Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جماعت در جماعت حاضری یعنی قیامت کا دن ہمارے علم میں مقرر دن ہے ، نہ وہ آگے ہو ، نہ پیچھے ٹھیک وقت پر آ جائے گا ۔ کب آئے گا اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ١٠٤؀ۭ ) 11-ھود:104 ) نہیں ڈھیل دیتے ہم انہیں لیکن وقت مقرر کے لئے ، اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور لوگ جماعتیں جماعتیں بن کر آئیں گے ، ہر ایک امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ الگ الگ ہو گی جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ ۚ فَمَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 71؀ ) 17- الإسراء:71 ) جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں سمیت بلائیں گے ، صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دونوں صور کے درمیان چالیس ہوں گے ، لوگوں نے پوچھا چالیس دن؟ کہا میں نہیں کہہ سکتا ، پوچھا چالیس مہینے؟ کہا مجھے خبر نہیں پوچھا چالیس سال؟ کہا میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور جس طرح درخت اگتے ہیں لوگ زمین سے اگیں گے ، انسان کا تمام بدن گل سڑ جاتا ہے لیکن ایک ہڈی اور وہ کمر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے قیامت کے دن مخلوق مرکب کی جائے گی ، آسمان کھول دیئے جائیں گے اور اس میں فرشتوں کے اترنے کے راستے اور دورازے بن جائیں گے ، پہاڑ چلائے جائیں گے اور بالکل ریت کے ذریعے بن جائیں گے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۭ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۭ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ 88؀ ) 27- النمل:88 ) ، یعنی تم پہاڑوں کو دیکھ رہے ہو جان رہے ہو وہ پختہ مضبوط اور جامد ہیں لیکن یہ بادلوں کی طرح چلنے پھرنے لگیں اور جگہ ہے آیت ( وتکون الجبال کالعھن المنفوش ) پہاڑ مثل دھنی ہوئی اون کے ہو جائیں گے ، یہاں فرمایا پہاڑ سراب ہو جائیں گے یعنی دیکھنے والا کہتا ہے کہ وہ کچھ ہے حالانکہ دراصل کچھ نہیں ۔ آخر میں بالکل برباد ہو جائیں گے ، نام و نشان تک نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ١٠٥؁ۙ ) 20-طه:105 ) ، لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ انہیں میرا رب پراگندہ کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان میں رہ جائے گی جس میں نہ کوئی موڑ ہو گا نہ ٹیلا اور جگہ سے ( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47؀ۚ ) 18- الكهف:47 ) جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو دیکھے گا کہ زمین بالکل کھل گئی ، پھر فرماتا ہے سرکش ، نافرمان ، مخالفین رسول کی تاک میں جہنم لگی ہوئی ہے یہی ان کے لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ ہے ۔ اس کے معنی حضرت حسن اور حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بھی کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں بھی نہیں جا سکتا ، جب تک جہنم پر سے نہ گزرے ، اگر اعمال ٹھیک ہیں تو نجات پا لی اور اگر اعمال بد ہیں تو روک لیا گیا اور جہنم میں جھونک دیا گیا ، حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں اس پر تین تین پل ہیں ، پھر فرمایا وہ اس میں مدتوں اور قرنوں پڑے کریں گے احقاب جمع ہے حقب کی ایک لمبے زمانے کو حقب کہتے ہیں بعض کہتے ہیں حقب اسی سال کا ہوتا ہے سال بارہ ماہ کا ۔ مہینہ تیس دن اور ہر دن ایک ہزار سال کا ، بہت سے صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے ، بعض کہتے ہیں ستر سال کا حقب ہوتا ہے ، کوئی کہتا ہے چالیس سال کا ہے ، جس میں ہر دن ایک ہزار سال کا ، بشیر بن کعب تو کہتے ہیں ایک ایک دن اتنا بڑا اور ایسے تین سو ساٹھ سال کا ایک حقب ، ایک مرفوع حدیث میں ہے حقب مہینہ کا ، مہینہ تیس دن کا ، سال بارہ مہینوں کا ، سال کے دن تین سو ساٹھ ہر دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ( ابن ابی حاتم ) لیکن یہ حدیث سخت منکر ہے اس کے راوی قاسم جو جابر بن زبیر کے لڑکے ہیں ، یہ دونوں متروک ہیں ، ایک اور روایت میں ہے کہ ابو مسلم بن علاء نے سلیمان تیمی سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی؟ تو جواب دیا کہ میں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم جہنم میں سے کوئی بھی بغیر مدت دراز رہے نہ نکلے گا پھر کہا اسی سے اوپر کچھ سال کا ہوتا ہے اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا جو تم گنتے ہو ، سدی کہتے ہیں سات سو حقب رہیں گے ہر حقب ستر سال کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا اور ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر کا ، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ آیت قدوقوا کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے ، خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ یہ آیت اور آیت الاماشاء ربک یعنی جہنمی جب تک اللہ چاہے جہنم میں رہیں گے ، یہ دونوں آیتیں توحید والوں کے بارے میں ہیں ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ احقاب تک رہنا متعلق ہو آیت حمیماوغساقا کے ساتھ یعنی وہ ایک ہی عذاب گرم پانی اور بہتی پیپ کا مدتوں رہے گا ، پھر دوسری قسم کا عذاب شروع ہو گا لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں حضرت حسن سے جب یہ سوال ہوا تو کہا کہ احقاب سے مراد ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے لیکن حقب کہتے ہیں ستر سال کو جس کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ احقاب کبھی ختم نہیں ہوتے ایک حقب ختم ہوا دوسرا شروع ہو گیا ان احقاب کی صحیح مدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، ہاں یہ ہم نے سنا ہے کہ ایک حقب اسی سال کا ، ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کا ، ان دوزخیوں کو نہ تو کلیجے کی ٹھنڈک ہو گی نہ کوئی اچھا پانی کا ملے گا ، ہاں ٹھنڈے کے بدلے گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا اور کھانے پینے کی چیز بہتی ہوئی پیپ ملے گی ، حمیم اس سخت گرم کو کہتے ہیں جس کے بعد حرارت کا کوئی درجہ نہ ہو ، اور غساق کہتے ہیں جہنمی لوگوں کے لہو پیپ پسینہ آنسو اور زخموں سے بہہ ہوئے خون پیپ وغیرہ کو اس گرم چیز کے مقابلہ میں یہ اس قدر سرد ہو گی جو بجائے خود عذاب ہے اور بیحد بدبو دار ہے ۔ سورہ ص میں غساق کی پوری تفسیر بیان ہو چکی یہ اب یہاں دوبارہ اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے ہر عذاب سے بچائے ، بعض نے کہا ہے برد سے مراد نیند ہے ، عرب شاعروں کے شعروں میں بھی برد نیند کے معنی میں پایا جاتا ہے ۔ پھر فرمایا یہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے ، ان کی بد اعمالیاں بھی تو دیکھو کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حساب کا کوئی دن آنے ہی کا نہیں ، ہم نے جو جو دلیلیں اپنے نبی پر نازل فرمائی تھیں یہ ان سب کو جھٹلاتے تھے ۔ کذاباً مصدر ہے اس وزن پر اور مصدر بھی آتے ہیں ، پھر فرمایا کہ ہم نے اپنے بندوں کے تمام اعمال و افعال کو گن رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھے ہوئے ہیں اور سب کا بدلہ بھی ہمارے پاس تیار ہے ۔ ان اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ اب ان عذابوں کا مزہ چکھو ، ایسے ہی اور اس سے بھی بدترین عذاب تمہیں بکثرت ہوتے رہیں گے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دوزخیوں کے لئے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں ۔ ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے ، حضرت ابو بردہ اسلمی سے سوال ہوا کہ دوزخیوں کے لئے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں ۔ فرمایا حضور علیہ السلام نے اس آیت کو پڑھ کر فرمایا ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانیوں نے تباہ کر دیا ، لیکن اس حدیث کے راوی جسر بن فرقد بالکل ضعیف ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] ان سب باتوں پر غور کرنے سے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کوئی چیز بھی بےمقصد پیدا نہیں کی۔ پھر کیا انسان کو ہی اس نے اتنی معجز نما قوتیں عطا کر کے بےکار پیدا کردیا ہوگا ؟ وہ جو چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو ؟ یہ سب باتیں حیات بعد الممات پر قوی دلائل ہیں اور ایک وقت یقیناً آنے والا ہے جب اس کائنات کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کرکے ان سے محاسبہ کیا جائے گا یہ کام کب ہوگا ؟ اللہ کے ہاں اس کے لیے بھی ایک ٹھیک وقت مقرر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان یوم الفصل کان میقاتاً : یعنی ہم نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنانے سے لے کر اخر آیات تک مذکور جو کچھ بنایا ہے، اگر دنیا کی پیدائش سے لے کر اس کے ختم ہونے تک اس میں جو نیکی یا بدی کی گئی ہے اس کی جزا و سزا کسی وقت بھی نہ ہو، نہ ظالم سے باز پرس ہو اور نہ مظلوم کی داد رسی ہو تو یہ سب کچھ تو بےنتیجہ رہا۔ اس لئے یقین رکھو کہ دنیا میں کئے گئے تمام اعمال کے فیصلے کے لئے ایک دن مقرر ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے :(وخلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجزی کل نفس بما کسبت وھم لایظلمون) (الجاثیہ : ٢٢)” اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا اور تاکہ ہر جانکو اس کی کمائی کا بدلا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا، یعنی فیصلہ کا دن جس سے مراد قیامت ہے وہ ایک موقت اور متعین حد ہے جس پر یہ دنیا ختم ہوجائے گی جبکہ صور پھونکا جائے گا اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ صور دو مرتبہ ہوگا پہلے نفخہ سے سارا عالم فنا ہوجائے گا دوسرے نفخہ سے پھر زندہ و قائم ہوجائیگا، اس دوسرے نفخہ کے وقت سارے عالم کے اگلے پچھلے انسان اپنے رب کے سامنے فوج در فوج ہو کر حاضر ہوں گے۔ حضرت ابوذر غفاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگ قیامت کے روز تین فوجوں میں تقسیم ہوں گے، ایک فوج ان لوگوں کی ہوگی جو پیٹ بھرے ہوئے لباس پہنے ہوئے سواریوں پر سوار میدان حشر میں آئیں گے، دوسری فوج پیادہ لوگوں کی ہوگی جو چل کر میدان میں آئیں گے، تیسری فوج ان لوگوں کی ہوگی جن کو چہروں کے بل گھسیٹ کر میدان حشر میں لایا جائے گا (مظہری بروایت نسائی و حاکم و بہیقی) بعض روایات میں افواج کی تشریح دس قسم کی افواج سے کی گئی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ حضارین محشر کی بیشمار جماعتیں اپنے اپنے اعمال و کردار کے اعتبار سے ہوں گی، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں، سب جمع ہو سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا۝ ١٧ ۙ- فصل ( جدا)- الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] - ( ف ص ل ) الفصل - کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔- وقت - الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] ،- ( و ق ت ) الوقت - ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧۔ ٢٠) بیشک فیصلے کا دن اولین و آخرین کے جمع ہونے کے لے ایک معین وقت ہے جس دن صور پھونکا جائے گا پھر تم لوگ گروہ در گروہ اور جماعت در جماعت آؤ گے اور آسمان کے دروازے کھل جائیں گے پھر اس میں راستے ہی راستے ہوجائیں گے اور روئے زمین سے پہاڑ ہٹا دیے جائیں گے۔ سو وہ ریت کی مانند ہوجائیں گے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا ۔ ” یقینا فیصلے کا دن ایک معین وقت ہے۔ “- یہ ہے وہ اصل بات جس کے لیے بطور تمہید گزشتہ آیات میں اللہ کی رنگا رنگ نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے اپنی نعمتوں کا اس قدر وسیع دستر خوان بچھایا ہے تو اس نے انسانوں پر لازماً کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی۔ جب خود انسانوں کے ہاں اصول ہے کہ ذمہ داریاں ( ) اور مراعات ( ) ایک ساتھ چلتی ہیں تو یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اپنی عطائوں کی بارش تو کرتا رہے اور اس پر ذمہ داری کوئی بھی نہ ڈالے۔ اس لیے تم لوگ یہ مت سمجھو کہ تم من مانی زندگی گزارتے رہو گے اور تم سے کوئی جوابدہی نہیں ہوگی۔ نہیں ‘ تم سے ایک ایک ذمہ داری اور ایک ایک نعمت کا حساب ہوگا اور اس کے لیے ہم نے فیصلے کا ایک دن پہلے سے مقرر کر رکھا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani