فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں ، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے ، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں ، ہاں ( والعاصفات ) میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں ، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور ( ناشرات ) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے ، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے ، جیسے اور جگہ فرمان باری ( وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22 ) 15- الحجر:22 ) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46 ) 30- الروم:46 ) الخ ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے ، ( عاصفات ) سے بھی مراد ہوائیں ہیں ، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں ( فارقات ) اور ( ملقیت ) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے ، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے ، اس دن ستارے بےنور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ١٠٥ۙ ) 20-طه:105 ) ، اور فرمایا آیت ( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47ۚ ) 18- الكهف:47 ) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ١٠٩ ) 5- المآئدہ:109 ) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69 ) 39- الزمر:69 ) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا ، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے ، جیسے فرمایا آیت ( فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ 47ۭ ) 14- ابراھیم:47 ) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے ، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے ، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا ، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے ، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے ، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔
1۔ 1 اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔
والمرسلت عرفاً …:” المرسلت “ یہ ” الریاح “ کی صفت ہے جو محذوف ہے ، وہ ہوائیں جو چھڑوی گئی ہیں، بھیجی گئی ہیں۔” عرفاً “ یہ ” نکر “ کی ضد ہے، جانی پہچانی چیز، بھلائی۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں اور مرغ کی کلغی کو بھی ” عرف “ کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ایک سطر میں یکے بعد دیگرے ہوتی ہیں، اس لئے ان کی مشابہت سے پے در پے آنے والی چیزوں پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً :” جاو وا عرفاً واحداً “” وہ سب پے در پے آگئے۔ “” عرفاً “ کا معنی اگر جانی پہچانی چیز کریں تو اس ہلے ” بائ “ مقدر ہوگی :” ای والمرسلات بالعرف “” یعنی ان ہواؤں کی قسم جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں “ اگر اس کا معنی بھلائی کریں تو اس ہلے ” لام “ مقدر ہوگا اور یہ مفعول لہ ہوگا : ” ای والمرسلات للعرف “ ” یعنی ان ہواؤں کی قسم جنہیں (لگووں کی) بھلائی کے لئے چھوڑا جاتا ہے “ اور اگر معنی پے در پے کریں تو ” عرفاً “ حال ہوگا، یعنی ” ان ہواؤں کی قسم جو پے در پے چھوڑی جاتی ہیں “ تینوں معنی درست ہیں۔- قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو بعد میں مذکور ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ صفات والی ہواؤں میں زبردستل شہادت ہے کہ قیامت جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، ضرور آنے والی ہے۔ آپ دیکھیں ہوائیں کبھی نرم رفتار سے چلتی ہیں، پھر کبھی تند و تیز ہو کر آندھی بن جانا، پھر بادلوں کو اٹھانا، انہیں پھیلا کر برسانا اور منتشر کردینا، کہیں خوف ناک طوفان کی صورت میں عذاب بن کر آنا وغیرہ، یہ سب کچھ دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا عے۔ اسی طرح یہ ہوائیں دلوں میں اللہ کے ذکر کا القا کرتی ہیں اور اللہ کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں، کبھی ترغیب کے ساتھ اور کبھی ترہیب کے ساتھ۔ ہوائیں اگر خوشگوار اور نفع بخش ہیں تو اللہ کی نعمت ہیں اور ان کا اثر بندے پر یہ پڑنا چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور اپنے عمل کی کوتاہی کا عذر پیش کرے اور اگر اس کے برعکس خوف ناک طوفان اور بجلیوں کی صورت میں ہیں تو ان کا اثر بندے پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گناہوں سے توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ان مختلف اطوار والی ہواؤں کو پیدا کرنے والے اور ان کا بندوبست کرنے والے پروردگار کے لئے قیامت برپا کرنا اور تمام فوت شدہ لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟
خلاصہ تفسیر - قسم ہے ان ہواؤں کی جو نفع پہنچانے کے لئے بھیجی جاتی ہیں پھر ان ہواؤں کی جو سختی سے چلتی ہیں (جس سے خطرات کا احتمال ہوتا ہے) اور ان ہواؤں کی جو بادلوں کو (اٹھا کر) پھیلاتی ہیں (جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے) پھر ان ہواؤں کی جو بادلوں کو متفرق کردیتی ہیں (جیسا بارش کے بعد ہوتا ہے) پھر ان ہواؤں کی جو (دل میں) اللہ کی یاد یعنی توبہ کا یا ڈرانے کا القاء کرتی ہیں (یعنی یہ ہوائیں مذکورہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کی وجہ سے خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوجانے کا سبب ہوجاتی ہیں اور وہ توجہ دو طور سے ہوتی ہی ایک خوف سے جبکہ ان ہواؤں سے آثار خوف کے نمایاں ہوں اور دوسرا توبہ و معذرت سے اور یہ خوف ورجاء کی دونوں صورت میں ہو سکتا ہے۔ اگر ہوائیں نفع بخش ہوں تب تو خدا کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کا شکر اور اپنی تصقیرات سے عذر کرتے ہیں اور اگر وہ ہوائیں خوفناک ہوں تو خدا کے عذاب سے ڈر کر اپن معاصی سے توبہ کرتے ہیں، آگے جواب قسم ہے) کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور ہونے والی ہے۔ (مراد قیامت ہے اور یہ سب قسمیں قیامت کے نہایت مناسب ہیں کیونکہ نفخہ اولیٰ کے بعد تمام عالم کی فنار کا واقعہ تیز آندھیوں کے مشابہ ہے اور نفخہ ثانیہ کے بعد کے واقعات مردوں کا زندہ ہونا وغیرہ مشابہ واقعات ہوائے نافع کے ہیں جس سے بارش اور بارش سے حیات بناتی ابھرتی ہے۔ آگے اس کے وقوع پر تفریع فرماتے ہیں) سو جب ستارے بےنور ہو اویں گے اور جب آسمان پھٹ جاوے گا اور جب پہاڑ اڑتے پھریں گے اور جب سب پیغمبر وقت معین پر جمع کئے جاویں گے (اس وقت سب کا فیصلہ ہوگا، آگے اس یوم کا ہولناک ہونا مذکور ہے کہ کچھ معلوم ہے) کس دن کے لئے پیغمبروں کا معاملہ ملتوی رکھا گیا ہے (آگے جواب ہے کہ) فیصلہ کے دن کے لئے (ملتوی رکھا گیا ہے، مطلب اس سوال و جواب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار جو رسولوں کی تکذیب کرتے آئے ہیں اور اب بھی اس امت کے کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں اور جب اس تکذیب پر عذاب آخرت سے ڈرائے جاتے ہیں تو آخرت کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور یہ تکذیب فی نفسہ مقتضی اس کو ہے کہ رسولوں کا جو قصہ کفار سے پیش آ رہا ہے اس کا فیصلہ ابھی ہو جاؤے اور اس کی تاخیر سے کفار کو مزید انکار و تکذیب کا موقع ملتا ہے اور مسلمانوں کو طبی طور پر اس کے جلد ہوجانے کی خواہش ہوتی ہے پس اس آیت میں استعجال کا جواب ہے کہ حق تعالیٰ نے بعض حکمتوں سے اس کو موخر کر رکھا ہے لیکن واقع ضرور ہوگا اور (آگے اس فیصلہ کے دن کا ہولناک ہونا مذکر ہے کہ) آپ کو معلوم ہے کہ وہ فیصلہ کا دن کیسا کچھ ہے (یعنی بہت سخت ہے اور جو لوگ اس امر حق یعنی وقوع قیامت کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے نظائر سابقہ کے ذریعہ موجودہ لوگوں کو ڈرانا ہے) کیا ہم اگلے (کافر) لوگوں کو (عذاب سے) ہلاک نہیں کرچکے پھر پچھلوں کو بھی (عذاب میں) ان پہلوؤں ہی کے ساتھ ساتھ کردیں گے (یعنی آپ کی امت کے کفار پر بھی وبال ہلاکت نازل کریں گے جیسا بدر وغیرہ غزوات میں ہوا) ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں (یعنی ان کے کفر پر سزا دیتے ہیں خواہ دارین میں خواہ دار آخرت میں اور جو اس امر حق یعنی کفر پر مستحق عذاب ہونے کے کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھیرانے والے ہیں ( اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) ایک اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھہرانے والے ہیں (اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی بعضی نعمتیں جن سے ترغیب اطاعت و ایمان ہو ذکر فرماتے ہیں یعنی) کیا ہم نے زمین کو زندہ اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا (کہ زندگی اسی پر بسر ہوتی ہے مرنے کے بعد دفن اور غرق ہوجانے اور جلجانے کی صورت میں بالاخر مٹی ہو کر اجزاء ارضیہ ہی میں کھپ جاتے ہیں اور اس حالت بعد الموت کا نعمت ہوتا اس طرح ہے کہ اگر مردے خاک نہ ہوجایا کرتے تو زندے پریشان ہو کر مردہ سے بدتر ہوجاتے کہ ان کو اپنے بسنے بلکہ چلنے پھرنے کی جگہ نہ ملتی) اور ہم نے اس (زمین) میں اونچے اونچے پہاڑ بنائے (جن سے بہت سے منافع متعلق ہیں) اور ہم نے تم کو میٹھا پانی پلایا (اس نعمت کو خواہ مستقل کہا جاوے یا زمین ہی کے متعلق کہا جاوے کیونکہ مرکز پانی کا بھی زمین ہی ہے اور ان نعمتوں کا مقتضاد جواب توحید ہے۔ پس جو لوگ اس امر حق یعنی وجوب توحید کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (ق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے قیامت کی بعض سزاؤں کا بیان ہے یعنی قیامت کے روز کفار سے کہا جائے گا کہ) تم اس عذاب کی طرف چلو جس کو جھٹلایا کرتے تھے (جس میں کی ایک سزا وہ ہے جس کا بیان اس حکم میں ہے کہ) ایک سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جس میں نہ (ٹھنڈا) سایہ ہے اور نہ وہ گرمی سے بچاتا ہے (مراد اس سائبان سے ایک دھواں ہے جو جہنم سے نکلے گا اور چونک کثرت سے ہوگا اس لئے بلند ہو کر پھٹ کر تین ٹکے ہوجاویں گے کمافی الطبری عن قتادة اور فراغ حساب تک کفار اسی دھویں کے احاطہ میں رہیں گے جیسا کہ مقبولین ظل عرش میں ہوں گے کذا فی الخازن، آگ اس دھویں کا اور حال مذکور ہے کہ) وہ انگارے برساوے گا جیسے بڑے بڑے محل جیسے کالے کالے اونٹ (قاعدہ ہے کہ جب چنگاری آگ سے جھڑتی ہے تو بڑی ہوتی ہے۔ پھر بہت سے چھوٹے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرتی ہے پس پہلی تشبیہ ابتدائی حالت کے اعتبار سے ہے اور دوسری شبیہہ انتہائی حالت کے اعتبار سے۔ کذا فی الروح، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی اس واقعہ کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (آگے اور واقعہ متعلق کفار ہے یعنی) یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو اجازت (عذر پیش کرنے کی) ہوگی سو عذر بھی نہ کرسکیں گے (کیونکہ واقع میں کوئی معقول عذر ہوگا ہی نہیں اور جو لوگ اس واقعہ حقہ کو بھی جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے بھی اسی یوم کا بیان ہے کہ ان لوگوں سے کہا جاوے گا کہ) یہ ہے فیصلہ کا دن (جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے) ہم نے (آج) تم کو اور اگلوں کو (فیصلے کے لئے) جمع کرلیا سو اگر تمہارے پاس (ج کے نتیجے اور فیصلے سے بچنے کی) کوئی تدبیر ہو تو مجھ پر تدبیر چلا لو (اور یہ کفار اس واقعہ حقہ کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے ثواب کا بیان ہے یعنی) پرہیزگار لوگوں سایوں میں اور چشموں میں اور مرغوب میووں میں ہوں گے (اور ان سے کہا جاوے گا کہ) اپنے اعمال (نیک) کے صلہ میں خوب مزے سے کھاؤ پیو ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (ور یہ کفار نعمائے جنت کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھیں رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے پھر توبیخ و تنبیہ ہے کفار کو، یعنی اے کافرو ) تم (دنیا میں) تھوڑے دن اور کھال اور برت لو (عنقریب کمبختی آنے والی ہے کیونکہ) تم بیشک مجرم ہو (اور مجرم کا یہی حال ہونے والا ہے اور جو لوگ سزائے جرم کو جھٹلاتے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی اور (ان کافروں کی سرکشی اور جرم کی یہ حالت ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (خدا کی طرف) جھکو (یعنی ایمان اور عبدیت اختیار کرو) تو نہیں جھکتے (اس سے زیادہ کیا جرم ہوگا اور یہ لوگ اس کے جرم ہونے کو بھی جھٹلاتے ہیں سو سجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (اور ان تقریعات و تہدیدات قرآنیہ کا مقتضایہ تھا کہ سنتے ہی ڈر کر ایمان لے آتے مگر جب اس پر بھی ان کو اثر نہیں) تو پھر اس (قرآن بلیغ الالفاظ و الانذار) کے بعد اور کونسی بات پر ایمان لاویں گے (اس میں کفار پر تو بیخ اور ان کے ایمان سے آپ کو مایوس کرنا ہے۔ ) - معارف و مسائل - صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے اچانک سورة مرسلات نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو پڑھتے جانے تھے اور میں آپ کے مبارک منھ سے اس کو سنتا یاد کرتا جاتا تھا، آپ کا دہن مبارک اس سورة کی حلاوت سے رطب (شاداب) ہو رہا تھا اچانک ایک سانپ نے ہم پر حملہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کا حکم دیا، ہم اس کی طرف جھپٹے وہ نکل بھاگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس طرح تم اس کے شر سے محفوظ رہے وہ بھی تمہارے شر سے محفوظ ہوگیا (ابن کثیر) - اس سورت میں حق تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسمیں کھا کر قیامت کے یقینی طور پر آنے کا ذکر فرمایا ہے، ان چیزوں کا نام قرآن میں بیان نہیں کیا گیا البتہ ان کی اس جگہ پانچ صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ مرسلات، عاضعات ناشرات، فارقات، ملقیت الذکر کسی حدیث مرفوع میں اس کی پوری تعیین نہیں آئی کہ ان صفات کے موضوفات کیا ہیں اس لئے صحابہ وتابعین کی تفسیریں اس معاملے میں مختلف ہوگئیں۔- بعض حضرات نے ان پانچوں صفاتک موصوف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور یہ کہ ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کی مختلف جماعتیں ان مختلف صفات کی حامل ہوں۔ بعض حضرات نے ان صفات کا موصوف ہواؤں کو قرار دیا ہے وہ بھی مختلف اقسام اور نوعیت کی ہوتی ہیں، اس لئے یہ صفات مختلفہ ان میں ہو سکتی ہیں۔ بعض حضرات نے ان کا موصوف خود انبیاء و رسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف نے ان کا موصوف خود انباء ورسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف اور سکوت کو اسلم قرار دیا کہ احتمال دونوں ہیں ہم اپنی طرف سے کسی کو متعین نہیں کرتے۔- اور اس میں شبہ نہیں کہ جو پانچ صفات اس جگہ ذکر کی گئی ہیں ان میں سے بعض تو ملائکتہ اللہ پر زیادہ چسپاں اور ان کے مناسب ہیں ان کو ریاح کی صفت بائیں تو کھنیچ تان اور تاویل کرنا پڑتی ہے اور بعض صفات ایسی ہیں جو ریاح یعنی ہواؤں پر زیادہ چسپاں اور واضح ہیں ان کو فرشتوں کی صفت بنائیں تو تاویل کے بغیر نہیں بنتی۔ اس لئے اس مقام میں بہتر فیصلہ ابن کثیر (رح) کا معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ شروع کی تین صفات ہواؤں کی صفتیں ہیں ان تین میں ریاح اور ہواؤں کی قسم ہوگئی باقی آخری دو صفتیں یہ فرشتوں کی صفات ہیں تو یہ فرشتوں کی قسم ہوگئی۔- ریاح کی صفت قرار دینے میں آخری دو صفتوں میں جو تاویل کی جاتی ہے وہ آپ خلاصہ تفسیر میں دیکھ چکے ہیں کیونکہ اس میں اسی کو اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔ اسی طرح جن حضرات نے ان سب صفات کو صفات ملائکہ قرار دیا ہے ان کو پہلی تین صفات یعنی مرسلات، عاصفات ناشرات کو فرشتوں پر چسپاں کرنے کے لئے اسی طرح کی تاویلات سے کام لینا پڑتا ہے۔ ابن کثیر کے اختیار کے مطابق معنی ان آیتوں کے یہ ہوگئے کہ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھیجی جاتی ہیں۔ عرفاً ، یہاں عرفاً کا مفہوم وہ بھی ہوسکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر مذکور ہوا یعنی جو دوسخا اور نفع رسانی۔ جو ہوائیں بارش لے کر آتی ہیں ان کی جو دوسخا اور نفع رسانی ظاہر ہے اور دوسرے معنے عرفاً کے متتابع یعنی پے در پے کے بھی آتے ہیں۔ یہ معنے لئے جاویں تو مراد وہ ہوائیں ہوں گی جو بادل اور بارش کو لئے ہوئے مسلسل اور متتابع چلتی ہیں اور عاصفات عصف سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہوا کے تیز چلنے کے ہیں اس سے مراد وہ آندھیاں اور تیز ہوائیں ہیں جو بعض اوقات دنیا میں آیا کرتی ہیں اور ناشرات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بارش ختم ہونے کے بعد بادل کو پھاڑ کر منتشر کردیتی ہیں اور فارقات، یہ صفت فرشتوں کی ہے جو وحی الٰہی نازل کر کے حق و باطل میں فرق واضح کردیتے ہیں اور ملقیات ذکر ابھی فرشتوں کی صفت ہے اور ذکر سے مراد قرآن یا مطلق وحی ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ سم ہے ان فرشتوں کی جو بذریعہ وحی حق و باطل میں فرق اور امتیاز واضح کردیتے ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو انبیاء (علیہم السلام) پر ذکر یعنی وحی اور قرآن کا القاء کرتے ہیں۔ اس طرح کسی صفت میں تاویل اور کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آتی۔- رہا یہ سوال کہ اس تفسیر کی بناء پر پہلے ہواؤں کی مختلف اقسام کی قسم کھائی گئی پھر فرشتوں کی، ان دونوں میں ربط اور جوڑ کیا ہے سو کلام الٰہی کی حکمتوں کا احاطہ تو کوئی کر نہیں سکتا، یہ مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ ہواؤں کی دونوں قسمیں بارش والی نفع بخش اور سخت آندھیاں مضرت رساں یہ سب محسوسات میں سے ہیں ہر شخص ان کو پہچانتا ہے پہلے غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے ان کو لایا گیا، اس کے بعد فرشتوں اور وحی کو پیش کیا گیا جو محسوس نہیں مگر ذرا سے غور و فکر کرنے پر ان کا یقین ہوسکتا ہے۔
وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ١ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- عرفا کے منصوب ہونے کی چار وجہیں ہوسکتی ہیں :۔- (1) مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی المرسلت لاجل العرف اس صورت میں عرف بمعنی خوبی و احسان ہوگا۔- (2) حال ہونے کی وجہ سے یعنی متتابعۃ۔ ( پے در پے) یعنی اس حال میں بھیجی گئیں کہ وہ پے در پے تھیں۔- (3) مفعول مطلق ہے بعمنی مصدر۔ اور ارسالا کے معنی دے بمعنی المرسلت ارسالا اس صورت میں بھی ارسالا بمعنی لگاتار اور پے در پے ہوگا۔ - (4) منصوب ہے نیزع خافض ( زیر دینے والے حرف کو حذف کرنا) بمعنی المرسلت بالعرف اس صورت میں عرف بمعنی معروف ہوگا۔
(١۔ ٥) قسم ہے تیز رفتار فرشتوں کی یا یہ کہ ان فرشتوں کی جو نفع پہنچانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل اور پھر ان ہواؤں کی جو تندہی سے چلتی ہیں اور پھر بادلوں کی یا ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں یا اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کتابوں کو کھولتے ہیں۔- اور پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں یا اس سے مراد وہ آیات ہیں جو کہ حق و باطل حلال و حرام کے درمیان امتیاز کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان تینوں قسموں سے ہوائیں مراد ہیں۔
آیت ١ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ۔ ” قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔ “- اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔