26۔ 1 یعنی یہ سزا ان کے اعمال کے مطابق ہے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔
[١٨] یعنی انہیں اتنی ہی سزا دی جائے گی جس قدر اس کے برے اعمال تھے۔ اس سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔ اور ان کے جرائم کی بنیاد یہ بات تھی کہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ان کا محاسبہ کیا جانے والا ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے آیات کا انکار کیا تھا اور پوری زندگی شتر بےمہار کی طرح آزادانہ گزار دی تھی۔
جَزَاۗءً وِّفَاقًا یعنی جو سزا ان کو جہنم میں دی جائے گی وہ ان کے عقائد باطلہ اور اعمال سیسہ کے مطابق ہوگی از روائے عدل و انصاف اس میں کوئی زیادتی نہ ہوگی فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا یعنی جس طرح تم دنیا میں اپنے کفر و انکار میں زیادتی ہی کرتے چلے گئے اور اگر جبراً تمہیں موت نہ آجاتی تو اور بڑھتے ہی رہتے اسی طرح آج اس کی جزاء یہ ہے کہ تمہارا عذاب بڑھتا ہی چلا جائے یہاں تک کفار و فجار کا بیان تھا آگے اس کے بالمقابل مومنین متقین کے ثواب اور نعمائے جنت کا تذکرہ ہے۔
جَزَاۗءً وِّفَاقًا ٢٦ ۭ- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - وفق - الوِفْقُ : المطابقة بين الشّيئين . قال تعالی: جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] والتَّوْفِيقُ نحوه لكنه يختصّ في التّعارف بالخیر دون الشّرّ. قال تعالی: وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] - ( و ف ق ) الوفق - ۔ دو چیزوں کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی ہونے کو کہتے ہیں قرآن نے اعمال کے نتائج کو ۔۔۔ جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] ( یہ ) بدلہ ہے پور اپورا ۔ توفیق یہ متعدی ہے اور عرف میں یہ خبر کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ( یعنی اسباب کا مقصد کے مطابق مہیا کردینا ) اور شر میں استعمال نہیں ہوتا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] اور مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی کے فضل سے ہے ۔
آیت ٢٦ جَزَآئً وِّفَاقًا ۔ ” بدلہ (ان کے اعمال کا) پورا پورا۔ “- ان لوگوں نے جیسے اعمال کیے ہوں گے ‘ ویسا ہی ان لوگوں کے ساتھ وہاں سلوک کیا جائے گا۔