Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی یوم قیامت کو جھٹلانا اور حق سے اعراض، اسلئے ہے کہ تم نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت تمہیں بالکل فراموش ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] اس جملہ معترضہ کے بعد اب پھر اصل مضمون کا تسلسل شروع ہو رہا ہے۔ کافروں کے انکار آخرت کی ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ آخرت کا اقرار کرکے اپنے آپ پر پابندی لگا لینا گوارا نہیں کرتے۔ ان دو آیات میں آخرت کے انکار کی دوسری وجہ بیان کی گئی ہے کہ تم لوگ صرف نقد بہ نقد سودا کے گاہک ہو، تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ایسا کام کرو جس کا عوض اسی دنیا میں مل جائے اور جن کاموں کا اجر آخرت میں ملنے کی توقع ہو ان کاموں کو تم نظر انداز کردیتے ہو۔ عوضانہ ادھار بھی ہو اور تمہارے خیال کے مطابق غیر یقینی بھی ہو تو پھر تم آخرت کو دنیا پر کیونکر ترجیح دے سکتے ہو ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۝ ٢١ ۭ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ۔ ” اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ “- یہاں خطاب کا رخ کفار کی طرف ہے ۔ یعنی تمہارا اصل مرض ہی یہ ہے کہ تم لوگ ” حب ِعاجلہ “ میں مبتلاہو ‘ اپنی دنیا کی زندگی اور دنیا کے مال و اسباب سے محبت کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں آخرت کو بالکل ہی نظر انداز کیے ہوئے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :15 یہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے ۔ پہلی وجہ آیت نمبر 5 میں بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کھلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہیں ، اس لیے دراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر ابھارتی ہیں اور پھر وہ عقلی دلیلیں بگھارتا ہے تاکہ اپنے اس انکار کو معقول ثابت کرے ۔ اب دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ منکرین آخرت چونکہ تنگ نظر اور کوتاہ ہیں اس لیے ان کی نگاہ میں ساری اہمیت انہی نتائج کی ہے جو اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے جو آخرت میں ظاہر ہونے والے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو فائدہ یا لذت یا خوشی یہاں حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں ساری محنتیں اور کوششیں کھپا دینی چاہیں کیونکہ اسے پا لیا تو گویا سب کچھ پا لیا ، خواہ آخرت میں اس کا انجام کتنا ہی بڑا ہو ۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج و غم یہاں پہنچ جائے وہی دراصل بچنے کے قابل چیز ہے ، قطع نظر اس سے کہ اس کی برداشت کر لینے کا کتنا ہی بڑا اجر آخرت میں مل سکتا ہو ۔ وہ نقد سودا چاہتے ہیں ۔ آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں نہ کسی نقصان کو گوارا کر سکتے ہیں ۔ اس انداز فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں کرتے ہیں تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ انداز فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہرحال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں ماننا ہے ، خواہ اندر سے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ آخرت کے امکان و قوع اور وجوب کی دلیلیں قرآن میں دی گئی ہیں وہ نہایت معقول ہیں اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں وہ نہایت بودا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani