50۔ 1 یعنی جب قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس کے بعد اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لائیں گے۔
[٢٨] یعنی حق و باطل میں امتیاز کے لحاظ سے پندو نصیحت کے لحاظ سے، انسان کو نیک و بد سمجھانے کے لحاظ سے اور اسے اس اخروی انجام سے آگاہ کرنے کے لحاظ سے قرآن سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہوسکتی۔ پھر اگر یہ لوگ اس پر بھی ایمان لانے کو تیار نہیں تو کیا اس کے بعد کوئی اور کتاب آسمان سے اترنے والی ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اس آیت پر پہنچے تو یوں کہے : امنا باللّٰہ (مستدرک حاکم)
فبای …: یعنی قرآن جو اللہ کا اپنا کلام ہے اور جس کا انداز انتہائی موثر اور دل نشیں ہے، جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کا جواب کوئی پیش کرسکے گا، اس پر یہ کفار ایمان نہیں لاتے تو پھر وہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے ؟
فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ ، یعنی جب یہ لوگ قرآن جیسی عجیب و غریب بلیغ اور رحمتوں سے پر واضح دلائل کی کتاب پر ایمان نہ لائے تو اس کے بعد اب کس بات پر ایمان لائیں گے مراد ان کے ایمان سے مایوسی کا اظہار ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب تلاوت کرنے وال اس آیت پر پہنچے تو اس کو کہنا چاہئے امنا باللہ یعنی ہم اللہ پر ایمان لے آئے۔ نماز سے خارج میں اور نوافل میں یہ الفاظ کہنے چاہئیں مگر فرائض میں اور سنن میں اس زیادتی سے احتراز کرنا روایات حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس میں نہ کہا جائے۔ واللہ اعلم - تمت سورة المرسلت بحمد اللہ الاخریوم من رجب 1391 ھ و بحمد تم الجزالتاسع والعشرون من القرآن اللہ الموفق لاتمام الباقی
فَبِاَيِّ حَدِيْثٍؚبَعْدَہٗ يُؤْمِنُوْنَ ٥٠ ۧ- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
آیت ٥٠ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ۔ ” تو اب اس (قرآن) کے بعد یہ اور کس کلام پر ایمان لائیں گے ؟ “- قرآن جیسا کلام سن کر بھی جس انسان کی آنکھیں نہیں کھلیں ‘ تو اس کے بعد اس کی آنکھیں بھلا کب کھلیں گی ؟
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :27 یعنی جو بڑی سے بڑی چیز انسان کو حق و باطل کا فرق سمجھانے والی اور ہدایت کا راستہ دکھانے والی ہو سکتی تھی وہ قرآن کی صورت میں نازل کر دی گئی ہے ۔ اس کو پڑھ کر یا سن کر بھی اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا تو اس کے بعد پھر اور کیا چیز ایسی ہو سکتی ہیں جو اس کو راہ راست پر لا سکے؟