(١) الم نجعل الارض کفاتاً…:” کفاتا “ ” کفت یکفت “ (ض) سمیٹنا، جمع کرنا) سے مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی سمیٹنے والی۔ ” رواسی “ ” راسیۃ “ کی جمع ہے اور ” راس یرسو “ (ن) زمین میں گڑا ہوا ہونا مراد پہاڑ ہیں۔” شمخت “ بلند۔ ” قراتاً “ بہت ہی میٹھا۔ زمین زندوں کو سمیٹتی ہے، وہ اسی پر زندگی گزارتے ہیں وہ ان کی غلاظتیں سنبھالتی ہے اور مردوں کو ب ھی اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اگر زمین مرنے والے انسانوں اور دوسرے جان داروں کو نہ سمیٹی تو تعفن سے زندگی دشوار ہوجاتی۔ اس آیت سے مردوں کو سنبھالنے کے لئے دفن کی دلیل ملتی ہے، جو قومیں اپنے مردوں کو جلاتی ہیں ان کی راکھ اور ہڈیاں بھی زمین ہی کے سپرد ہوتی ہیں۔- (٢) وجعلنا فیھا رواتی …: زمین بجائے خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک بہت بڑا نشان ہے، پھر اس پر بلند و بالا پہاڑ اور انسان کے پینے کے لئے نہایت میٹھا پانی اللہ کی قدرت کے اتنے بڑے عجائب ہیں کہ ان کو دیکھ کر بھی جو لوگ آخرت کو جھٹلاتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کو دوبارہ بنانا ممکن نہیں، ان لوگوں کے لئے قیامت کے دن بہت بڑی خرابی اور ہلاکت ہے۔
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا 25ۙاَحْيَاۗءً وَّاَمْوَاتًا یعنی ہم نے زمین کو کفات بنایا ہے زندہ اور مردہ انسانوں کے لئے کفات، کفت سے مشتق ہے جس کے معنے ملانے اور جمع کرلینے کے ہیں کفات وہ چیز جو بہت سی چیزوں کو اپنے اندر جمع کرے۔ زمین کو حق تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ زندہ انسان اس کی پیٹھ پر سوار ہیں اور مردے سب اس کے پیٹ میں جمع ہیں۔
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا ٢٥ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - كفت - الكَفْتُ : القبض والجمع . قال تعالی: أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفاتاً أَحْياءً وَأَمْواتاً [ المرسلات 25- 26] أي : تجمع الناس أحياء هم وأمواتهم، وقیل : معناه تضمّ الأحياء التي هي الإنسان والحیوانات والنّبات، والأموات التي هي الجمادات من الأرض والماء وغیر ذلك . والکِفَاتُ ، قيل : هو الطّيران السّريع، وحقیقته : قبض الجناح للطّيران، كما قال :- أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ [ الملک 19] فالقبض هاهنا کالکفات هناك .- والکَفْتُ : السّوق الشّديد، واستعمال الکفت في سوق الإبل کاستعمال القبض فيه، کقولهم :- قبض الرّاعي الإبل، وراعي قبضة، وكَفَتَ اللہ فلانا إلى نفسه، کقولهم : قبضه، وفي الحدیث :- «اكْفِتُوا صبیانکم باللیل» .- ( ک ف ت ) الکفت ( ض ) کسی چیز کو جمع کر کے اسے قبضہ میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفاتاً أَحْياءً وَأَمْواتاً [ المرسلات 25- 26] کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا یعنی زندوں اور مردوں کو ۔ یعنی زمین تمام مردوں اور زندوں کو سمیٹے ہوئے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ احیا سے مراد انسان حیوان اور نباتات ہیں اور اموات سے جمادات بعض نے کفات کے معنی تیزی سے اڑنا بھی کئے ہیں لیکن اصل میں اس کے معنی اڑنے کے لئے پروں کو سمیٹنا کے ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ [ الملک 19] کیا انہوں نے اپنے سروں پر اڑتے جانوروں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور سکیڑ بھی لیتے ہیں ۔ تو یہاں قبض کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں کفات کا لفظ ہے ۔ الکفت کے معنی تیز ہا نکنا بھی آتے ہیں اور قبض کی طرح کفت کا لفظ بھی اونٹوں کے ہنکانے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قبض الراعی الابل کے معنی ان کو تیز ہانکنے کے ہیں ۔ اور منتظم چروا ہے کہ راعی قبضۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کفت اللہ فلانا الیٰ نفسہ ( اللہ تعالیٰ ) نے اس کی روح قبض کرلی قبضۃ کے ہم معنی ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ اکفتوا صبیانکمباللیل ۔ رات کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں بند رکھو ۔
میت کی کوئی چیز فروخت نہیں ہوسکتی، دفن کردینی چاہیے - قول باری ہے (الم نجعل الارض کفاتا احیاء وامواتا۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا۔ زندوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی) شعبی کا قول ہے کہ زمین کا ظاہری حصہ زندوں کے لئے ہے اور باطنی حصہ مردوں کے لئے کفات ضمام یعنی سمیٹنے کو کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ زمین دونوں حالتوں میں انہیں سمیٹ کر رکھتی ہے۔ اسرائیل نے ابویحییٰ سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ درج بالا آیت کی تفسیر میں انہوں نے فرمایا : ” زمین میت کو سمیٹ لیتی ہے اور اس کا کوئی حصہ باہر نظر نہیں آتا۔ زمین زندوں کو بھی سمیٹتی ہے۔ ایک شخص اپنے گھر میں ہوتا ہے اور اس کا کوئی عمل باہر والوں کو نظر نہیں آتا۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میت کو زمین میں چھپادینے اور اسے نیز اس کے بالوں اور اس سے علیحدہ ہوجانے والی تمام چیزوں کو دفن کردینے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے بالوں اور اس کے جسم کے حصے کی بیع جائز نہیں ہے۔- اسی طرح اس کے جسم کے کسی حصے میں تصرف بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دفن کرنا واجب قرار دیا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لعن اللہ الواصلۃ۔ واصلہ پر اللہ کی لعنت ہے) واصلہ وہ عورت ہے جو اپنے بالوں کے ساتھ کسی دوسری عورت کے بال جوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے انتفاع کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یہی وہ مفہوم ہے جس پر آیت دلالت کررہی ہے۔- یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے (ثم اماتہ فاقبرہ۔ پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا) یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قبر بنادی ۔ آیت کی تاویل میں اس سے مختلف روایت بھی ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک کھٹمل پکڑ کر اسے مسجد کی کنکریوں میں دفن کردیا اور پھر زیر بحث آیت تلاوت فرمائی۔ حضرت ابوامامہ (رض) سے بھی اسی طرح کی ایک رویت ہے۔ عبید بن عمیر نے حضرت ابن عمر (رض) سے ایک کھٹمل سے کر اسے مسجد میں پھینک دیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی یہ تاویل پہلی تاویل کی نفی نہیں کرتی بلکہ آیت کا عموم دونوں تاویلوں کا مقتضی ہے۔