Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال وحرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے مجملات کی توضیح جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سمجھائی ہوئی باتیں ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخر میں فرمایا ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ فکر بھی اپنے اوپر نہ رکھیں کہ نازل شدہ آیات کا صحیح مفہوم اور مراد کیا ہے اس کا بتلانا سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے ہم قرآن کے ہر ہر لفظ اور اس کی مراد کو آپ پر واضح کردیں گے۔ ان چار آیتوں میں قرآن اور اس کی تلاوت وغیرہ کے متعلقہ احکام بیان کرنے کے بعد آگے پھر قیامت کے احوال واہوال ہی کا بقیہ تذکرہ آتا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چار آیتوں کا اگلی پچھلی آیتوں سے ربط اور جوڑ کیا ہے۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں اس کا ربط یہ بیان کیا گیا ہے کہ چار آیتوں سے پہلے جو قیامت کے حالات میں اس کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ ایک ایک انسان کو جس کیفیت جس شکل و صورت میں وہ پہلے تھا اسی میں دوبارہ پیدا فرمادیں گے یہانتک کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو اور ان پر بنے ہوئے امتیازی خطوط و نشانات کو بھی بالکل پہلے جیسا بنا دینگے اس میں سر موفرق نہ ہوگا یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ ذات حق تعالیٰ کا علم بھی بےانتہاء ہے اور اس کا احصار اور محفوظ رکھنا بھی بےمثال ہے۔ اس کی مناسب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار آیتوں میں یہ تسلی دی گئی کہ آپ تو بھول بھی سکتے ہیں نقل میں غلطی کا بھی امکان ہوسکتا ہے مگر حق تعالیٰ ان سب سے بالا و برتر ہیں ان چیزوں کی ذمہ داری خود حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے اس لئے آپ قرآن کے کلمات کو محفوظ رکھنے یا ان کے معافی سمجھنے میں غور کرنے کی زحمت چھوڑ دیں، یہ سب کام حق تعالیٰ خود انجام دیں گے۔ آگے پھر قیامت کے حالات کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝ ١٩ ۭ- البیان - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- ( ب ی ن ) البین - - البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢١) اور پھر اس کے حلال و حرام اوامرو نواہی کا بیان کردینا بھی ہمارے ذمہ ہے ہرگز ایسا نہیں بلکہ تم دنیا کے لیے کام کرتے ہو اور ثواب آخرت کے لیے کام کرنے کو چھوڑ بیٹھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ ۔ ” پھر ہمارے ہی ذمے ہے اس کو واضح کردینا بھی۔ “- قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورة النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے : یَسْتَفْتُوْنَکَ… (آیت ١٢٧ اور آیت ١٧٦) کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں ‘ تو انہیں بتائیں کہ اگر انہیں اس بات کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ اس معاملے کی مزید وضاحت کردیتا ہے۔ چناچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبان رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے : وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَـیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ (النحل : ٤٤) کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے یہ ذکر آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کو واضح کردیں لوگوں کے لیے کہ ان پر کیا کچھ نازل ہوا ہے۔ یعنی اگر قرآن کے سمجھنے میں لوگوں کو کہیں کوئی ابہام یا اشکال محسوس ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی وضاحت کردیا کریں اور اگر انہیں کہیں کوئی حکم اجمال کے پردے میں لپٹا نظر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تفصیل بیان کردیا کریں۔۔۔۔ آئندہ آیات میں خطاب کا رخ اور کلام کا آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :13 اس سے گمان ہوتا ہے ، اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اس گمان کا اظہار کیا ہے ، کہ غالباً ابتدائی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کے دوران ہی میں قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف ہدایت کی گئی کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں ، اور نہ صرف اطمینان دلایا گیا کہ اس کا لفظ لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اسی طرح پڑھ سکیں گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے ، بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدعا بھی پوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا ۔ یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصولی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنہیں اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو ان گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج بھی پھیلا رہے ہیں ۔ اولاً ، اس سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین ، اس کے اشارات ، اس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم و مدعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا ۔ لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالب قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہرحال الفاظ قرآن کے ماسوا تھی ۔ یہ وحی خفی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے ( قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب سنت کی آئینی حیثیت میں صفحات 94 ۔ 95 ۔ اور صفحات 118 تا 125 میں پیش کر دیے ہیں ) ۔ ثانیاً ، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے احکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تھی آخر اسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھائیں اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھائیں ۔ اگر یہ اس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں تو یہ ایک بےکار کام تھا ، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں اس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی ۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تشریحی علم سرے سے کوئی شریعی حیثیت نہ رکھتا تھا ۔ اللہ تعالی نے خود سورہ نحل آیت 44 میں فرمایا ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ۔ اور اے نبی ، یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ 40 ) ۔ اور قرآن میں چار جگہ اللہ تعالی نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اس کی تعلیم دینا بھی تھا ۔ ( البقرہ ، آیات 129 و 151 ، آل عمران ، 164 ۔ الجمعہ ، 2 ۔ ان سب آیات کی تشریح ہم سنت کی آئینی حیثیت میں صفحہ 74 سے 77 تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں ) ۔ اس کے بعد کوئی ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند ، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے فرما دی ہے ، کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں ہے بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے ۔ اس کو چھوڑ کر یا اس سے ہٹ کر جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیان کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحب ایمان آدمی نہیں کر سکتا ۔ ثالثاً ، قرآن کا سرسری مطالعہ بھی اگر کسی شخص نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک عربی داں آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مدعا کیا ہے اور ان میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے ۔ مثال کے طور پر لفظ صلوۃ ہی کو لے لیجئے ۔ قرآن مجید میں ایمان کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے تو وہ صلوۃ ہے ۔ لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعین نہیں کر سکتا ۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد غالباً کوئی خاص فعل ہے جسے انجام دینے کا اہل ایمان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ لیکن صرف قرآن کو پڑھ کر کوئی عربی داں یہ طے نہیں کر سکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلم کو مقرر کر کے ا پنی اس اصطلاح کا مفہوم اسے ٹھیک ٹھیک نہ بتایا ہوتا اور صلوۃ کے حکم کی تعمیل کرنے کا طریقہ پوری وضاحت کے ساتھ اسے نہ سکھا دیا ہوتا تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دنیا میں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکم صلوۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان نسل در نسل ایک ہی طرح جو نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں ، اور دنیا کے ہر گوشے میں کروڑوں مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں عمل کر رہے ہیں ، اس کی وجہ یہی تو ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی آپ کو پوری طرح سمجھا دیا تھا ، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ ان سب لوگوں کو دیتے چلے گئے جنہوں نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا ۔ رابعاً ، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امت کو دی ، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنت کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں ۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا ، جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں ، اور بعد کی نسلوں نے اگلی نسلوں میں اس پر عملدرآمد ہوتے بھی دیکھا ۔ اس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کرتا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے ثم ان علینا بیانہ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمہ داری لی تھی اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا ، کیونکہ یہ ذمہ داری محض رسول کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھانے کے لیے نہیں لی گئی تھی ، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسول کے ذریعہ پوری امت کو کتاب الہی کا مطلب سمجھایا جائے ، اور حدیث و سنت کے ماخد قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے کہ اللہ تعالی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکا ہے ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ اس کے جواب میں جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی تو لی تھیں اس سے ہم کہیں گے کہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغاز اسلام میں پوری امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو ۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا ؟ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اس امت نے اول روز سے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاک نے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے ، اور جتنا جتنا غلط باتوں کے اس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اس امت کے خیر خواہ اس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیز کیا جائے ۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا ، سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آ کر حدیث و سنت کو ناقابل اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یعنی آیاتِ کریمہ کی تشریح بھی ہم آپ کے قلب مبارک میں محفوظ کردیں گے۔