[١٠] سورج کی دوری اور فوائد :۔ وَھَّاجاً : الوھج بمعنی سورج یا آگ کی بھڑک جس میں تپش بھی ہو اور چمک بھی۔ یعنی سورج ایک بھڑکتا ہوا گولا ہے جو انسانوں اور اہل زمین کو حرارت بھی مہیا کرتا ہے اور روشنی بھی۔ یہ سورج زمین سے ٩ کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلہ پر رکھا گیا ہے۔ اگر یہ فاصلہ اس سے کم رکھا جاتا تو انسان سورج کی تپش سے جل بھن کر مرجاتا اور اگر یہ فاصلہ زیادہ کردیا جاتا تو انسان سردی سے ٹھٹھر کر مرجاتا۔ سورج کو زمین سے اتنے مناسب فاصلہ پر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
وجعلنا سراجاً وھاجاً :” وھاجاً :” وھاجاً ” وھج “ سے مبالغہ ہے جس میں حرارت اور روشنی دونوں جمع ہوتی ہیں، بہت روشن اور گرم چراغ۔ مراد سورج ہے۔ ایسا دہکتا ہوا چراغ کہ کروڑوں میل دور ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص اسے تھوڑی دیر مسلسل دیکھنے کی حماقت کر بیٹھے تو نظر ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا ١٣ ۠- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سرج - السِّرَاجُ : الزّاهر بفتیلة ودهن، ويعبّر به عن کلّ مضیء، قال : وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً [ نوح 16] ، سِراجاً وَهَّاجاً [ النبأ 13] ، يعني : الشمس . يقال : أَسْرَجْتُ السّراج، وسَرَّجْتُ كذا : جعلته في الحسن کالسّراج، قال الشاعر : وفاحما ومرسنا مُسَرَّجاً والسَّرْجُ : رحالة الدّابّة، والسَّرَّاجُ صانعه .- ( س ر ج ) السراج ( چراغ) وہ چیز جو بتی اور تیل سے روشن ہوئی ہے ۔ مجازا ہر روشن چیز کو سراج کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً [ نوح 16] اور سورج کو چراغ ٹھہرایا ہے ۔ سِراجاً وَهَّاجاً [ النبأ 13] اور روشن چراغ بنایا ۔ تو یہاں روشن چراغ سے مراد سورج ہے ۔ اسرجت السراج کے معنی چراغ روشن کرنے کے ہیں اور سرجت کذا کے معنی چراغ کی مثل کسی چیز کو خوبصورت بنانے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) وفاحما ومرسنا مُسَرَّجاً کوئلہ کی مثل سیاہ بال اور سراج کی مثل خوبصورت ناک السرج کے معنی زین کے ہیں اور زین ساز کو سراج کہا جاتا ہے ۔- وهج - الوَهَجُ : حصولُ الضّوءِ والحرِّ من النّار، والوَهَجَانُ کذلک وقوله : وَجَعَلْنا سِراجاً وَهَّاجاً- [ النبأ 13] أي : مضيئا، وقد وَهَجَتِ النارُ تَوْهَجُ ، ووَهَجَ يَهِجُ ويَوْهَجُ ، وتَوَهَّجَ الجوهر : تلألأ . ( و ھ ج ) الوھج کے معنی گر می کی حرارت یا روشنی کے ہیں اور یہی معنی وھجان کے ہیں چناچہ آیت : ۔ وَجَعَلْنا سِراجاً وَهَّاجاً [ النبأ 13] اور آفتاب کو روشن چراغ بنایا ؛ میں وھاج کے معنی ( با فراط ) روشنی کر نیوالا کے ہیں ۔ وھجت النار ( ف ص س ) آگ رو شن ہونا ۔ تو ھج الجوا ھر جو ہر چمک اٹھا ۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :10 مراد ہے سورج ۔ اصل میں لفظ وھاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں اور نہایت روشن کے بھی ، جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا قطر زمین کے قطر سے 109 گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے 3 لاکھ 33 ہزار گنا زیادہ بڑا ہے ۔ اس کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے ۔ زمین سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل دور ہونے کے باوجود اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے ، اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں میں اس کی تپش کی وجہ سے درجہ حرارت 140 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دور ہونے کی باعث بے انتہا سرد ، اسی وجہ سے یہاں انسان ، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے ۔ اسی سے قوت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں جو ہمارے لیے سبب حیات بنے ہوئے ہیں ۔ اسی سے ہماری فصلیں پک رہی ہیں اور ہر مخلوق کو غذا بہم پہنچ رہی ہے ۔ اسی کی حرارت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں اٹھاتی ہیں جو ہواؤں کے ذریعہ سے زمین کے مختلف حصوں پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں برستی ہیں ۔ اس سورج میں اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سلگا رکھی ہے جو اربوں سال سے روشنی حرات اور مختلف اقسام کی شعاعیں سارے نظام شمسی میں پھینکے چلی جا رہی ہے ۔