Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یہ مکذبین قیامت کو خطاب ہے اور یہ امر، تہدید و وعید کے لئے ہے، یعنی اچھا چند روز خوب عیش کرلو، تم جیسے مجرمین کے لئے شکنجہ عذاب تیار ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یہ خطاب دنیا بھر کے کافروں اور آخرت کے منکروں کو ہے کہ ان کی موت تک ان کے پاس وقت ہے اس عرصہ میں وہ آزادانہ زندگی بسر کرلیں مزے اڑالیں، مال و دولت جیسے بھی ہاتھ لگتا ہے سمیٹ لیں۔ اور اللہ کی آیات کے مقابلہ میں جتنی باتیں بنا سکتے ہیں انہیں کھلی چھٹی ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی وہ اپنی ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں گرنے والے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کلوا وتمتعوا قلیلاً…: سورت کے آخر میں قیامت کو جھٹلانے والوں کو پھر خطاب ہے کہ دنیا میں کھلاو اور فائدہ اٹھا لو، یہ سامان بالکل قلیل ہے، جیسا کہ فرمایا ا :(قل متاع الدنیا قلیل) (النسائ : ٨٨) ” کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔ “ یقیناً تم مجرم ہو، قیامت کے دن تمہارے جیسے جھٹلانے والوں کے لئے بہت بڑی خرابی اور بربادی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ ، یعنی کھاؤ پیو اور آرام اٹھا لو تھوڑے دن کیونکہ تم مجرم ہو، آخر کار سخت عذاب میں جانا ہے۔ یہ مکذبین کو خطاب ہے۔ دنیا میں، انبیاء کے ذریعہ ان کو کہا گیا ہے کہ یہ تمہارا عیش و آرام چند روزہ ہے پھر عذاب ہی عذاب ہے (کذا فسرہ، ابوحیان)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ۝ ٤٦- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ ۔ ” (اے کفار و مشرکین ) تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔ “- تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :24 اب کلام ختم کرتے ہوئے نہ صرف کفار مکہ کو بلکہ دنیا کے تمام کفار کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں ۔ سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :25 یعنی دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani