21۔ 1 یعنی رحم مادر میں۔
[١٢] یعنی تین پردوں کے اندر نطفہ کو اس قدر محفوظ کردیا اور اتنا سختی سے جما دیا کہ کسی شدید حادثہ سے دوچار ہوئے بغیر حمل کا اسقاط نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی خود حمل کو ساقط کرنا چاہے تو حاملہ یا ماں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُ فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ٢١ ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قرر - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] ، أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً [ النمل 61] ، أي : مستقرّا، وقال في صفة الجنّة : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3» ، وفي صفة النّار قال :- فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص 60] ، وقوله : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم 26] ، أي : ثبات، وقال الشاعر :- 365-- ولا قرار علی زأر من الأسد - «4» أي : أمن واسْتِقْرَارٍ ، ويوم الْقَرِّ : بعد يوم النّحر لاستقرار الناس فيه بمنی، وو - ، وقیل : قَرَّتْ ليلتنا تَقِرُّ ، ويوم قَرٌّ ، ولیلة قِرَّةٌ ، وقُرَّ فلان فهو مَقْرُورٌ: أصابه الْقُرُّ ، وقیل : حرّة تحت قِرَّةٍ «2» ، وقَرَرْتُ القدر أَقُرُّهَا : - ( ق ر ر )- قرنی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3»جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی تھا ( پناہ دی ) اور جن ہم کے متعلق فرمایا : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص 60] اور وہ بڑا ٹھکانا ہے ۔ اور آیت کریمہ : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم 26] زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیاجائے ۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں ہے ۔۔۔ قرار کے معنی ثبات کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (352) ولا قرار عل ی زاز من الاسد یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن ( چین) حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور یوم النحر سے بعد کے دن کو یوم القر کہاجاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منیٰ میں ٹھہری رہتے ہیں ۔ - مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔
آیت ٢١ فَجَعَلْنٰــہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۔ ” پھر ہم نے اس (نطفے) کو رکھ دیا ایک محفوظ مقام میں۔ “- یعنی اس حقیر پانی کی بوند کو مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے ہم نے اسے ایک محفوظ مقام یعنی رحم مادر میں رکھا جو اس کے لیے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :11 اصل الفاظ ہیں قدر معلوم ۔ اس کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ وہ مدت مقرر ہے ، بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اس کی مدت اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ کسی بچے کے متعلق کسی ذریعہ سے بھی انسان کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ کتنے مہینے ، کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ اور سکنڈ ماں کے پیٹ میں رہے گا ، اور اس کا ٹھیک وقت ولادت کیا ہو گا ۔ اللہ ہی نے ہر بچے کے لیے ایک خاص مدت مقرر کی ہے اور وہی اس کو جانتا ہے ۔
7: اس سے مراد ماں کا پیٹ ہے۔