Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہاں موت کا اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت حق پر ثابت قدم رکھے ۔ ( کلا ) کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ اے ابن آدم تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات تو تو روزمرہ کھلم کھلا دیکھ رہا ہے اور اگر اس لفظ کو ( حقا ) کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے اور تیرے نرخرے تک پہنچ جائے ( تراقی ) جمع ہے ( ترقوۃ ) کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو سینے پر اور مونڈھوں کے درمیان میں ہیں جسے ہانس کی ہڈی کہتے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے ( فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ 83۝ۙ ) 56- الواقعة:83 ) فرمایا ہے یعنی جبکہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم دیکھ رہے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے پس اگر تم حکم الٰہی کے ماتحت نہیں ہو اور اپنے اس قول میں سچے ہو تو اس روح کو کیوں نہیں لوٹا لاتے؟ اس مقام پر اس حدیث پر بھی نظر ڈال لی جائے جو بشر بن حجاج کی روایت سے سورہ یٰسین کی تفسیر میں گذر چکی ہے ، ( تراقی ) جو جمع ہے ( ترقوہ ) کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو ( حلقوم ) کے قریب ہیں اس وقت ہائی دہائی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کرے یعنی کسی طبیب وغیرہ کے ذریعہ شفا ہو سکتی ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے یعنی اس روح کو لے کر کون چڑھے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟ اور پنڈلی سے پنڈلی کے رگڑا کھانے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے مگر جس پر رب رحیم کا رحم و کرم ہو ، دوسرا مطلب حضرت عکرمہ سے یہ مروی ہے کہ ایک بہت بڑا امیر دوسرے بہت بڑے امیر سے مل جاتا ہے بلا پر بلا آجاتی ہے ، تیسرا مطلب حضرت حسن بصری وغیرہ سے مروی ہے کہ خود مرنے والے کی بےقراری ، شدت درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جانا مراد ہے ۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں؟ اور یہ بھی مروی ہے کہ کفن کے وقت پنڈلی سے پنڈلی کا مل جانا مراد ہے ، چوتھا مطلب حضرت ضحاک سے یہ بھی مروی ہے کہ دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ اگر بد ہے تو نہایت ہی برائی اور بدتر حالت کے ساتھ اب لوٹنے ، قرار پانے ، رہنے سہنے ، پہنچ جانے کھچ کر اور چل کر پہنچنے کی جگہ اللہ ہی کی طرف ہے روح آسمان کی طرف چڑھائی جاتی ہے پھر وہاں سے حکم ہوتا ہے کہ اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ میں نے ان سب کو اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹا کر لے جاؤں گا اور پھر اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا ، جیسے کہ حضرات براء کی مطول حدیث میں آیا ہے ، یہی مضمون اور جگہ بیان ہوا ہے آیت ( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61؀ ) 6- الانعام:61 ) ، وہی اپنے بندوں پر غالب ہے وہی تمہاری حفاظت کے لئے تمہارے پاس فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے فوت کر لیتے ہیں اور وہ کوئی قصور نہیں کرتے پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جاتے ہیں یقین مانو کہ حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے ۔ پھر اس کافر انسان کا حال بیان ہو رہا ہے جو اپنے دل اور عقیدے سے حق کا جھٹلانے والا اور اپنے بدن اور عمل سے حق سے روگردانی کرنے والا تھا جس کا ظاہر باطن برباد ہو چکا تھا اور کوئی بھلائی اس میں باقی نہیں رہی تھی ، نہ وہ اللہ کی باتوں کی دل سے تصدیق کرتا تھا نہ جسم سے عبادت اللہ بجا لاتا تھا یہاں تک کہ نماز کا بھی چور تھا ، ہاں جھٹلانے اور منہ مڑونے میں بےباک تھا اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بےہمتی اور بدعملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ 31؀ڮ ) 83- المطففين:31 ) یعنی جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں اور جگہ ہے آیت ( انہ کان فی اھلہ مسروراً ) یعنی یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں ۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں ، پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ 49؀ ) 44- الدخان:49 ) یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا اور فرمان ہے آیت ( كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ 46؀ ) 77- المرسلات:46 ) کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو اور جگہ ہے آیت ( فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ 15؀ ) 39- الزمر:15 ) جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو وغیرہ وغیرہ غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں ۔ حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ آیت ( اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى 34؀ۙ ) 75- القيامة:34 ) ، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابو جہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے ، حضرت ابن عباس سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے ، ابن ابی حاتم میں حضرت قتادہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں ۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی ، مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے ، اسی لئے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بےجان و بےبنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی ، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا ۔ کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے؟ یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے ، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا ۔ جیسے فرمایا ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) اس نے ابتدا پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے ۔ اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورہ روم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گذر چکی واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی چھت پر بہ آواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا ( سبحانک اللھم قبلی ) یعنی اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے ، لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے ، لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں ، ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے سورہ والتین کی آخری آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ Ď۝ۧ ) 95- التين:8 ) پڑھے وہ ( بلا وانا علی ذالک من الشاھدین ) کہے یعنی ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں اور جو شخص سورہ قیامت کی آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀ۧ ) 75- القيامة:40 ) پڑھے تو وہ کہے ( بلی ) اور جو سورہ والمرسلات کی آخری آیت ( فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ 50؀ۧ ) 77- المرسلات:50 ) پڑھے وہ ( امنا باللہ ) کہے یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے ، ابن جریر میں حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے ( سبحانک وبلی ) حضرت ابن عباس سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ سورہ قیامہ کی تفسیر الحمد اللہ ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔ 26۔ 2 گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی خوب سمجھ لو کہ قیامت کا دن کچھ دور نہیں بلکہ اس کا منہ تم اس دنیا میں ہی دیکھ لو گے۔ جب تم مرنے کے قریب ہوتے ہو اور تمہاری جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے تو سمجھ لو کہ تمہارا سفر آخرت شروع ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) کلا اذا بلغت التراقی…:” بلغت “ کا فاعل ” نفس “ ہے جو محذوف ہے ، یعنی جان ہنسلیوں تک پہنچ جائیگی۔ ” التراقی “ ” ترقوۃ “ کی جمع ہے، سینے کی اوپر والی ہڈی جو گلے کے ساتھ ہے، ہنسلی۔ ” راق “ ” رفی یرفی “ (ض) سے اسم فاعل ہے، دم کرنے والا۔” ظن “ کا معنی گمان کرنا ہے، اگر اس کے بعد ” ان “ ہو تو یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔” المساق “ ” ساق یسوق سوقاً “ (ن) سے مصدر میمی ہے، ہانکنا، چلانا - (٢) ” کلا “ نہیں نہیں، یعنی تمہارا جلدی حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرنا اور آخرت کو چھوڑ دینا ہرگز درست نہیں، تمہارے سامنے کتنے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے، ان کا آخرت وقت یاد کرو جب جان پیروں سے اور تمام جسم سے نکل کر ہنسلیوں تک پہنچ جاتی ہے اور حکمیوں ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر کسی دم کرنے والے کی تلاش شروع ہوتی ہے کہ شاید دم ہی سے اچھا ہوجائے۔ ادھر بیمار کو زندگی سے ناامیدی ہوگئی اور مرنے کا گمان قوی ہوگیا ۔ پکے دنیا داروں کو جان بہت پیاری ہوتی ہے ، وہ مرنا نہیں چاہتے، آخری وقت تک ان کو زندگی کی توقع رہتی ہے، اس لئے یقین کی جگہ گمان کا لفظ فرمایا، لیکن آخر یہ گمان یوں بقین کے درجے کو پہنچ گیا کہ پاؤں کا دم نکل گیا، پنڈلیاں سوکھ کر ایک دوسرے سے لپٹ گئیں، یہاں تک کہ ٹانگوں کو کوئی دوسرا آدھی سیدھا نہ کرے تو سمٹی ہوئی ہی رہ جائیں، آخر سارے جسم میں سے کھینچ کر جان حلق میں آگئی تھی اس نے بھی جسم کو چھوڑ دیا اور پھر اس کی روانگی اس رب تعالیٰ کی طرف ہوگئی جس نے پہلے جسم میں وہ جان ڈلایھی۔ (خلاصہ احسن التفاسیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ 26؀ۙوَقِيْلَ مَنْ ۫رَاقٍ 27؀ۙوَّظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ 28؀ۙوَالْتَفَّتِ السَّاق بالسَّاقِ 29؀ۙاِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ- سابقہ آیات میں قیامت کے حساب کتاب اور اہل جنت و دوزخ کا کچھ حال بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں انسان کو متوجہ کیا گیا کہ اپنی موت کو نہ بھولے موت سے پہلے پہلے ایمان اور عمل صاحل کی طرف آجائے تاکہ آخرت میں نجات ملے۔ آیت مذکورہ میں موت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا کہ غفلت شعار انسان بھول میں رہتا ہے یہاں تک مہ موت سر پر آکھڑی ہو اور روح ترقوہ یعنی گلے کی ہنسلی میں آپھنسے اور تیمار دار لوگ دوا وعلاج سے عاجز ہو کر جھاڑ پھونک کرنے والوں کو تلاش کرنے لگیں اور ایک پاؤں کی پنڈلی دوسری پر لپٹنے لگے تو یہ وقت اللہ کے پاس جانیکا آگیا۔ اب نہ توبہ قبول ہوتی ہے نہ کوئی عمل اسلئے عقلمند پر لازم ہے کہ اس وقت سے پہلے اصلاح کی فکر کرے والْتَفَّتِ السَّاق بالسَّاق میں لفظ ساق کے مشہور معنے پاؤں کی پنڈلی کے ہیں اور پنڈلی کے ایک دوسرے پر لپٹنے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت اضطراب اور بےچینی سے ایک پنڈلی دوسری پر مارتا ہے اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ اس وقت اگر ایک پاؤں دوسرے پر رکھا ہوا ہے اور اس کو حرکت دے کر ہٹانا چاہتا ہے تو وہ اس کی قدرت میں نہیں ہوتا (کما قال الشعبی والحسن) - اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہاں دو ساقوں سے مراد دو عالم دنیا وآخرت کے ہیں اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن جمع ہوا ہے اسلئے دوہری مصیبت میں گرفتار ہے دنیا سے جدائی کا غم اور آخرت کے معاملے کی فکر۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ۝ ٢٦ ۙ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - رقی - رَقِيتُ في الدّرج والسّلم أَرْقَى رُقِيّاً ، ارْتَقَيْتُ أيضا . قال تعالی: فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] ، وقیل : ارْقَ علی ظلعک أي : اصعد وإن كنت ظالعا . ورَقَيْتُ من الرُّقْيَةِ. وقیل : كيف رَقْيُكَ ورُقْيَتُكَ ، فالأوّل المصدر، والثاني الاسم . قال تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ [ الإسراء 93] ، أي : لرقیتک، وقوله تعالی: وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة 27] ، أي : من يَرْقِيهِ تنبيها أنه لا رَاقِي يَرْقِيهِ فيحميه، وذلک إشارة إلى نحو ما قال الشاعر :- وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفعم وقال ابن عباس : معناه من يَرْقَى بروحه، أملائكة الرّحمة أم ملائكة العذاب والتَّرْقُوَةُ : مقدّم الحلق في أعلی الصّدر حيث ما يَتَرَقَّى فيه النّفس كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ- [ القیامة 26] .- ( ر ق ی ) رقی - ( س ) رقیا ۔ فی السلم کے معنی سیڑھی پر چڑھنے کے ہیں اور ارتقی ( افتعال ) بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآں میں ہے :۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر آسمان پر چڑھیں ۔ مثل مشہور ہے :۔ ارق علی ظلعک یعنی اپنی طاقت کے مطابق چلو اور طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالو ۔ اور رقیت بمعنی رقیہ یعنی افسوس کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ؛کیف رقیک اور قیتک کہ تمہارا افسوس کیسا ہے ۔ اس میں رقی مصدر ہے اور رقیۃ اسم اور آیت کریمہ : لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ [ الإسراء 93] یعنی ہم تیرے افسوں پر یقین کرنے والے نہیں ہیں ۔ میں رقی بمعنی رقیۃ کے ہے ۔ اور آیت ؛۔ وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة 27] اور کون افسوں کرے ۔ میں اسے بات پر تنبیہ ہے کہ اس وقت جھاڑ پھونک سے کوئی اس کی جان نہیں بچا سکے گا ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (190) وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفع کہ جب موت اپنا پنجہ گاڑ دیتی ہے ۔ تو کوئی افسوں کارگر نہیں ہوتا ۔ ابن عباس نے من راق کے معنی کئے ہیں کہ کونسے فرشتے اس کی روح لے کر اوپر جائیں یعنی ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب ۔ الترقوۃ ہنسلی کی ہڈی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے کہ سانس پھول کر وہیں تک چڑھتی ہے اس کی جمع تراقی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ [ القیامة 26] سنوجی جب جان بدن سے نکل کر گلے تک پہنچ جائیگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٣٠) ہرگز ایسا نہیں جب جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور حاضرین سے کہتا ہے کہ کوئی دوا دارو کرنے والا ہے یا یہ کہ فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کون اس کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے اور اس وقت مردہ یقین کرلیتا ہے کہ یہ جدائی کا وقت ہے اور دنیاوی آخری دن کی سختی آخرت کے پہلے دن کی سختی کے ساتھ مل جاتی ہے یا یہ کہ ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے اور قیامت کے دن تمام مخلوقات کو اپنے پروردگار کی طرف جانا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :18 اس ہر گز نہیں کا تعلق اسی سلسلہ کلام سے ہے جو اوپر سے چلا آ رہا ہے ، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہیں مر کر فنا ہو جانا ہے اور اپنے رب کے حضور واپس جانا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani