Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 مطلب ہے کہ دن روشن بنایا تاکہ لوگ کسب معاش کے لئے جدو جہد کرسکیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] کام کرنے کے لیے دن :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ فطری ذرائع یہ ہیں کہ انسان دن کو کام کرے جبکہ اسے قدرتی روشنی آسانی سے میسر آتی ہے۔ اور رات کو آرام کرے اور نیند لے کیونکہ نیند کے لیے جس تاریکی کی ضرورت ہے وہ اسے رات کو آسانی سے قدرتی ذرائع سے مہیا ہوجاتی ہے اس کے برعکس اگر کوئی شخص رات کو کام کرتا رہے اور دن کو سویا کرے تو وہ نہ گہری نیند کا لطف حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس کے پورے فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ بعد اس کی صحت خراب ہوجاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد ارشاد فرمایا، وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا کہ انسان کی راحت و سکون کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو غذا وغیرہ کی ضروریات ملیں ورنہ وہ نیند موت ہوجائے گی۔ اگر ہمہ وقت رات ہی رہتی اور آدمی سوتا ہی رہتا تو یہ چیزیں کیسے حاصل ہوتیں، ان کے لئے جدوجہد اور محنت اور دوڑ دھوپ کی ضرورت ہے جو روشنی میں ہو سکتی ہیں اس لئے فرمایا کہ تمہاری راحت کو مکمل کرنے کے لئے ہم نے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کر کے اپنی معاشی ضروریات حاصل کرسکو، (آیت) فتبارک اللہ احسن الخالقین، اس کے بعد انسان کی راحت کے اس سامان کا ذکر ہے جو آسمان سے متعلق ہیں ان میں سب سے بڑی نفع بخش چیز آفتاب کی روشنی ہے اس کا ذکر فرمایا وّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا یعنی ہم نے آفتاب کو ایک روشن بھڑکنے والا چراغ بنادیا، پھر آسمان کے نیچے جو چیزیں انسان کی راحت کے لئے پیدا فرمائیں ان میں سب سے زیادہ ضرورت کی چیز پانی برسانے والے بادل ہیں ان کا ذکر فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا۝ ١١ ۠- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٦) اور ہم نے ہی دن کو معاش کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ہم نے ہی انسانوں کے لیے سورج کو روشن چراغ بنایا اور ہم نے ہی ہواؤں سے بادل لاکر کثرت کے ساتھ پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کی سبزیاں غلے اور گنجان باغات اگائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :8 یعنی رات کو اس غرض کے لیے تاریک بنا دیا کہ اس میں تم روشنی سے محفوظ رہ کر زیادہ آسانی کے ساتھ نیند کا سکون حاصل کر سکو ، اور دن کو اس مقصد سے روشن بنایا کہ اس میں تم زیادہ سہولت کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کام کر سکو ۔ زمین پر باقاعدگی کے ساتھ مسلسل رات اور دن کا الٹ پھیر کرتے رہنے کے بے شمار فوائد میں سے صرف اس ایک فائدے کی طرف اشارہ یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بے مقصد ، یا اتفاقاً نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی حکمت کام کر رہی ہے جس کا براہ راست تمہارے اپنے مفاد سے گہرا تعلق ہے ۔ تمہارے وجود کی ساخت اپنے سکون و راحت کے لیے جس تاریکی کی طالب تھی وہ رات کو ، اور اپنی معیشت کے لیے جس روشنی کی طالب تھی وہ دن کو مہیا کی گئی ہے ۔ تمہاری ضروریات کے عین مطابق یہ انتظام خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ کسی حکیم کے بغیر نہیں ہوا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 65 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حاشیہ 32 ، المومن ، حاشیہ 85 ۔ الزخرف ، حاشیہ 4 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani