۔
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :1 کلام کی ابتدا نہیں سے کرنا خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہل مکہ انکار کرر ہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے ۔ اس طرز بیان کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں تو آپ کہیں گے خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ لیکن اگر کچھ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں تو آپ جواب میں اپنی بات یوں شروع کریں گے کہ نہیں ، خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہوں وہ صحیح نہیں ہے ، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے ۔