وجوہ یومئذ ناضرۃ…:” ناضرۃ “ ’ نضر الوجہ والشجر واللون “ (ن، ک، س) چہرے یا درخت یا رنگ کا ترو تازہ ، خوبصورت اور بارونق ہونا۔ معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا اور اس خوشی میں ان کے چہرے ترو تازہ اور چمک رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں انسان ہوں یا حیوان، نباتات ہوں یا جمادات، ایسا ایسا حسن و جمال ہے جسے دیکھ کر خوشی سے چہروں پر تازگی اور رونق آجاتی ہے۔ جب حسن و جمال کے خلاق کی ذات کو دیکھیں گے تو ان کی خوشی اور ان کے چہروں کی تازگی کا کیا ٹھکانا ہوگا حقیقت یہ ہے کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہی یہ ہوگی کہ جنتی اپنی آنکھوں سے اپنے رب تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ صہیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا دخل اھل الجنۃ الجنۃ قال یقول اللہ تبارک و تعالیٰ تریدون شیائاً ازیدکم ؟ فیقولون الم تبض وجودھنا ؟ الم تدخلنا الجنۃ وتنجنا من النار ؟ قال فیکشف الحجاب فما اعطوا شیئاً احب الیھم من النظر الی ربھم عزو جل، ثم تلاھذہ الآیۃ :(للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ) (مسلم ، الایمان، باب اثبات رویۃ المومنین…: ١٨١)” جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تابرک و تعالیٰ فرمائے گا :” تمہیں کوئی چیز چاہیے جو میں تمہیں مزید عطا کروں ؟ “ وہ کہیں گے :” کیا تو نے ہمارے چہروں کو سفید نہیں کیا ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور آگ سے نجات نہیں دی ؟ “ فرمایا :” پھر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور انہیں کوئی بھی چیز نہیں دی گئی ہوگی جو انہیں اپنے رب کو دیکھنے سے زیادہ پیاری ہو۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی :(للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ ) (یونس : ٢٦) ” جن لوگوں نے اچھے اعمال کئے ان کے لئے اچھا اجر ہے اور مزید بیھ (مزید سے رب تعالیٰ کا دیدار مراد ہے۔ ) “- جریر بن عبداللہ (رض) سے ریات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انکم سترون ربکم عیانا) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ :(وجوہ یومئذ ناضرۃ…): ٨٣٣٥)” تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے۔ “ ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا :” یا رسول اللہ کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ھل تض اورن فی القمر لیلۃ البدر ؟ قالوا لا یا رسول اللہ قال فھل تض اورن فی الشمس لیس دونھا سحاب ڈ قالوا لا یا رسول اللہ قال فانکم ترونہ کذلک) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ (وجو یومئذ ناظرۃ…): ٨٣٣٨۔ مسلم : ١٨٢)” کیا تمہیں چودھویں کا چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ “ انہوں نے کہا : ” نہیں اے اللہ کے رسول “ فرمایا :” کیا تمہیں سورج دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے جس کے سامنے بادل کی رکاوٹ بھی نہ ہو ؟ “ انہوں نے کہا :” نہیں، اے اللہ کے رسول “ فرمایا :”(یقین رکھو کہ) تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے۔ “ قرآن مجید میں فاجر لوگوں کے متعلق فرمایا :(کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) (المطففین : ١٥)” ہرگز نہیں، بیشک وہ اس دن اپنے رب سے حجاب میں رکھے جائیں گ۔ “ اللہ تعالیٰ ن ان کے دیدار الٰہی سے محروم رکھے جانے کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اگر ابرار کو بھی اس دن رب کا دیدار نہ ہوا تو ان میں اور فجار میں کیا فرق رہا بڑے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اتنی واضح آیات و احادیث کے باوجود قیامت کے دن دیدار الٰہی کے منکر ہیں۔ اس کا انکار بدلا یہی ہے کہ انہیں قیامت کے دن اس سب سے بڑی نعمت سے محروم ہی رکھا جائے۔
وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ- ناضرة بمعنے ترو تازہ یعنی اس روز کچھ چہرے ہشاش بشاش تروتازہ ہوں گے۔ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ یعنی یہ چہرے اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے، اس سے ثابت ہوا کہ آخرت میں اہل جنت کو حق تعالیٰ کا دیدار بچشم سر نصیب ہوگا اس پر اہل سنت والجماعت اور سب علما وفقہا کا اجماع ہے، صرف معتزلہ اور خوارج منکر ہیں۔ وجہ انکار کی فلسفیانہ شبہات ہیں کہ آنکھ سے دیکھنے کے لئے دیکھنے والے اور جس کو دیکھاے جائے اور ان دونوں کے درمیان مسافت کے لئے جو شرائط ہیں خالق و مخلوق کے درمیان ان کا تحقیق نہیں ہوسکتا۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کی رویت وزیارت ان سب شرائط سے بےنیاز ہوگی نہ کسی جہت اور سمت سے اس کا تعلق ہوگا نہ کسی خاص شکل و صورت اور ہیت سے۔ روایات حدیث سے یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے ثابت ہے، البتہ اس روایت وزیارت میں اہل جنت کے مختلف درجات ہوں گے، بعض کو یہ زیارت ہفتہ وار جمعہ کو حاصل ہوگی بعض کو روزانہ صبح شام اور بعض کے لئے یہ ہر وقت ہر حال میں رہے گی (مظہری)
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ ٢٢ ۙ- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- نضر - النَّضْرَةُ : الحُسْنُ کالنَّضَارَة، قال تعالی: نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] أي : رَوْنَقَهُ. قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] ونَضَرَ وجْهُه يَنْضُرُ فهو نَاضِرٌ ، وقیل : نَضِرَ يَنْضَرُ. قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] ونَضَّرَ اللَّهُ وَجْهَهُ. وأَخْضَرُ نَاضِرٌ: غُصْنٌ حَسَنٌ. والنَّضَرُ والنَّضِيرُ : الذَّهَبُ لِنَضَارَتِهِ ، وقَدَحٌ نُضَارٌ:- خَالِصٌ کالتِّبْرِ ، وقَدَحُ نُضَارٍ بِالإِضَافَةِ : مُتَّخَذٌ مِنَ الشَّجَرِ.- ( ن ض ر ) النضرۃ والنضارۃ کے معنی حسن اور ترو تازگی کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کرلو گے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور خوشدلی عنایت فر مائے گا ۔ اور یہ نضر وجھہ ینضر فھوا ناضر ( نصر ) سے آتا ہے ۔ اور بعض نے نضر ینضر یعنی باب علم سے مانا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] اسروز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے اور اپنے پروردگار کے محو دید ار ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کو ترو تازہ ( یعنی خوش وخرم رکھے ۔ غصبن اخضر وناضر تر تازہ ٹہنی اور سونے کو بھی اس کی تر وتازگی اور حسن کے باعث نضر ونضیر کہا جاتا ہے وتدح نضا ر را ضافت کے ساتھ پیالہ کو کہتے ہیں جو عمدہ لکڑی سے بنا ہوا ہو ۔
(٢٢۔ ٢٥) سچے مومنوں کے چہرے تو قیامت کے دن بارونق اور چمکدار ہوں گے اور اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کافروں اور منافقوں کے چہرے قیامت کے دن بےرونق ہوں گے اور دیدار خداوندی سے محروم رہیں گے اور سمجھیں گے کہ ان پر سخت عذاب نازل کیا گیا ہے۔
آیت ٢٢ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ۔ ” بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ “- ان آیات میں اب میدانِ محشر میں موجود لوگوں کی کیفیت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کے مطابق اپنے نتیجے کا پہلے سے ہی علم ہوگا ۔ جیسے سکول میں اعلانِ نتائج کے موقع پر کچھ بچے پہلے سے مطمئن اور کچھ پہلے سے پریشان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر بچہ اپنے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے امتحان میں کیا کچھ کیا تھا۔
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :16 یعنی خوشی سے دمک رہے ہونگے ، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھے وہ ٹھیک ان کے یقین کے مطابق سامنے موجود ہو گی ، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور برحق نقصان برداشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں کے سامنے برپا ہوتے دیکھ کر انہیں یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے رویہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں گے ۔