Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی وہ دن نہایت سخت ہوگا اور سختیوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پر بڑا لمبا ہوگا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی احسان کرنے والے نیکی کرنے اور شکریہ تک کی توقع نہ رکھنے کے باوجود اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے عمل میں کوئی تقصیر باقی نہ رہ جائے۔ اور اس دن ہم سے باز پرس نہ ہو جس کے نظارہ سے ہی سب کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ہیبت اور دہشت طاری ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) انا نخاف من ربنا…:” عبوساً “ تیوری چڑھانے والا، منہ بنانے والا۔” قمطریراً “ سخت تیوری چڑھانے والا۔ سوال یہ ہے کہ اس دن کو ” عبوساً “ اور ” قمطریراً “ کیوں کہا گیا ، جبکہ تیوری چڑھانا اور منہ بگاڑانا آدمی کا کام ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس دن کی ہیبت اور سختی کی منظر کشی کے لئے اسے ایک ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا ہے جس کے منہ اور ماتھے پر غصے کی وجہ سیسخت تیوری چڑھی ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ جس طرح ” نھنارہ صائم “ (اس کا دن روزہ دار ہے) اور ” لیلہ قائم “ (اس کی رات قیام کرنے والی ہے) میں صیام وق یام کی نسبت دن اور رتا کی طرف کردی ہے، حالانکہ روزہ رکھنا اورق یام کرنا آدمی کا کام ہے، اسی طرح یہاں بھی اگرچہ دن کو تیوری چڑھانے والا کہا ہے مگر مراد یہ ہے کہ اس دن میں کافر کا چہرہ سخت تیوری والا اور بگڑا ہوا ہوگا، جیسے فرمایا :(وجوہ یومئذ باسرۃ) (القیامۃ : ٢٣)” کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔ “- (٢) انا نخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً “ (یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہوگا) میں ان جاہل صوفیوں کا رد ہے جو قیامت یا جہنم کے خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اخلاص سے کے خلاف سمجھتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۝ ١٠- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - عبس - العُبُوسُ : قُطُوبُ الوجهِ من ضيق الصّدر . قال تعالی: عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس 1] ، ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] ، ومنه قيل : يوم عَبُوسٌ. قال تعالی: يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان 10] ، وباعتبار ذلک قيل العَبَسُ : لِمَا يَبِسَ علی هُلْبِ الذَّنَبِ من البعر والبول، وعَبِسَ الوسخُ علی وجهه - ( ع ب س ) العبوس ( ض ) کے معنی سینہ کی تنگی سے چہرہ پر شکن پڑے نے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس 1] تر شر د ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا لیا ۔ اور اسی سے یوم عبوس ہے جس کے معنی سخت اور بھیانک دن کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان 10] اس دن سے جو ( چہروں کو ) شکن آلود اور دلوں کو سخت مضطر کردینے والا ہے ۔ اور اسی اعتبار سے العبس اس گو برادر پیشاب کو کہتے ہیں جو اونٹ کی دم کے بولوں کے ساتھ لگ کر خشک ہوجاتا ہے عبس الوسخ علی وجھہ اس کے چہرہ پر میل کچیل جم گئی ۔- قمطر - قوله تعالی: عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان 10] أي : شدیدا . يقال : قَمْطَرِيرٌ وقَمَاطِيرٌ.- ( ق م ط ر ) القمطریر سخت ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] جو ( چہروں کو ) کریہہ المنظر اور دلوں ) کو سخت ( مضطر ) کردینے والا ۔ قمطریر ۔ ایک لغت میں قماطر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا ۔ ” ہم تو ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جس کی اداسی بڑی ہولناک ہوگی۔ “- عَبُوْس کا لفظ ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہ آتی ہو ‘ بلکہ غصہ اور وحشت برستی ہو۔ جب کہ قمطریر کا معنی ہے بہت سخت ‘ بہت کرخت ‘ ہولناک اور طویل۔ چناچہ یہاں اس سے مراد میدانِ محشر کی وہ کیفیت ہے جس کی وجہ سے کھرب ہا کھرب انسان متفکر ّاور پریشان ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کے آثار تک نظر نہیں آئیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani