Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پہاڑیوں کی تنصیب ، زمین کی سختی اور نرمی دعوت فکر ہے جو مشرک اور کفار قیامت کے آنے کے منکر تھے اور بطور انکار کے آپس میں سوالات کیا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کرتے تھے ان کے جواب میں اور قیامت کے قائم ہونے کی خبر میں اور اس کے دلائل میں پروردگار عالم فرماتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں؟ پھر خود فرماتا ہے کہ یہ قیامت کے قائم ہونے کی بابت سوالات کرتے ہیں جو بڑا بھاری دن ہے اور نہایت دل ہلا دینے والا امر ہے ۔ حضرت قتادہ اور ابن زید نے اس نبا عظیم ( بہت بڑی خبر ) سے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا مراد لیا ہے ۔ مگر حضرت مجاہد سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے ، لیکن بظاہر ٹھیک بات یہی ہے کہ اس سے مراد مرنے کے بعد جینا ہے جیسے کہ حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید کا قول ہے ، پھر اس آیت ( الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ Ǽ۝ۭ ) 78- النبأ:3 ) جس میں یہ لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں میں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف محاذوں پر ہیں ان کا اختلاف یہ تھا کہ مومن تو مانتے تھے کہ قیامت ہو گی لیکن کفار اس کے منکر تھے ، پھر ان منکروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے کہ تمہیں عنقریب اس کا علم حاصل ہو جائے گا اور تم ابھی ابھی معلوم کر لو گے ، اس میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں بیان فرما رہا ہے جن سے قیامت کے قائم کرنے پر اس کی قدرت کا ہونا صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے کہ جب وہ اس تمام موجودات کو اول مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ ان کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو گا ؟ تو فرماتا ہے دیکھو کیا ہم نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش نہیں بنایا کہ وہ بچھی ہوئی ہے ، ٹھہری ہوئی ہے حرکت نہیں کرتی تمہاری فرماں بردار ہے اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اور پہاڑوں کی میخیں بنا کر زمین میں ہم نے گاڑ دیا ہے ، تاکہ نہ وہ ہل سکے ، نہ اپنے اوپر کی چیزوں کو ہلا سکے ، زمین اور پہاڑوں کی پیدائش پر ایک نظر ڈال کر پھر تم اپنے آپ کو دیکھو کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا یعنی مرد و عورت کو آپس میں ایک دوسرے سے نفع اٹھاتے ہو اور توالد تناسل ہوتا ہے بال بچے پیدا ہو رہے ہیں جیسے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 21؀ ) 30- الروم:21 ) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اس نے اپنی مہربانی سے تم میں آپس میں محبت اور رحم ڈال دیا ، پھر فرماتا ہے ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ختم ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کر لو ، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہو جائے ، اسی معنی کی اور آیت سورہ فرقان میں بھی گزر چکی ہے ، رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے ، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھک لے ، عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں ، حضرت قتادہ نے فرمایا ہے کہ رات سکون کا باعث بن جاتی ہے اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن ، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے ، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کر سکو جا آ سکو ۔ بیوپار ، تجارت ، لین دین کر سکو اور اپنی روزیاں حاصل کر سکو ، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنا دی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے مضبوط پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں ، پھر فرمایا ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کر دیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کر دیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہوائیں چلتی ہے ، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے معصرات سے مراد بعض نے تو ہوا لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں ۔ مرأۃ معصرۃ عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہو ، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو ، حضرت حسن اور قتادہ نے فرمایا معصرات سے مراد آسمان ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا 48؀ۚ ) 30- الروم:48 ) اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے ۔ ثجاجاً کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو ، ایک حدیث میں ہے افضل حج وہ ہے جس میں لبیک خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں اس حدیث میں بھی لفظ ثج ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم روئی کا پھایا رکھ لو ، اس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں ، اس روایت میں بھی لفظ اثج ثجا ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے ، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ ابر سے پانی کثرت سے مسلسل برستا ہی رہتا ہے ، واللہ اعلم ، پھر ہم اس پانی سے جو پاک ، صاف ، بابرکت ، نفع بخش ہے ، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو ترو تازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں ، رنگوں خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول ان سے پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں ۔ الفاقاً کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ Ć۝ ) 13- الرعد:4 ) زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت ، کھیتیاں ، کھجور کے درخت ، بعض شاخ دار ، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر ، سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقینا عقل مندوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نے توحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار و مشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے، جبکہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن، واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] کفار مکہ کے نزدیک قیامت کا تصور اور نظریہ ایک عجوبہ چیز تھی۔ جب قرآن نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ قیامت فی الواقع آنے والی ہے اور تمہیں تمہارے مٹی میں گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے تمہارے اعمال کی باز پرس کی جائے گی تو اس کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے سامنے آپس میں ہی گفتگو کرتے کہ بھئی یہ قیامت کیا بلا ہے ؟ ہم مٹی میں مل جانے کے بعد کیونکر زندہ ہوسکتے ہیں ؟۔ آج تک تو کوئی مرا ہوا زندہ ہوا نہیں۔ پھر یہ کیسی انہونی بات ہے اور یہ آئے گی کب ؟ یہی وہ سوالات تھے جو ان کی دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں سے بھی، نبی آخرالزمان سے بھی اور آپس میں بھی ایسے سوالات کرتے رہتے تھے اور اس بات سے ان کا مقصد مسلمانوں کو چڑانا ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) عم یتسآء لون…: اس سورت میں قیامت کے حق ہونے کے دلائل اور اس کے کچھ احوال بیان کئے گئے ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت کے ساتھ ساتھ یہ بتایا کہ ایک دن تمہیں زندہ ہو کر اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور تمہیں تمام نیک و بد اعمال کی جزا ملنی ہے تو سننے والوں نے آپ سے میں سوال شروع کردیئے کہ کیا واقعی قیامت ہوگی ؟ آیا یہ ممکن بھی ہے ؟ پھر وہ قیامت کس طرح ہوگی ؟ وغیرہ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ کس چیز کا حال دریافت کرتے ہیں اس بڑے واقعہ کا حال دریافت کرتے ہیں جس میں یہ لوگ (اہل حق کیساتھ) اختلاف کر رہے ہیں (مراد قیامت ہے اور دریافت کرنے سے مراد بطور انکار کے دریافت کرنا ہے اور مقصود اس سوال و جواب سے اذہان کا ادھر متوجہ کرنا اور تفسیر بعدالابہام سے اس کا اہتمام شان ظاہر کرنا ہے، آگے ان کے اختلاف کا بےوجہ اور باطل ہونا بیان کیا گیا ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ قیامت آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (یعنی جب دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان پر عذاب واقع ہوگا تب حقیقت اور حقیقت قیامت کی منکشف ہوجاوے گی اور ہم) پھر (کرر کہتے ہیں کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (اور چونکہ وہ لوگ اس کو مستبعد یا محال سمجھتے ہیں، آگے اس کے امکان اور وقوع کا بیان ہے کہ اس کو محال سمجھنے سے ہماری قدرت کا انکار لازم آتا ہے اور ہماری قدرت کا انکار نہایت عجیب ہے کیونکہ کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو (زمین) کی میخیں نہیں بنایا (یعنی مثل میخوں کے بنایا، جیسا کسی چیز میں میخیں لگا دینے سے وہ چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلتی اسی طرح زمین کہ پہاڑوں سے مستقر کردیا اس کی تحقیق سورة نحل میں گز چکی ہے) اور (اس کے علاوہ ہم نے اور بھی دلائل قدرت ظاہر فرمائے چنانچہ) ہم ہی نے تم کو جوڑا جوڑا (یعنی مرد و عورت) بنایا اور ہم ہی نے تمہاری نیند کو حراحت کی چیز بنایا اور ہم ہی نے رات کو پردہ کی چیز بنایا اور ہم ہی نے دن کو معاش کا وقت بنایا اور ہم ہی نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ہم ہی نے (آسمان میں) ایک روشن چراغ بنایا (مراد آفتاب ہے بقولہ تعالیٰ وجعل الشمس سراجاً ) اور ہم ہی نے پانی بھرے بادلوں سے بہت پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی اور گنجان باغ پیدا کریں (اور ان سب سے ہمارا کمال قدرت ظاہر ہے پھر قیامت پر ہمارے قادر ہونے کا کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ یہ بیان تھا امکان کا آگے وقوع کا ذکر ہے کہ) بیشک فیصلہ کا دن ایک معین وقت ہے یعنی جس دن صور پھونکا جاوے گا پھر تم لوگ گروہ گروہ ہو کر آؤ گے (یعنی ہر امت جدا جدا ہوگی، پھر مومن جدا، کافر جدا، پھر ابرار جدا، شرار جدا، سب ایک دوسرے سے ممتاز ہو کر میدان قیامت میں حاضر ہوں گے) اور آسمان کھل جاوے گا پھر اس میں دروازے ہی دروازے ہوجاویں گے (یعنی اسقدر بہت سا کھل جاوے گا جیسے بہت سے دروازے ملا کر بہت بڑی جگہ کھلی ہوتی ہی پس لکام مبنی ہے تشبیہ پر، اب یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ دروازے تو آسمان میں اب بھی ہیں پھر اس دن دروازے ہونے کے کیا معنی اور یہ کھلنا نزول ملائکہ کے لئے ہوگا جیسے سورة فرقان میں تشق السماء سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی شرح وہاں گزری ہے) اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) ہٹا دیئے جائیں گے سو وہ ریت کی طرح ہوجاویں گے (کقولہ تعالیٰ کثیباً مھیلاً اور یہ واقعات نفخہ ثانیہ کے وقت ہوں گے البتہ تسییر جبال میں یہاں بھی اور جہاں جہاں واقع ہوا ہے دونوں احتمال ہیں یا تو نفخہ ثانیہ کے بعد کہ اس سے عالم کی سب چیزیں اپنی ہئیت پر عود کر آویں گی، جب حساب کا وقت آوے گا پہاڑوں کو زمین کے برابر کردیا جاوے گا تاکہ زمین پر کوئی آڑ پہاڑ نہ رہے سب ایک ہی میدان میں نظر آویں، اور یا یہ نفخہ اولیٰ کا وقتہ و گا جس سے خود فنا کرنا مقصود بالذات ہوگا، پھر اس تقدیر پر یوم کو ان سب واقعات کا ظرف فرمانا اس بناء پر ہوگا کہ نفخہ اولیٰ سے نفخہ ثانیہ تک کا مجموعہ ایک یوم قرار دے لیا گیا، واللہ اعلم آگے اس یوم الفصل میں جو فیصلہ ہوگا اس کا بیان ہے یعنی) بیشک دوزخ ایک گھات کی جگہ ہے (یعنی عذاب کے فرشتے انتظار اور تاک میں ہیں کہ کافر آویں تو ان کو پکڑتے ہی عذاب دینے لگیں اور وہ) سرکشوں کا ٹھکانا (ہے) جس میں وہ بےانتہا زمانوں (پڑے) رہیں گے (اور) اس میں نہ تو وہ کسی ٹھنڈک (یعنی راحت) کا مزہ چکھیں گے (اس سے زمہریر یعنی سخت سردی کی نفی نہیں ہوئی، ) اور نہ پینے کی چیز کا (جس سے پیاس بجھے) بجز گرم پانی اور پیپ کے یہ (ان کو) پورا بدلہ ملے گا (ور وہ اعمال جن کا یہ بدلہ ہے یہ ہیں کہ) وہ لوگ حساب (قیامت) کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور ہماری (ان) آیتوں کو (جن میں حساب و دیگر امور حقہ کی خبر تھی) خوب جھٹلاتے تھے اور ہم نے (ان کے اعمال میں سے) ہر چیز کو (ان کے نامہ اعمال میں) لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے سو (ان اعمال پر ان کو مطلع کر کے کہا جاوے گا کہ اب ان اعمال کا) مزہ چکھو کو ہم تم کو سزا ہی بڑھاتے چلے جائیں گے (یہ تو کافروں کا فیصلہ ہوا آگے اہل ایمان کا فیصلہ مذکور ہے کہ) خدا سے ڈرنے والوں کے لئے بیشک کامیابی ہی یعنی (کھانے اور سیر کو) باغ (جن میں طرح طرح کے میوے ہوں گے) اور انگور ( یہ تخصیص بعد التعمیم اہتمام شان کے لئے ہے) اور (دل بہلانے کو) نوخاستہ ہم عورتیں ہیں اور (پینے کو) لبالب بھرے ہوئے جام شراب (اور) وہاں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ (کیونکہ یہ باتیں وہاں محض معدوم ہیں) یہ (ان کو ان کی نیکیوں کا) بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہوگا آپ کے رب کی طرف سے جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو دونوں کے درمیان میں ہیں (اور جو) رحمان ہے (اور) کسی کو اس کی طرف سے (مستقل) اختیارنہ ہوگا کہ (اس کے سامنے) عرض معروض کر کے س۔ جس روز تمام ذی ارواح اور فرشتے (خدا کے روبرو) صف بستہ (خشوع و خضوع کے ساتھ) کھڑے ہوں گے (اس روز) کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جسکو رحمان (بولنے کی) اجازت دیدے اور وہ شخص بات بھی ٹھیک کہے (ٹھیک بات سے مراد وہ بات جس کی اجازت دی گئی ہے یعنی بولنا بھی محدود و مقید ہوگا، یہ نہیں کہ جو چاہے بولنے لگے اور مستقل اختیار سے اوپر یہی مراد ہے، آگے اوپر کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے کہ) یہ (دن جس کا اوپر ذکر ہوا) یقینی دن ہے سو جسکا جی چاہے (اس کے حالات سن کر) اپنے رب کے پاس (اپنا) ٹھکانا بنا رکھے (یعنی نیک عمل کرے کہ وہاں نیک ٹھکانا ملے، آگے اتمام حجت ہے کہ لوگو) ہم نے تم کو ایک نزدیک آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے (جو کہ ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے) جس دن ہر شخص ان اعمال کو (اپنے سامنے حاضر) دیکھ لے گا جو اس نے اپنے ہاتھوں کئے ہوں گے اور کافر (حسرت سے) کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوجاتا (تاکہ عذاب سے بچتا اور یہ اس وقت کہے گا جب چوپائے جانور مٹی کردیئے جاویں گے، رواہ فی الدرعن ابی ہریرة۔ ) - معارف وسائل - عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ لفظ عم دو حرفوں سے مرکب عن اور ماحرف ما استفہام کے لئے آتا ہے۔ اس ترکیب میں حرف ما میں سے الف ساقط کردیا گیا ہے معنے یہ ہوئے کہ یہ لوگ کس چیز میں باہمی سوال و جواب کر رہے ہیں۔ پھر خود ہی اس کا جواب دیا گیا عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ ۝ ۙالَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْن، لفظ انباء کے معنے خبر کے ہیں مگر ہر خبر کو نبار نہیں بلکہ جب کوئی عظیم الشان خبر ہو اس کو نباء کہا جاتا ہے مراد اس انبا یعنی خبر عظیم الشان سے قیامت ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ یہ لوگ اہل مکہ اس عظیم الشان خبر یعنی قیاتم کے بارے میں بحث اور سوال جواب کر رہے ہیں جس میں ان کے آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔- حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو کفار مکہ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے متعلق رائے زنی اور چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے۔ قرآن میں قیامت کا ذکر اہمیت کیساتھ آیا ہے اور ان کے نزدیک گویا یہ محال چیز تھی اس لئے اس میں گفتگو بکثرت چلتی تھی، کوئی تصدیق کرتا کوئی انکار، اس لئے اس سورت کے شروع میں انکا یہ حال ذکر کر کے آگے قیامت کا واقع ہونا مذکور ہے اور ان کے نزدیک جو اس کے واقع ہونے میں اشکال اور استبعاد تھا اس کا جواب دیا گیا اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ سوال جواب کوئی واقعی تحقیق کے لئے نہیں تھا بلکہ محض استہزاٗ تمسخر کے لئے تھا واللہ اعلم، قرآن کریم نے ان کے جواب میں ایک ہی جملہ کو تاکید کے لئے دو مرتبہ فرمایا ۭكَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ۝ ۙثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْن، کلا کے معنی ہیں ہرگز نہیں، مراد یہ ہے کہ یہ سوال و جواب اور بحث و تحقیق سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں، وہ تو اجب سامنے آوے گی اس وقت حقیقت معلوم ہوگی۔ یہ ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں بحث وسوال اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر فرمایا کہ اس کی حقیقت خود ان لوگوں پر عنقریب واضح ہوجائے گی یعنی مرنے کے بعد ان کو دوسرے عالم کی چیزوں کا انکشاف ہوگا اور وہاں کے ہولناک مناظر کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت حقیقت کھل جائے گی۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت و صنعت کے چند مناظر کا ذکر فرمایا ہے جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو ایک مرتبہ فنا کر کے دوبارہ پھر ویسا ہی پیدا کر دے، اس میں زمین اور اس کے پہاڑوں کی تخلیق پھر انسان کی تخلیق مرد و عورت کے جوڑے کی صورت میں بیان فرمائی پھر انسان کی راحت اور صحت اور کاروبار کے لئے سازگاز حالات پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، اس میں ایک یہ ارشاد ہے ۙوَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتا سبات سبت سے مشتق ہے جس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند کو حق تعالیٰ نے ایسی چیز بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام ہموم و غموم اور افکار کو قطع کر کے اس کے قلب کو دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی راحت اس کا بدل نہیں ہو سکتی، اس لئے سبات کا ترجمہ بعض حضرات نے راحت سے بھی کیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ١ ۚ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٥) یہ قریش کس چیز کے متعلق میں گفتگو کر رہے ہیں اس عظیم الشان قرآن حکیم کے متعلق جس کی یہ لوگ تکذیب اور بعض تصدیق کر رہے ہیں کیونکہ جبریل امین جس وقت حضور کے پاس قرآن کریم لے کر آئے، اور آپ نے قریش کے سامنے اس کو پڑھا تو اس بارے میں وہ لوگ گفتو و شنید کرنے لگے، چناچہ ان میں سے بعض نے تو اس کی تصدیق کی اور بعض نے تکفیر کی۔ ہرگز ایسا نہیں ان کو موت کے وقت عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے اور ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ قبر میں کیا معاملہ ہوگا۔- شان نزول : عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (الخ)- ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت حسن سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم مبعوث کیے گئے تو کافر آپ کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ ۔ ” کس چیز کے بارے میں یہ لوگ آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟ “- یہ منظر کشی کا بہت خوبصورت انداز ہے ۔ ان دو الفاظ میں گویا اس بےچینی اور ہلچل کی تصویر کھینچ دی گئی ہے جو اہل مکہ کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سبب پیدا ہوگئی تھی۔ جیسے ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کیا نئی بات کردی ہے ؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ دنیا ختم ہوجائے گی پھر قیامت برپا ہوگی تمام انسانوں کو پھر سے زندہ کرلیا جائے گا ہر انسان سے اس کے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا وہاں کوئی کسی کا ُ پرسانِ حال اور مددگار نہیں ہوگا بھلا یہ سب کیسے ہوسکتا ہے ؟ مرنے کے بعد سب کا پھر سے زندہ ہوجانا ؟ اتنے انسانوں کا حساب کتاب ؟ ایک ایک عمل کا محاسبہ ؟ نہیں ‘ نہیں عقل نہیں مانتی گویا مکہ کے ہر گھر میں یہی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ‘ ہر محفل اور ہر چوپال میں انہی سوالات پر تبصرے ہو رہے ہیں ‘ پورے شہر کی فضا میں ایک یہی موضوع گردش کر رہا ہے ۔ غرض جہاں کہیں چار لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ان کی گفتگو کی تان یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani