24۔ 1 یہ کافروں کے چہرے ہونگے سیاہ اور بےرونق۔
ووجوہ یومئذ باسرۃ…:” باسرۃ “ ” یسر یسر بسوراً “ (ن) تیوری چڑھانا، منہ بگاڑنا، ” فاقرۃ “ وہ سختی جو کمر توڑ دے۔ یہ ” ففرات الظھر “ سے نکلا ہے جس کے معنی ” پیٹھ کے مہرے “ ہیں۔ کہا جاتا ہے : ” ففرت الرجل “ ” میں نے اس آدمی کی پیٹھ کے مہرے توڑ دیئے۔ “
وَوُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَۃٌ ٢٤ ۙ- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- بسر - البَسْرُ : الاستعجال بالشیء قبل أوانه، نحو : بَسَرَ الرجل الحاجة : طلبها في غير أوانها، وبَسَرَ الفحل الناقة : ضربها قبل الضّبعة وماء بُسْر : متناول من غدیره قبل سکونه، وقیل للقرح الذي ينكأ قبل النضج : بُسْر، ومنه قيل لما لم يدرک من التمر : بُسْر، وقوله عزّ وجل : ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] أي : أظهر العبوس قبل أوانه وفي غير وقته، فإن قيل : فقوله :- وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة 24] ليس يفعلون ذلک قبل الوقت، وقد قلت : إنّ ذلك يقال فيما کان قبل الوقت قيل : إنّ ذلك إشارة إلى حالهم قبل الانتهاء بهم إلى النار، فخصّ لفظ البسر، تنبيها أنّ ذلک مع ما ينالهم من بعد يجري مجری التکلف ومجری ما يفعل قبل وقته، ويدل علی ذلک قوله عزّ وجل : تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِها فاقِرَةٌ [ القیامة 25] .- ( ب س ر ) البسر کے معنی کسی چیز کو قبل از وقت جلدی لے لینا کے ہیں جیسے بسرالرجل الحاجۃ ( اس نے قبل از وقت اپنی ضرورت کو طلب کیا ) بسر الفحل الفحل الناقۃ ( مادہ کی خواہش کے بغیر اونٹ نے اس سے جفتی کی ماء بسر بارخن کا تازہ پانی جو زمین پر گرنے سے پہلے ہی لے لیا جائے بسر القرح پھوڑے کو پکنے سے پہلے پھوڑدینا اسی سے گدری کھجور کو بسر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑلیا ۔ میں بسر کے معنی قبل از وقت منہ بگاڑنے کے ہیں اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اگر بسر کے یہی معنی ہیں آیت : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة 24] اور بہت سے منہ اس دن اداس ہوں گے ہیں باسرۃ کے کیا معنی ہوں گے کیونکہ وہاں تو قبل از وقت منہ بگاڑنا نہیں ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ چوں کہ ان کی یہ حالت آگ میں داخل ہونے سے قبل ہوگی اس لئے باسرۃ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ گویا آگ میں پہنچنے سے قبل ان کا منہ بگاڑنا محض تکلف اور قبل از وقت ہوگا جیسا کہ بعد کی آیت تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِها فاقِرَةٌ [ القیامة 25] خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے والی ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔