2۔ 1 یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا ؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔
[٢] نفس انسانی کی تین حالتیں :۔ نفس انسانی کی تین مختلف قسمیں یا حالتیں ہیں اور یہ سب قرآن کی مختلف آیات سے ثابت ہیں۔ نفس کی ابتدائی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ عموماً بری باتوں کا ہی انسان کو حکم دیتا ہے۔ اس کا مطمح نظر صرف ذاتی مفادات کا حصول، اپنی بڑائی اور اپنی کبریائی کا اظہار ہوتا ہے۔ لہذا وہ دوسروں کے حقوق و مفادات کی پروا کیے بغیر خواہشات پیدا کرتا اور ان کو پورا کرنے کے لیے انسان کو اکساتا رہتا ہے۔ نفس کی ایسی حالت کو نفس امارۃ کہا گیا ہے (١٢: ٥٣) پھر جب اس نفس کی کسی حد تک اصلاح ہوجاتی ہے تو اسے کوئی برا کام کرلینے کے بعد ایک طرح کی ندامت اور خفت کا احساس ہونے لگتا ہے تو نفس کی اس حالت کو ہی اس آیت میں نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا نفس کہا گیا ہے اور اسے ہی ہم آج کی زبان میں ضمیر کہتے ہیں۔ پھر جب نفس کی پوری طرح اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کا فرمانبردار بن جاتا ہے تو اسے برے کاموں سے نفرت اور چڑ سی ہوجاتی ہے۔ اور بھلائی کے کاموں میں ہی اس کا دل لگتا ہے۔ انہی میں وہ اپنی خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ایسے نفس کو نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (٨٩: ٢٧) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی۔ کیونکہ انسان کے نفس میں برے اور بھلے کی پوری تمیز موجود ہے۔ پھر اسی تمیز کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے۔ برے کام کا نتیجہ برا اور بھلے کام کا نتیجہ بھلا ہونا چاہیے۔ اور یہی قیامت اور آخرت کا اصل مقصد ہے۔ بالفاظ دیگر تمہارا نفس لوامہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ قیامت ضرور واقع ہونی چاہیے۔
نفس لوامہ کی تفسیر۔- حضرت ابن عباس اور حس بصری وغیرہ کی اس تفسیر پر نفس لوامہ کی قسم کھانا حق تعالیٰ کی طرف سے ایسے نفوس مومنہ کے اکرام وشرف کے اظہار کے لئے ہے جو خود اپنے اعمال کا محاسبہ کرکے کوتاہی پر نادم ہوتے اور اپنے کو ملامت کرتے ہیں۔- نفس لوامہ اور مطمئنہ۔- اور نفس لوامہ کی اس تفسیر کے مطابق یہ نفس مطمئنہ کو بھی شامل ہے لوامہ اور مطمئنہ دونوں نفسم متقی کے لقب ہیں۔- نفس امارہ، لوامہ، مطمئنہ - اور حضرات صوفیائے کرام نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ نفس اپنی جبلت و فطرت کے اعتبار سے امارة بالسو ہوتا ہے یعنی انسان کو برے کاموں کی طرف بلانے اور اسمیں مبتلا کرنے کا داعی ہوتا ہے مگر ایمان اور عمل صالح اور ریاضت و مجاہدہ سے یہ نفس لوامہ بنجاتا ہے کہ برائی اور کوتاہی پر نادم ہونے لگتا ہے مگر برائی سے بالکیہ انقطاع اس کا نہیں ہوتا۔ آگے عمل صالح میں ترقی اور قرب حق تعالیٰ کے حصول میں کوشش کرتے کرتے جب اس کا یہ حال ہوجائے کہ شریعت اس کی طبیعت بن جائے اور خلاف شرع کام طبعی نفرت بھی ہونے لگے تو اس نفس کا لقب مطمئنہ ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم
وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ ٢ ۭ- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- لوامة- وقوله : وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 2] قيل : هي النّفس التي اکتسبت بعض الفضیلة، فتلوم صاحبها إذا ارتکب مکروها، فهي دون النّفس المطمئنة وقیل : بل هي النّفس التي قد اطمأنّت في ذاتها، وترشّحت لتأديب غيرها، فهي فوق النّفس المطمئنة، ويقال : رجل لُوَمَةٌ: يَلُومُ الناسَ ، ولُومَةٌ: يَلُومُهُ الناسُ ، نحو سخرة وسخرة، وهزأة وهزأة، واللَّوْمَةُ : الْمَلَامَةُ ، واللَّائِمَةُ : الأمر الذي يُلَامُ عليه الإنسان .- اور آیت کریمہ : وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 2] اور نفس لوامہ کی قسم ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ نفسلوامہ سے مراد نفس ہے جس نے کچھ فضائل حاصل کرلئے ہوں اور کسی غلطی کے ارتکاب پر صاحب نفس کو ملامت کرے ۔ اس لحاظ سے لوامہ کا درجہ مطمئنہ سے کم ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ نفس لوامہ اس کو کہتے ہیں جو مذات خود مطمئن ہو ۔ علاوہ ازیں اس میں دوسروں کو تادیب کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوچکی ہو ۔ اس لحاظ سے یہ نفس مطمئنہ سے افضل ہوگا ۔ کرے مگر لومۃ ( بسکون واؤ ) وہ ہے جسے لوگ ملامت کرتے ہوں ۔ جیسا کہ سخرۃ وسخورۃ اور ھزءۃ وہ ھزءۃ میں فرق پایا جاتا ہے ۔ اللومۃ کے معنی ملامت کے ہیں ۔ اور لائمۃ اس فعل کو کہتے ہیں ۔ جس ارتکاب کرنے پر انسان قابل ملامت سمجھا جائے ۔ ( ل و ن )
آیت ٢ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ ۔ ” اور نہیں میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔ “- نفس ِلوامہ ّکے لغوی معنی ہیں ملامت کرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان کا وہ نفس ہے جسے ہم عرف عام میں ضمیر ( ) کہتے ہیں۔ اس آیت میں نفس لوامہ یا انسانی ضمیر کو قیام قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفس لوامہ یا ضمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان ‘ کافر یا دہریہ انکار نہیں کرسکتا۔ ” میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے “ یا ” “ جیسے جملے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں ۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کوئی غلط یا برا کام کریں تو اندر سے کوئی چیز کیوں بار بار آپ کے دل و دماغ میں چبھن پیدا کرتی ہے ؟ اور بعض اوقات اس چبھن کے تسلسل و تکرار کی وجہ سے آپ کی نیند تک کیوں اُڑ جاتی ہے ؟ اگر کوئی نیکی نیکی نہیں اور کوئی برائی برائی نہیں تو برے کام پر آپ کے اندر کی یہ چبھن یا خلش آخر آپ کو کیوں تنگ کرتی ہے ؟ چناچہ نیکی اور بدی کے الگ الگ وجود کا سب سے بڑا اور آفاقی سطح پر مسلمہ ثبوت انسانی نفس کی ملامت یا ضمیر کی خلش ہے ۔ اور اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانوں کے نیک اور برے اعمال کا حتمی اور قطعی نتیجہ نکلنا بھی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف اس حوالے سے زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ نہ تو نکلتا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دینے کے لیے ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ چناچہ قیامت ‘ آخرت یا بعث بعد الموت کی سب سے بڑی دلیل خود انسان کے اندر موجود ہے ‘ اور وہ ہے انسان کا نفس لوامہ یا اس کا ضمیر۔
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :2 قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے ۔ اس کا نام نفس امارہ ہے ۔ دوسرا وہ نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر نادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے ۔ اس کا نام نفس لوامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں ۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے ۔ اس کا نام نفس مطمئنہ ہے ۔ اس مقام پر اللہ تعالی نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اسے بیان نہیں کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے ۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالی انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر ان دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے؟ جہاں تک روز قیامت کا تعلق ہے ، اس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے ۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی ۔ اس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور نہ ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے ۔ انسان کی عقل پہلے بھی اس گمان بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے و الی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے ، لیکن جتنا اس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس ہنگامئہ ہست و بو کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا ، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا ۔ اس بنا پر اللہ تعالی نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے ، اور یہ ایسی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں شک کر رہا ہو ، خطاب کر کے کہیں کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو ، یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے ۔ لیکن روز قیامت کی قسم صرف اس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا ۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوباوہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا برا نتیجہ دیکھے گا ، تو اس کے لیے دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی گئی ہے ۔ کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو ۔ اس ضمیر میں لازماً بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے ، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط ۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے ، اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے ، وہ خود اپنے آپ کو ا پنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے ، اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے ، تو اس کے برعکس صورت میں جبکہ اسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو ، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے ۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہی نفس لوامہ زندگی کے بعد موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور برے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے ، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پورا نہیں ہو سکتا ۔ کوئی صاحب عقل آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جائے تو اس کی بہت سی بھلائیاں ایسی ہیں جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا ۔ اور اس کی بہت سی برائیاں ایسی ہیں جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا ۔ اس لیے جب تک آدمی اس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظام کائنات میں پیدا ہو گیا ہے اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں جنم لیے بیٹھا ہے جو بنیادی طور پر اپنے پورے نظام میں اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ، اس وقت تک وہ حیات بعد موت کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح تناسخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اس مطالبے کا جواب نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا و سزا کے متقاضی ہوں گے ۔ اور اس لامتناہی سلسلے میں بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چک سکے ، الٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں پورا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی صرف ایک زندگی ہو ، اور پھر پوری نوع انسانی کا خاتمہ ہو جانے کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دی جائے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 30 ) ۔
1: ملامت کرنے والے نفس سے مراد اِنسان کا وہ ضمیر ہے جو اُسے غلط کاموں پر ملامت کرتا ہے۔ نفس اِنسان کی اُس اندرونی کیفیت کا نام ہے جس میں خواہشات اور اِرادے پیدا ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے تین قسم کے نفس کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک نفسِ اَمّارہ یعنی بُرائی پر مائل کرنے والا(دیکھئے :۲۱:۵۳)۔ دوسرے نفسِ لوَّامہ جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے، اور جو اچھائی کی طرف مائل کرتا اور بُرائی پر ملامت کرتا ہے۔ تیسرے نفس مطمئنہ (دیکھئے ۸۹:۲۷)۔ اس سے مراد وہ نفس ہے جو مسلسل کوشش کر کے اچھائی پر مطمئن ہوگیا ہو، اور بُرائی کے تقاضے اُس میں یا تو پیدا ہی نہ ہوتے ہوں، یا بہت کمزور ہوگئے ہوں۔ یہاں اﷲ تعالیٰ نے نفسِ لوَّامہ کی قسم کھائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسام کی طبیعت میں اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسا مادّہ رکھا ہے۔ جو اُسے بُرائی پر ملامت کرتا رہتا ہے۔ اِنسان کو غور کرنا چاہئے کہ یہ ملامت کرنے والی چیز جو خود اُس کے وجود میں رکھی ہوئی ہے، خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس ذات نے اُسے پیدا کیا ہے، اُس نے ساتھ ساتھ اُس کو ایک تنبیہ کرنے والا وجود عطا فرما دیا ہے۔ اگر آخرت آنے والی نہ ہوتی، اور اِنسان کو اُس کے اچھے بُرے اعمال کا بدلہ ملنے والا نہ ہوتا تو اس نفس لوَّامہ کی کیا ضرورت تھی۔