31۔ 1 یعنی اس انسان نے رسول اور قرآن کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی یعنی اللہ کی عبادت نہیں کی۔
(١) فلا صدق ولاصلی…:” یتمطی “ ” م ط و “ سے ” تمطی “ کا مضارع ہے۔” مطا “ کا معنی پیٹھ ہے، یعنی اکڑتا ہوا۔” اولی “ ” و ل ی “ سے اسم تفصیل ہے، زیادہ لائق، زیادہ حق دار، زیادہ قریب۔- (٢) ” فلاصدق “ (سو نہ اس نے سچ مان) میں ضمیر ” الانسان “ کی طرف جا رہی ہے جس کا اوپر ” ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ “ میں ذکر ہے ۔ یعنی یہ دیکھنے کے بعد کہ موت کے وقت انسان پر کیا گزرتی ہے اور کس طرح بےبس ہو کر اسے اپنے رب کی طرف روانہ ہوناپ ڑتا ہے، حق تو یہ تھا کہ وہ آخرت کو سچ مانتا اور اس دن کی نجات کے لئے نماز ادا کرتا اور اللہ کی زمین پر عجز و بندگی اختیار کرتا، مگر اس نے نہ قعیدہ کی اصلاح کی اور نہ عمل کی اور نہ لوگوں کے ساتھ اپنی روش درست کی، بلکہ رات کو اور پیدا کرنے والے کو جھٹلایا اور ماننے کے بجائے منہ پھیر کر چلا گیا اور عجز و بندگی اختیار کرن کے بجائے گھر گیا تو اکڑتا ہوا گیا۔- (٢) اولی لک فاولی : اس آیت کی سب سے بہتر تفسیر وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے فرمائی ہے کہ اس کافر کو جس نے اپنے خلاق سے کفر کیا اور متکبرانہ چلا چلا، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طنز اور دھمکی کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے جھٹلا دیا اور اپنے خلاق سے کفر کی جرأت کرچکا تو تیرا حق بنتا ہے کہ یہ چلا چلے اور یہی چال تیرے لائق ہے۔ ہم تمہاری چال دیکھ رہے ہیں اور تمہیں اس کا نتیجہ مل جائے گا، جیسا کہ فرمایا، (کلوا وتمثعوا قلیلاً انکم مجرمون) (المرسلات : ٣٦)” کھاؤ اور فائدہ اٹھاؤ، تھوڑا، یقیناً تم مجرم ہو۔ “ اور فرمایا :(کلوا وتمتعوا قلیلاً انکم مجرمون) (المرسلات : ٣٦)” کھاؤ اور فائدہ اٹھاؤ، تھوڑا یقینا تم مجرم ہے۔ “ اور فرمایا :(فاعبدوا ماشئتم من دونہ) (الزمر : ١٥)” اس اللہ کے علاوہ جس کی چاہو عبادت کرتے رہو۔ “ اور فرمایا :(اعملوا ما شئتم) (المومن : ٣٠)” تم جو چاہو کرو۔ “” اولی لک فاولی ثم اولی لک فاولی “ میں تکرار مزید وعید کیلئے ہے۔ یہ معنی اس لئے بھی بہتر ہے کہ ” اولی “ کا معنی ” زیادہ لائق، زیادہ حق دار “ معروف ہے۔ - (٤) بہت سے مفسرین نے ” اولی لک “ کا معنی ” خرابی ہے تیرے لئے، افسوس ہے تیرے لئے ہلاکت ہے تیرے لئے “ کیا ہے، کیونکہ ” اولی لک “ کلام عرب میں د ’ ویل لکذ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ معنی ” اولی لک “ کا لفظی معنی نہیں ہے لفظی معنی ” زیادہ لائق ، زیادہ حق دار “ ہی ہے، کیونکہ ” اولی “ کے حروف اصلی ” ول ی “ ” و ی ل ‘ ‘ نہیں ، بلکہ یہ معنی مرادی ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ موقع و محل کے مطابق ” اولی لک “ کا مبتدا ” الھلاک “ یا ” النار “ محذوف مانا جائے، یعنی ہلاکت ہی یرے زیادہ لائق ہے، یا آگ ہی تیرے زیادہ لائق ہے۔
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى ٣١ ۙ- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔
(٣١۔ ٣٣) اور اس ابو جہل نے نہ وحدانیت خداوندی کی تصدیق کی تھی اور نہ اسلام قبول کرکے نمازیوں میں سے ہوا تھا لیکن توحید کو جھٹلایا تھا اور ان سے منہ موڑا تھا اور پھر تکبر کرتا اور ناز کرتا ہوا دنیا میں اپنے گھر چل دیتا تھا۔
12: یہ کسی خاص کافر کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے، اور کافروں کی عام حالت کا تذکرہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اتنے واضح دلائل کے سامنے آنے کے بعد بھی ماننے کے بجائے تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔