Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی انسان کو اس طرح مختلف اطوار سے گزار کر پیدا فرماتا ہے کیا مرنے کے بعد دوبارہ اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یعنی رحم مادر میں نطفہ سے انسان کی تخلیق تک کے اطوار پھر ان کی زوجین میں مناسب تقسیم سے انسان بخوبی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جو پروردگار اتنی قدرتوں کا مالک ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ان دلائل کے بعد بھی جو انسان دوبارہ زندگی کا انکار کرتا ہے تو اس کا یہ انکار ہٹ دھرمی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ نیز حدیث میں ہے کہ جب آپ یہ آیت تلاوت فرماتے تو بعد میں سبحانک اللھم بلٰی فرماتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى- یعنی کیا وہ ذات حق جس کے قبضہ قدرت میں موت وحیات اور سارا جہان ہے کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کردے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص سورة قیامہ کی اس آیت کی تلاوت کرے تو اس کو یہ کلمات کہنا چاہئے بلی وانا علی ذلک من الشھدین۔ یعنی بلاشبہ وہ اس پر قادر ہے اور میں بھی ان لوگوں میں داخل ہوں جو اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اس حدیث میں یہی الفاظ سورة والتین کی آخری ( آیت) الیس اللہ باحکم الحکمین پڑھنے کے وقت بھی کہنے کی تعلیم کی دی گئی ہے اور اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ جو شخص سورة مرسلت کی اس آیت پر پہنچے فبالی حدیث، بعدہ یومنوں تو اس کو امنا باللہ کہنا چاہئے۔- تمت سورة القیمة بحمد اللہ ٧٢ رجب ١٩٣١

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى۝ ٤٠ ۧ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی ۔ ” تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ُ مردوں کو زندہ کردے ؟ “- کیا تم لوگ جانتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گندے پانی کی بوند سے پیدا کیا ہے ؟ اولادِ آدم (علیہ السلام) میں سے افلاطون ‘ بقراط اور سقراط کی تخلیق بھی اسی بوند سے ہوئی اور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ بھی ایسے ہی پیدا ہوئے۔ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے استثناء کے علاوہ نسل انسانی کے تمام افراد اللہ تعالیٰ نے اسی طریقے سے پیدا کیے۔ اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِط (قٓ: ١٥) ” تو کیا پہلی مرتبہ تم لوگوں کو پیدا کرنے کے بعد اب ہم عاجز آگئے ہیں ؟ “ تو اے عقل کے اندھو کیا تم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو ذات پانی کی ایک بوند سے زندہ سلامت ‘ خوبصورت ‘ بہترین صلاحیتوں کے مالک انسان کو پیدا کرسکتی ہے ‘ کیا وہ مردہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوگی ؟ اس آیت کا انداز چونکہ سوالیہ ہے اس لیے اسے سن کر یا پڑھ کر ہماری زبانوں پر بےساختہ یہ الفاظ آجانے چاہئیں : ” کیوں نہیں اے ہمارے پروردگار تیری ذات پاک ہے۔ ہم گواہ ہیں کہ تو ُ مردوں کو زندہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ “- متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس آیت کو پڑھتے تو اس سوال کے جواب میں کبھی بَلٰی (کیوں نہیں ) اور کبھی سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ فَـبَلٰی (پاک ہے تیری ذات ‘ اے اللہ کیوں نہیں ) جیسے الفاظ فرمایا کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :25 یہ حیات بعد موت کے امکان کی دلیل ہے ۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق کا آغاز کر کے پورا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالی ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں ، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی برتیں ، ان کی عقل یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کر تا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے ۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں وہ اگر ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغاز آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کرنے کے لیے آدمی کو کم از کم اتنا بے شرم ہونا چاہیے کہ وہ اٹھ کر بے تکلف ایک روز یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الروم ، حواشی 27 تا 30 ۔ جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ 77 ) ۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالی کے اس سوال کے جواب میں کبھی بلی ( کیوں نہیں ) ، کبھی سبحنک اللھم فبلی ( پاک ہے تیری ذات ، خداوندا ، کیوں نہیں ) اور کبھی سبحانک فبلی یا سبحانک و بلی فرمایا کرتے تھے ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابو داؤود ) ۔ ابو داؤود میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت الیس اللہ باحکم الحاکمین ( کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ ) پڑھو تو کہو بلی و انا علی ذلک من الشاھدین ( کیوں نہیں ، میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں ) ۔ اور جب سورۃ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بلیٰ ، اور جب سورہ مرسلات کی آیت فبای حدیث بعدہ یومنون ( اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟ ) پڑھو تو کہو امنا باللہ ( ہم اللہ پر ایمان لائے ) ۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد ، ترمذی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، بہیقی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani