Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یا طعام کی محبت کے باوجود وہ اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، قیدی اگر غیر مسلم ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے جیسے جنگ بدر کے کافر قیدیوں کی بابت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کی تکریم کرو۔ چناچہ صحابہ پہلے ان کو کھانا کھلاتے، خود بعد میں کھاتے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] علی حبہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع طعام بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت بھی یعنی وہ ایسے کام اللہ کی محبت کے جوش میں کرتے ہیں۔- [١١] جنگی قیدیوں سے بہتر سلوک اگرچہ وہ کافر ہوتے ہیں :۔ اسیر کا لفظ جنگی قیدی کے لیے مخصوص ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کافر ہی ہوسکتے ہیں۔ مسلمان نہیں ہوسکتے۔ ان کے کافر ہونے کے باوجود انہیں کھانا کھلانا اور ان سے حسن سلوک بڑی نیکی کا کام ہے۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ جس شخص کے پاس کوئی قیدی رہے وہ اس سے اچھا سلوک کرے۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے اور مسلمان بھائیوں کا حق تو ان سے بھی زیادہ ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ویطعمون الطعام علی حبہ…: اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں، ایک یہ کہ خود کھانے کی خواہش و ضرورت کے باوجود وہ دوسرے مستحقین کو کھلا یدتے ہیں، دوسرا یہ کہ اللہ کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ یہاں پہلا معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ دوسرا معنی تو اگلی آیت :(انما نطعمکم لوجہ اللہ) (ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں) میں آہی رہا ہے، لہٰذا تکرار سے بہتر ہے کہ الگ الگ مفہوم مراد لیا جائے۔ مزید دیکھیے سورة حشر کی آیت (٩):(ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ) کی تفسیر۔- (٢) مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلانا ان اہم ترین مواقع میں سے ہے جہاں صدقہ کرنے کا حق ہے، کیونکہ مسکن وہ ہے جس کی کمائی سے اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، یتیم اس سے بھی عاجز ہے کیونکہ اس کا کمانے اولا فوت ہوچکا ہے اور وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے کمائی نہیں کرسکتا اورق یدی ان دونوں سے زیادہ عاجز ہے، کیونکہ اسے کسی چیز کا اختیار ہی نہیں، وہ کلیتاً دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔- (٣) زمانہ جاہلیت میں اسیروں سے بہت برا سلوک کیا جاتا تھا، انہیں بیڑیاں لگا کر ہر روز باہر نکالا جاتا تاکہ وہ گدائی کے ذریعے سے اپنی ضرورت کی چیزیں لوگوں سے حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اسیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ” ابرار “ کی صفت یان فرمائی کہ وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود مسکین، یتیم اور سایر کو کھانا کھلاتے ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کے متعلق صحابہ کو تاکید فرمائی کہ ان کا اکرام کریں۔ چناچہ وہ کھانے کے وقت انہیں اپنے آپ پر مقدم رکھتے۔ (ابن کثیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاں اسیر کافر لوگ ہی تھے جو جنگوں میں گرفتار ہو کر آتے تھے، آپ کے زمانے میں مسلمان اسیر نہیں رکھے جاتے تھے، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں، اسلئے کوئی مشرک اسیر ہو یا کسی جرم یا مطلابے میں گرفتار سملم سایر، سب سے حسن سلوک لازم ہے، بلکہ مسلمان اسیروں سے احسان بالا اولیٰ لازم ہے۔ اس کے علاوہ غلام بھی اسیر میں شامل ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری وصیت میں فرمایا :(الصلاۃ وما ملکت ایمانکم) (ابن ماجہ، الوصایا، باب ھل اوضی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ٢٦٩٨۔ ابو داؤد : ٥١٥٦، وقال الالبانی صحیح)” نماز اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔ “- (٤) اس آیت کی شان نزول میں علی و فاطمہ (رض) اور ان کی لونڈی فضہ کے حسنین (رض) کی صحت کے لئے ین روزوں کی نذر ماننے اور فاطار کے وقت قرض لائے ہوئے جو سے تیار کردہپ انچ روٹیاں سب کی سب ایک دن مسکین، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے دینے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے وہ بالکل من گھڑت اور موضوع ہے۔ ابن جوزی نے اسے ” الموضوعات “ میں ذکر کیا ہے اور قرطبی نے تفصیل سے اس پر جرح کی ہے۔ اہل بیت نبوت کے فضائل کا ثبوت اس قسم کی موضوع روایات کا محتاج نہیں اور نہ ہی یہ کوئی نیکی ہے کہ مسکین کو ایک کے بجائے پانچوں روٹیاں دے دی جائیں اور تین دن رات بچوں کو بھوکا رکھائے۔- (٥) اس آیت سے معلوم ہوا کہ یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، کھانا کھلانے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ہاں، فرض زکوۃ صرف مسلمانوں پر خرچ ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم) (بخاری، الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء …: ١٣٩٦)”(فرض صدقہ) مسلمانوں کے اغنیا سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء پر خرچ کیا جائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا یعنی اہل جنت کے یہ انعامات اس سبب سے بھی ہیں کہ وہ دنیا میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے علی حبہ میں حرف علیٰ بمعنے مع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی حالت میں بھی غریبوں کو کھانا کھلاتے جبکہ وہ کھانا خود اپنے لئے بھی ان کو محبوب اور پسند ہے۔ یہی نہیں کہ اپنے سے زائد فالتو کھانا غریبوں کو دیدیں۔ مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کا عبادت و ثبوات ہونا تو ظاہر ہے۔ قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قیدی ہے جس کو اصول شرعیہ کے مطابق قید میں رکھا گیا ہے خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم۔ مگر بہرحال اس کا کھانا کھلانا حکومت اسلامی کی ذمہ داری ہے جو شخص اس کو کھانا کھلاتا ہے وہ گویا حکومت اور بیت المال کی اعانت کرتا ہے اس لئے قیدی چاہے کافر بھی ہو اس کو کھانا کھلاتا ہے وہ گویا حکومت اور بیت المال کی اعانت کرتا ہے اس لئے قیدی چاہے کافر بھی ہو اس کو کھانا کھلانا ثواب ہوگا خصوصاً ابتدائے اسلام میں توقیدیوں کا کھانا پینا اور ان کی حفاظت عام مسلمانوں میں تقسیم کر کے ان کے ذمہ کردی جاتی تھی جیسے غزوہ بدر کے قیدیوں کیساتھ معاملہ کیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝ ٨- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- أسر - الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] .- ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط .- ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

آیا کفار کو کھلانا جائز ہے ؟- قول باری ہے (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں) ابو وائل سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ مشرک قیدیوں کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو حکم دیا تھا پھر درج بالا آیت تلاوت فرمائی تھی۔- قتادہ کا قول ہے کہ اس زمانے میں قیدی مشرک ہوتے تھے اس لئے تمہارا مسلمان بھائی اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اسے کھانا کھلائو۔ حسن سے (واسیرا) کی تفسیر میں مروی ہے کہ قیدی مشرکین ہوتے تھے۔- مجاہد کا قول ہے اسیر وہ شخص ہے جو قید خانے میں ہوتا ہے۔ ابن جبیر اور عطاء کا قول ہے کہ آیت میں اہل قبلہ یعنی مسلمان اور غیر مسلم دونوں مراد ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اسیر سے مشرک مراد ہے کیونکہ قید خانے میں پڑا ہوا مسلمان علی الاطلاق اسیر نہیں کہلاتا۔ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اسیر کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے ۔ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ مشرک کو ہر قسم کا صدقہ دینا جائز ہے۔- تاہم ہمارے اصحاب مشرک کو زکوٰ ۃ اور جانوروں کے صدقات میں سے دینا جائز نہیں سمجھتے اسی طرح ہر وہ صدقہ جس کی وصولی امام کی ذمہ داری ہے، مشرک کو دینا جائز نہیں۔- امام ابوحنیفہ اور امام محمد مشرک کو کفارہ وغیرہ میں سے دینا جائز قرار دیتے ہیں جبکہ امام ابویوسف صدقہ واجبہ صرف مسلمان کو دینا جائز سمجھتے ہیں۔ ہم نے اس پر گزشتہ صفحات میں روشنی ڈالی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ۔ ” اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکین کو ‘ یتیم کو اور قیدی کو۔ “- عَلٰی حُبِّہکا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ مال کی محبت کے علی الرغم کھانا کھلاتے ہیں۔ یعنی ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کی محبت میں بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اگرچہ ان کے دلوں میں بھی مال سے محبت کا جذبہ ہے اور ان کا جی بھی چاہتا ہے کہ وہ اپنے مال کو سنبھال سنبھال کر رکھیں ‘ لیکن اپنے ان جذبات کے باوجود وہ محض اللہ کی رضا کے لیے مستحقین کو کھانا کھلانے میں اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ہم پڑھ چکے ہیں کہ حب ِمال کا علاج ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بشارتیں دی گئی ہیں۔ ملاحظہ ہو سورة الحدید کی یہ آیت :- اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ ۔ - ” یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرض حسنہ دیں ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :11 اصل الفاظ ہیں علی حبہ ۔ اکثر مفسرین نے حبہ کی ضمیر کا مرجع کھانے کو قرار دیا ہے ، اور وہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کھانے کے محبوب اور دل پسند ہونے اور خود اس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو کھلا دیتے ہیں ۔ ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے علی حب الاطعام ، یعنی غریبوں کو کھانا کھلانے کے شوق میں وہ ایسا کرتے ہیں ۔ اور حضرت فضیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدارانی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ہمارے نزدیک بعد کا یہ فقرہ کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ ( ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں کھلا رہے ہیں ) اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :12 قدیم زمانے میں دستور یہ تھا کہ قیدیوں کو ہتھکڑی اور بیڑیاں لگا کر روزانہ باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں پر یا محلوں میں بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے ۔ بعد میں اسلامی حکومت نے یہ طریقہ بند کیا ( کتاب الخراج ، امام ابو یوسف ، صفحہ 150 ۔ طبع 1382 ھ اس آیت میں قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں ہو ، خواہ کافر ہو یا مسلمان ، خواہ جنگی قیدی ہو ، یا کسی جرم میں قید کیا گیا ہو ، خواہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا بھیک منگوائی جاتی ہو ، ہر حالت میں ایک بے بس آدمی کو جو اپنی روزی کے لیے خود کوئی کوشش نہ کر سکتا ہو ، کھانا کھلانا ایک بڑی نیکی کا کام ہے ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :13 اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا ۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے ، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے ، یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے ، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کی نیکی نہیں ہے ۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani