Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] زمین سے انسان کا دائمی تعلق :۔ پھر اسی زمین میں بلند وبالا پہاڑ پیدا کردیئے جو سمندروں سے اٹھنے والے آبی بخارات کو ٹھنڈا کردینے اور بارش کے قطرے بن جانے میں مدد دیتے ہیں۔ اور ان آبی بخارات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پہاڑوں پر برف بھی جمتی ہے اور بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ یہی پانی کچھ تو ندی، نالوں، نہروں اور دریاؤں کی صورت میں بہتا ہے اور انسانوں اور کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے اور اسی بارش کے پانی کا کثیر حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ تو سطح زمین کے نیچے خاصی گہرائی میں پانی کی نہریں اور دریا رواں ہوجاتے ہیں۔ پانی کے یہ محفوظ ذخیرے اس وقت کام آتے ہیں جب بارش برسنے میں دیر ہوجائے۔ تاکہ انسان مصنوعی آبپاشی کے ذریعہ اپنے کھیتوں کو اور اپنے آپ کو سیراب کرسکے۔ علاوہ ازیں پہاڑوں سے معدنیات نکل رہی ہیں۔ زمین سے کئی طرح کے سیال اور گیس کے خزانے برآمد ہو رہے ہیں۔ جوں جوں انسان کی آبادی بڑھتی جارہی ہے زمین بھی اپنے نت نئے خزانے اگل رہی ہے۔ گویا یہی زمین زندوں کی زندگی کی بقاء کے لیے بھی بہت کافی ہے اور دنیا جہاں کے مردوں کو سنبھالنے کے لیے بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ شٰمِخٰتٍ وَّاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا۝ ٢٧ ۭ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :- وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - شمخ - قال اللہ عزّ وجلّ : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : عالیات، ومنه : شَمَخَ بأنفه عبارة عن الکبر .- ( ش م خ ) ( الشامخ ) بلند ج مونث شامخات ) قرآن میں ہے : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اونچے اونچے پہاڑ ۔ اور اسی سے شمخ بانفی کا محاورہ ہے جس کے معنی تکبر کرنے کے ہیں ۔- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - فرت - الْفُرَاتُ : الماء العذب . يقال للواحد والجمع، قال تعالی: وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات 27] ، وقال : هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] .- ( ف ر ت ) الفرات کے معنی شیریں یا نہایت شیریں پانی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات 27] اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا ۔ هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] ایک کا پانی شیریں ہے پیس بجھانے ولا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧۔ ٣٣) اور ہم نے اس زمین کی میخوں کے لیے اونچے اونچے پہاڑ بنائے اور اے جھٹلانے والو تمہیں میٹھا پانی یا یہ کہ دودھ پلایا تو قیامت کے دن ان جھٹلانے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے۔ اے جھٹلانے والو تم اس عذاب کی طرف چلو جس کو تم دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے ان سے فرشتے حساب سے فارغ ہونے کے بعد کہیں گے اور اے گروہ مکذبین تم دوزخ کے اس دھوئیں کی طرف چلو جس میں تین شاخیں ہیں جس میں نہ دوزخ کی گرمی سے ٹھنڈا سایہ ہے اور اس کی لپٹوں سے بچاتا ہے اور وہ انگارے برساتا ہے جیسا کہ بڑے درخت کے تنے جیسے کالے کالے اونٹ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :15 یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک دلیل ہے ۔ یہی ایک کرہ زمین ہے جو کروڑوں اور اربوں سال سے بے حدوحساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے ، ہر قسم کی نباتات ، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلتے چلے آ رہے ہیں ۔ پھر یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں ، مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے ۔ اس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں ، بارشوں کے برسنے میں ، دریاؤں کی پیدائش میں ، زرخیز وادیوں کے وجود میں ، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اگنے میں ، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے ۔ پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کیا گیا ہے ، اس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ کیا یہ سب اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قا در مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے ، اور محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے؟ اب اگر اس قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اس سرد سامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحب عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اسی کی قدرت اس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے ، اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے ان اعمال کا حساب لے جو اس نے اس دنیا میں کیے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani