45۔ 1 کہ اہل تقویٰ کے حصے میں جنت کی نعمتیں آئیں اور ان کے حصے میں بڑی بدبختی۔
[٢٥] یعنی مجرموں اور آخرت کے منکروں کو ایک تو اپنے انجام سے گھبراہٹ اور پریشانی ہوگی۔ دوسرے وہ لوگ ان کے سامنے جنت میں جارہے ہوں گے جنہیں وہ حقیر سمجھتے تھے اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کوئی بالاتر مخلوق قرار دیتے تھے۔ اس طرح ان کی تکلیف میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔
وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ٤٥- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] .- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(٤٥۔ ٤٨) جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے اے گروہ مکذبین تم دنیا میں تھوڑے اور کھا پی لو تم مشرک ہو تمہارا آخرت میں ٹھکانا دوزخ ہے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کو سخت عذاب ہوگا اور جب ان جھٹلانے والوں سے دنیا میں کہا جاتا تھا کہ اللہ کی توحید کے سامنے جھک جاؤ تو یہ توحید کو نہیں مانتے تھے یا یہ کہ یہ بات آخرت میں ہوگی جس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ ہم مشرک نہیں تھے تو پھر سجدہ کرو تو یہ لوگ سجدہ کرنے پر قادر نہ ہوں گے اور ان کی کمریں تختوں کی طرح ہوجائیں گی اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی کمروں کو رکوع و سجود کے لیے نہیں جھکاتے۔- شان نزول : وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ (الخ)- ابن منذر نے مجاہد سے فرمان خداوندی وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی طرف جھکو تو نہیں جھکتے تھے، کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٤٥ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ۔ ” (ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ “- اس کے بعد اب روئے سخن پھر کفار و مشرکین کی طرف ہوگیا ہے۔
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :23 یہاں یہ فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے لیے ایک مصیبت تو وہ ہو گی جو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ میدان حشر میں وہ مجرموں کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے ، علی الاعلان ان کے جرائم اس طرح ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے زبان کھولنے تک کا یارانہ رہے گا ۔ اور آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔ دوسری مصیبت بالائے مصیبت یہ ہو گی کہ وہی ایمان لانے والے جن سے ان کی عمر بھر لڑائی رہی ، جنہیں وہ بیوقوف اور تنگ خیال اور رجعت پسند کہتے رہے ، جن کا وہ مذاق اڑاتے رہے اور جنہیں اپنے نزدیک حقیر و ذلیل سمجھتے رہے ، انہی کو وہ جنت میں مزے اڑاتے دیکھیں گے ۔