Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 اس معنی کی بناء پر مطلب یہ ہے کہ اس کی ایک ایک چنگاڑی اتنی اتنی بڑی ہوگی جیسے محل یا قلعہ۔ پھر ہر چنگاڑی کے مذید اتنے بڑے بڑے ٹکڑے ہوجائیں گے جیسے اونٹ ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] جہنم سے اٹھنے والے چنگارے اور شرارے اتنے بڑے ہوں گے۔ جیسے بلند وبالا عمارتیں ہوں پھر جب وہ ٹوٹ کر اور بکھر کر نیچے جہنم کی طرف گریں گے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اچھل کود رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ۝ ٣٣ ۭ- جَمَلُ- يقال للبعیر إذا بزل وجمعه جِمَال وأَجْمَال وجِمَالة قال اللہ تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] ، وقوله : جِمالَتٌ صُفْرٌ [ المرسلات 33] ، جمع جِمَالة، والجِمَالَة جمع جَمَل، وقرئ : جمالات بالضم، وقیل : هي القلوص، والجَامِل : قطعة من الإبل معها راعيها، کالباقر، وقولهم : اتّخذ اللیل جملا فاستعارة، کقولهم : رکب اللیل، وتسمية الجمل بذلک يجوز أن يكون لما قد أشار إليه بقوله : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ [ النحل 6] ، لأنهم کانوا يعدّون ذلک جمالا لهم . وجَمَلْتُ الشحم : أذبته، والجَمِيل : الشحم المذاب، والاجتمال :- الادهان به، وقالت امرأة لبنتها : تَجَمَّلِي وتعفّفي «5» ، أي : كلي الجمیل، واشربي العفافة- ۔ الجمل جو ان اونٹ جو کم از کم پانچ سال کا ہو ۔ اس کی جمع جمال و اجمال وجمالۃ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی گے ناگے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور آیت کریمہ :۔ جِمالَتٌ صُفْرٌ«2» [ المرسلات 33] گو یا زردہ رنگ کے اونٹ ہیں ۔ میں جملت جمالۃ کی جمع ہے اور جمالۃ جمل کی اور ایک قرآت میں جمالات بضمہ جیم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی جو ان اونٹنیوں کے ہیں ۔ الحامل اونٹوں کا گلمہ جن کے ساتھ ان کا چرواہا بھی ہو یہ باقر کی طرح ہے اور اتخذاللیل جملا ( کہ اس نے رات کو اونٹ بنالیا ) محاورہ مجاز پر محمول ہے جس کے معنی ہیں اپنے ساری رات سفر کیا ۔ جیسا کہ رکب اللیل کا محاورہ ہے اور اونٹ کو جمل کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ عرب لوگ اونٹ کو اپنے لئے باعث زینت اور فخر سمجھتے تھے جیسا کہ آیت :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ [ النحل 6] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ حملت الشحم چربی بگھلانا اور بگھلائی ہوئ چربی کو الجمیل کہا جاتا ہے اور اجمال کے معنی چربی کو بطور تیل ملنے کے ہیں ۔ ایک عورت نے اپنی لڑکی سے کہا ۔ تجملی وتعففی یعنی چربی پگھلا کر کھا یا کرو اور عفافہ یعنی تھنوں میں باقی ماندہ دودھ پیاکر و۔- صفر - الصُّفْرَةُ : لونٌ من الألوان التي بين السّواد والبیاض، وهي إلى السّواد أقرب، ولذلک قد يعبّر بها عن السّواد . قال الحسن في قوله تعالی: بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة 69] ، أي :- سوداء»، وقال بعضهم : لا يقال في السواد فاقع، وإنّما يقال فيها حالکة . قال تعالی: ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر 21] ، كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات 33] ، قيل : هي جمع أَصْفَرَ ، وقیل : بل أراد الصُّفْرَ المُخْرَجَ من المعادن، ومنه قيل للنّحاس : صُفْرٌ ، ولِيَبِيسِ البُهْمَى: صُفَارٌ ، وقد يقال الصَّفِيرُ للصّوت حكاية لما يسمع، ومن هذا : صَفِرَ الإناءُ : إذا خلا حتی يُسْمَعَ منه صَفِيرٌ لخلوّه، ثم صار متعارفا في كلّ حال من الآنية وغیرها . وسمّي خلوّ الجوف والعروق من الغذاء صَفَراً ، ولمّا کانت العروق الممتدّة من الکبد إلى المعدة إذا لم تجد غذاء امتصّت أجزاء المعدة اعتقدت جهلة العرب أنّ ذلک حيّة في البطن تعضّ بعض الشّراسف حتی نفی النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : «لا صَفَرَ» «4» أي : ليس في البطن ما يعتقدون أنه فيه من الحيّة، وعلی هذا قول الشاعرولا يعضّ علی شرسوفه الصَّفَرُ والشّهر يسمّى صَفَراً لخلوّ بيوتهم فيه من الزّاد، والصَّفَرِيُّ من النِّتَاجِ : ما يكون في ذلک الوقت .- ( ص ف ر ) الصفرۃ ( زردی ) ایک قسم کا رنگ جو سیاہی اور سفیدی کے مابین ہوتا ہے مگر اس پر چونکہ سیاہی غالب ہوتی ہے اس لئے کبھی اس کے معنی سیاہی بھی آتے ہیں ۔ اسی بناپر حسن رضہ نے آیت ۔ بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة 69] اس کا رنگ گہرا زردہ ہو ۔ میں صفراء کے معنی سیاہی کے ہیں مگر بعض نے کہا ہے کہ اگر اس کے معنی سیاہ ہوتے تو اس کی صفت فاقع نہ آتی بلکہ صفراء کے بعد حالکتہ کہا جاتا ہے ۔ نیز فرمایا : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات 33] گو یا زرد رنگ کے اونٹ ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صفرا صفر کی جمع ہے اور بعض نے کہا جاتا ہے کہ صفر ایک دہات کا نام ہے جس کے ساتھ زردی میں تشبیہ دی گئی ہے اسی سے نحاس ( پتیل ) کو صفر اور خشک بھمی ( گھاس ) کو سفار کہا جاتا ہے اور کبھی صفیر کا لفظ ہر اس آواز کی حکایت پر بولا جاتا ہے جو ( دور سے ) سنائی دے اسی سے صفرالاناء کا محاورہ ہے جس کے اصل معنی تو اس خالی برتن کے ہیں جس سے صفیر کی سی آواز سنائی لگے ہیں خواہ وہ برتن ہو یا اور کوئی چیز اور پیٹ اور رگوں کے غزا سے خالی ہونے کی صفر کہا گیا ہے اور ان رگوں کو جو جگر اور معدہ کے مابین پھیلی ہوئی ہیں جب غزا میسر نہ ہو تو وہ معدہ کے اجزا کو چوسنے لگتی ہیں اس بنا پر جاہل عربوں نے یہ عقیدہ بنارکھا تھا کہ صفر پیٹ میں ایک سانپ کا نام ہے جو بھوک کے وقت پسلیوں کا کاٹتا ہے ۔ حتی کہ آنحضرت کو لاصفر کہہ کر اس عقیدہ کی نفی کرنا پڑی ( 5) یعنی پیٹ میں اس قسم کا سانپ نہیں ہوتا جس کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( ع بیط ) اور نہ اس کی پسلیوں کی صفر سانپ کاٹتا ہے ۔ اور ماہ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ( اس مہینہ میں ان کے گھر توشہ خالی ہوجاتے تھے اس لئے اسے صفر کہتے تھے اور جو بچہ ماہ صفر میں پیدا ہوا اسے صفری کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :19 بعنی ہر چنگاری ایک قصر جیسی بڑی ہو گی ، اور جب یہ بڑی بڑی چنگاریاں اٹھ کر پھٹیں گی اور چاروں طرف اڑنے لگیں گی تو یوں محسوس ہو گا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اچھل کود کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: یہاں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ دوزخ کی آگ کے شعلے اتنے بڑے ہوں گے جیسے عظیم الشان محل ہوتے ہیں، اور اُن سے جو شاخیں نکلیں گی، وہ زرد رنگ کے اُونٹوں جیسی ہوں گی۔