16۔ 1 شاخوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے درخت یعنی گھنے باغ۔
[١١] بارش کا نزول اور روئیدگی :۔ پھر اسی سورج کی حرات سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر پانی کے قطرے بن کر برسنے لگتے ہیں۔ یہی بارش زمین سے نباتات اور درختوں کی روئیدگی کا سبب بنتی ہے اور یہی نباتات روئے زمین پر بسنے والی تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ اور زندگی کی بقا کا سبب بنتی ہے۔
وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا ١٦ ۭ- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- لفف - قال تعالی: فَإِذا جاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء 104] أي : منضمّا بعضکم إلى بعض . يقال : لَفَفْتُ الشیء لَفّاً ، وجاء وا ومن لَفَّ لِفَّهُمْ ، أي : من انضمّ إليهم، وقوله :- وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ 16] أي : التفّ بعضها ببعض لکثرة الشّجر . قال : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] والْأَلَفُّ : الذي يتدانی فخذاه من سمنه، والْأَلَفُّ أيضا : السّمين الثقیل البطیء من الناس، ولَفَّ رأسه في ثيابه، والطّائر رأسه تحت جناحه، واللَّفِيفُ من الناس :- المجتمعون من قبائل شتّى، وسمّى الخلیل کلّ كلمة اعتلّ منها حرفان أصليّان لفیفا .- ( ل ف ف )- الففت الشئی لفا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مدغم کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء 104] اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے ۔ اور محاورہ ہے : جآء وا من لف لفھم یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے ۔ اور آیت کریمہ : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ 16] اور گھنے گھنے باغ میں الفاف سے مراد ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں ۔ التف ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا ۔ قرآن میں ہے : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] اور پنڈلی سے پندلی لپٹ جائے گی ۔ الالف۔ وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی الف کہاجاتا ہے ۔ لف راسہ ۔ اس نے اپنے سر کو ( کپڑوں ) ۔۔۔ میں ) چھپالیا ۔ اللفیف۔ مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصل میں سے دو حرف علت ہوں ۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :11 زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کے جو جو حیرت انگیز کمالات کارفرما ہیں ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے: جلد دوم ، النحل حاشیہ 53 الف ۔ جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 17 ۔ الشعراء ، حاشیہ 5 ۔ الروم حاشیہ 35 ۔ جلد چہارم ، فاطر ، حاشیہ 19 ۔ یٰسین ، حاشیہ 29 ۔ المومن ، حاشیہ 20 ۔ الزخرف ، حواشی 10 ۔ 11 ۔ جلد پنجم ، الواقعہ ، حواشی 28 تا 30 ۔ ان آیات میں پے درپے بہت سے آثار و شواہد کو پیش کر کے قیامت اور آخرت کے منکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم آنکھیں کھول کر زمین اور پہاڑوں اور خود اپنی پیدائش اور اپنی نیند اور بیداری اور روز و شب کے اس انتظام کو دیکھو ، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اور آسمان کے چمکتے ہوئےسورج کو دیکھو ، بادلوں سے برسنے والی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو ، تو تمہیں دو باتیں ان میں نمایاں نظر آئیں گی ۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں آ سکتا ہے ، نہ اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر چیز کے اندر ایک عظیم حکمت کام کر رہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں ہو رہا ہے ۔ اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا ہے کہ جو قدرت ان ساری چیزوں کو وجود میں لانے پر قادر ہے وہ انہیں فنا کر دینے اور دوبارہ کسی اور صورت میں پیدا کر دینے پر قادر نہیں ہے ۔ اور یہ بات بھی صرف ایک بے عقل ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں کوئی کام بھی بے مقصد نہیں کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں انسان کو سمجھ بوجھ ، خیر و شر کی تمیز ، اطاعت و عصیان کی آزادی ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں ، انسان اس کی دی ہوئی چیزوں کو اچھی طرح استعمال کرے یا بری طرح ، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ، کوئی بھلائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی میں مل کر ختم ہو جائے گا اور برائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں مل کر ختم ہو جائے گا ، نہ بھلے کو اس کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا ، نہ برے سے اس کی برائی پر کوئی باز پرس ہو گی ۔ زندگی بعد موت اور قیامت و آخرت پر یہی دلائل ہیں جو جگہ جگہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 7 ۔ جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 9 ۔ الروم ، حاشیہ ، 6 ۔ جلد چہارم ، سبا ، حواشی 10 ، 12 ۔ الصافات ، حواشی 8 ۔ 9 ) ۔