Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہونگے۔ مذید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہونگیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] دیدار الہٰی میں لذت وسرور :۔ بیشمار احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ایمانداروں کو آخرت میں اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ وہ اس کو اسی طرح بےتکلف دیکھ سکیں گے جس طرح چاند کی طرف دیکھتے ہیں۔ البتہ کافر اور فاجر لوگ اللہ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ (٨٣: ١٥) - خ دیدار الہٰی سب سے بڑی نعمت ہے :۔ کتاب و سنت میں یہ بھی صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر اور بڑی نعمت ہوگا اور اس دیدار میں کچھ ایسا کیف و سرور حاصل ہوگا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا جنتی اور کسی نعمت کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ بلکہ ٹکٹکی باندھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کلام کیا تو اس کلام میں بھی اتنی لذت تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ یہ گفتگو کے لمحات جس قدر ممکن ہو طویل سے طویل تر ہوسکیں۔ اور دیدار میں تو بہرحال سماعت سے بہت زیادہ لذت ہونا یقینی ہے۔- خ عقل پرستوں کی تاویلات :۔ بعض عقل پرستوں نے دیدار الٰہی سے متعلقہ آیات کی بھی تاویل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس طرح اللہ کے لئے ایک مخصوص جہت متعین کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جہات اور مکان کی حدود سے ماوریٰ ہے۔ ہم ان دوستوں سے یہی عرض کریں گے کہ آپ کو کس نے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ تمام آیات اور صفات الٰہی کو اپنی عقل کے مطابق کرکے چھوڑیں۔ جو بات آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اس میں آپ کیوں مداخلت بےجا کرتے ہیں۔ راہ صواب یہی ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول نے کہی ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیا جائے۔ صفات الٰہی میں عقل انسانی کی مداخلت سے گمراہی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ مومنوں کے چہرے کس وجہ سے تروتازہ ہوں گے تو اس کی ایک معقول وجہ تو یہی دیدارِ الٰہی کی نعمت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کے تمام تر حالات ان کی توقعات کے مطابق واقع ہوں گے۔ اس پر وہ اتنے خوش ہوں گے کہ ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۝ ٢٣ ۚ- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ۔ ” اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “- بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے کہ رویت ِ باری تعالیٰ میدانِ حشر میں نہیں ہوگی ‘ بلکہ اہل جنت ‘ جنت میں داخلے کے بعد جس سب سے بڑی نعمت سے سرشار ہوں گے وہ دیدارِ الٰہی ہوگی۔ لیکن کچھ علماء کا خیال ہے اور میری رائے بھی یہی ہے کہ اہل ایمان کو میدانِ محشر میں بھی کسی نہ کسی درجے میں رویت باری تعالیٰ سے مشرف کیا جائے گا۔ سورة المُطَفِّـفِیْن میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :17 مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اس سے توقعات وابستہ کرنے ، اس کے فیصلے کا انتظار کرنے ، اس کے کرم کا امیدوار ہونے کے معنی میں بولے جاتے ہیں ، حتی کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہیں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے ۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا ۔ بخاری کی روایت ہے کہ انکم سترون ربکم عیانا ۔ تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے ۔ مسلم اور ترمذی میں حضرت صہیب کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دوں؟ وہ عرض کریں گے کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور جہنم سے بچا نہیں لیا ؟ اس پر اللہ تعالی پردہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ للذین احسنو الحسنی و زیادۃ ۔ یعنی جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ۔ ( یونس ۔ 26 ) ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہو؟ لوگوں نے عرض کیا ، نہیں ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری و مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے ۔ مسند احمد ، ترمذی ، دار قطنی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، طبرانی ، بہیقی ، ابن ابی شیبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہل جنت میں سے کم درجے کا جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وسعت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا ، اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھں گے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی کہ اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ، پھر جب تک اللہ ان سے پردہ نہ فرما لے گا اسوقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے ۔ اور اسی کی طرف دیکھتے رہیں گے ۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہل السنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہل جنت اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف ہوں گے ۔ اور اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کلا انھم عن ربھم یومیذ لمحجوبون ہر گز نہیں ، وہ ( یعنی فجار ) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ۔ ( المطففین ۔ 15 ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فجار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت ، مقام ، شکل اور رنگ میں سامنے موجود ہو ، روشنی کی شعاعیں اس سے منعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کی تصویر منتقل ہو ۔ کیا اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اس طرح قابل دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے ۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی وہ خاص صورت جس سے ہم اس دنیا میں آشنا ہیں ۔ دیکھنے کی حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بینائی کی صفت موجود ہو ، وہ نابینا نہ ہو ، اور دیکھی جانے والی چیز اس پر عیاں ہو ، اس سے مخفی نہ ہو ۔ لیکن دنیا میں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس سے کوئی انسان یا حیوان بالفعل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے ، اور اس کے لیے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو ، اس عضو میں بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو ، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے ۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے ، ورنہ در حقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتائے کہ اس کا خدا بینا ہے نابینا ؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں اور اس سے بینائی کے فعل کا صدور اسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہل جنت کو اللہ تعالی کا دیداد اس مخصوص شکل میں نہیں ہو گا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے ، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہوگی جس کا ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے؟ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے ، حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سے سابقہ پیش آنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: مؤمنوں کو جنت میں اﷲ تعالیٰ کا دِیدار بھی نصیب ہوگا جو جنت کی تمام دوسری نعمتوں سے بڑی نعمت ہوگی۔